امیر المومنین علیہ السلام کے مقدس صحن میں ایک قدیمی اور تاریخی عمارت، مسجد ’’عمران بن شاہین ‘‘ ہے ، جس کی تعمیر کے پشت پردہ ایک عجیب داستان ہے ۔
مسجد ’’عمران بن شاہین ‘‘ حرم مقدس علوی کی اہم عمارتوں میں سے ایک ہے جو کہ حرم کی داخلی عمارت میں واقع ہے۔
مسجد ’’ عمران بن شاہین‘‘ حرم مطہر علوی کے کس حصے میں واقع ہے، اس سلسلے میں پائے جانے والے اختلافات کے باوجود اس مسجد کی تاریخ، اس کے فن تعمیر کی تاریخ اور اس کا رقبہ ،اس رپورٹ میں انھیں سوالات کے جوابات دینے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔
’’عمران بن شاہین‘‘ مسجد، امیر المومنین علیہ السلام کے بیرونی حصے کے شمالی جانب اور ’’باب الطوسی‘‘ کی طرف جانے والی راہداری کے دائیں جانب واقع ہے۔ رواق کا وہ حصہ جو ’’عمران بن شاہین‘‘ نے چوتھی صدی ہجری کے وسط میںتعمیر کرایا تھا، آج وہ ’’مسجد عمران‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔اس لئے اس مسجد کو شہر مقدس نجف کی قدیمی ترین مسجد قرار دیا جا سکتا ہے۔
اس مسجد کے رواق کی تعمیر ۱۳۶۷ ہجری میں اس وقت ہوئی تھی جب ’’عضد الدولہ‘‘ عراق میں برسر اقتدار آیاتھا ، جب کہ عمران بن شاہین نے ۱۳۶۹ھ میں وفات پائی تھی۔
عمران بن شاہین اور عضد الدولہ کی داستان
’’فرحۃ القری‘‘ کتا میں’’سید عبد الکریم طاووس‘‘ ،آستانہ مقدس علوی کے خادموں میں سے ایک ’’ابن طحال‘‘ سے نقل کرتے ہیں : ’’عمران نے عضد الدولہ دیلمی کے حکم کی نافرمانی کی۔ عضد الدولہ سے فورا اسے بلوایا۔ مگر عمران جو کہ بہت زیادہ ڈرا ہوا تھا، اس نے بھاگ کر امیر المومنین علیہ السلام کی مرقد مطہر کے پر جاکر پناہ لی۔ اس نے امیر المومنین علیہ السلام کو خواب میں دیکھا کہ آپ اس سے فرما رہے ہیں: ’’بہت جلد عضد الدولہ یہاں پر آئے گا، اور پھر پیش آنے والے واقعات کی مکمل اس کو توضیح دی۔‘‘
امیر المومنین علیہ السلام نے خواب ہی میں عمران کو گنبد کے ایک گوشے کی نشاندہی کرائی اور فرمایا: ’’بس یہیں پر کھڑے ہو جاؤ، کوئی تمھیں نہیں دیکھ سکے گا۔ عضد الدولہ وارد ہوتا ہے ، زیارت ، دعا اور مناجات کرنے کے بعد محمد و آل محمد کی قسم کھا کر کہتا ہے کہ آپ پر تہمت نہ لگائے۔ لہٰذا تم اس کے پاس جاؤ اور اس سے کہو کہ اے بادشاہ، آخر وہ کونسی چیز ہے جس نے تمھیں محمد اور اس کے خدا کی ستائش کرنے پر اکسایا، تاکہ تم اس کو ڈھونڈ سکو؟ تب عضد الدولہ کہتا ہے: ’’کوئی ہے جس نے میری نافرمانی کی ہے ، حکومت و بادشاہت کی وجہ سے میرے مقابلہ پر آیا۔‘‘ اس سے کہہ دو کہ اگر کوئی عمران کا پتہ مجھے بتا دے ، تو تم اسے کیا انعام د وگے؟ تو عضد الدولہ تم سے جواب میں کہے گا : ’’اگر کوئی مجھے عمران کا پتہ بتاتا ہے اور مجھ سے درخواست کرے کہ میں اسے بخش دوں تو میں ایسا کروں گا۔‘‘ تب تم عضد الدولہ کے سامنے آجانا، اس صورت میں تم جو چاہو گے تمہاری بات ٹالی نہیں جائے گی۔
امیر المومنین علیہ السلام نے خواب میں عمران کو جیسا کرنے کو کہا تھا اس نے ویسا ہی کیا۔ اس نے عضد الدولہ سے کہا: ’’میں عمران بن شاہین ہوں۔‘‘ عضد الدولہ نے پوچھا: ’’کون تمھیں یہاں لے کر آیا ہے؟‘‘ عمران نے جواب دیا: ’’میرے مولاؤ آقا حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے خواب میں مجھ سے فرمایا تھا کہ ’’فناخسرو‘‘ نامی شخص یہاں آئے اور باقی کی داستان اس کو سنا دینا۔‘‘
عضد الدولہ کہنے لگا: ’’تمھیں خدا کا واسطہ، سچ سچ بتاؤ کہ کیا انھوں نے فناخسرو کا نام لیا تھا؟ عمران نے جواب دیا:’’ خدا کی قسم ایسا ہی ہے۔‘‘
عضد الدولہ بولا: ’’سوائے میرے، میری ماں کے اور میری دایہ کے کوئی اور میرا نام نہیں جانتاتھا۔‘‘ اور پھر وزارت کا عہدہ عمران کو سونپنے کے بعد خود راہی کوفہ ہوگیا۔
عمران بن شاہین نے نذر کی تھی کہ اگر عضد الدولہ نے اسے بخش دیا تو وہ پا برہنہ اور سر برہنہ ، مرقد امیر المومنین علیہ السلام کی زیارت سے مشرف ہوگا۔
مسجد عمران بن شاہین کی تاریخ
عمران بن شاہین کی مسجد کی تاریخ کے بارے میں مختلف طرح کے نظریات ملتے ہیں، حرم مطہر امیر المومنین علیہ السلام کے بورڈ آف ڈائریکٹر کے رکن اور حرم مقدس کے آثار قدیمہ اور تاریخی امور کے ماہر ’’عبد الہادی ابراہیمی‘‘ اس سلسلے میں کہتے ہیں:
یہ جگہ در اصل ایک رواق ہے، ’’عمران بن شاہین خفاجی امیر کا رواق، جوچوتھی صدی ہجری میں، وسطی اور جنوبی عراق کے حراس میں ’’بطائح‘‘ کا حکمرا ہوا کرتا تھا۔بعض لوگ بعد میں اس رواق کے مسجد میں تبدیل ہونے کو عمران بن شاہین سے منسوب سمجھتے ہیں، مگر اس سلسلے میں اس پر دو طرح کے اشکال وارد ہوتے ہیں۔
اول یہ کہ: کہا جاتا ہے کہ عمران ایک قدرتمند آدمی تھا، جس نے تمام آل بویہ کے حکام کا ڈٹ کر مقابلہ کیا، اور کوئی بھی اس کو شکست نہ دے سکا، من جملہ ان میں سلطان عضد الدولہ دیلمی بھی تھا، پھر یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ عمران ، عضد الدولہ سے بخشش کی بھیک مانگے؟!
دوسری بات یہ ہے کہ عمران بن شاہین کی تاریخ وفات ۳۶۹ ھ ہے، جب کہ عضد الدولہ دیلمی نے بارگاہ حرم علوی کی عمارت کے افتتاح کے لئے ۳۷۱ ھ میں نجف اشرف کا دورہ کیا تھا۔ یعنی دوسرے الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ عمران کی وفات اور عضد الدولہ کے زیارتی سفر کے درمیان تقریبا تین سال کا فاصلہ ہے، یہی وہ دوسرا اشکال ہے جو اس روایت کے سلسلے میں وارد ہوتا ہے۔
جیسا کہ کہا گیا ہے، اس سلسلے میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں، مثال کے طور پر ’’شیخ محمد کوفی‘‘ اپنی کتاب ’’نزہۃ الغری‘‘ میں کہتے ہیں: ’’عرف عام اور لغت کے اعتبار سے رواق کے معنی گھر کی چہار دیواری کے ہیں، ان کے مطابق رواق مکمل طور پر ختم ہو گیا ہے ، اور اس وقت کی موجودہ عمارت مسجد ہے جو عمران بن شاہین کے خاندان کے کچھ افراد نے بنائی ہے اور اس کو عمران کے نام سے منسوب کردیا ، اس طرح سے اس کو مسجد عمران کے نام سے شہرت مل گئی۔
دوسرا نظریہ: کتاب ’’لؤلؤ الصدف فی تاریخ النجف‘‘ میں آیا ہے، وہ کہتے ہیں: ’’جو بنایا گیا تھا وہ ایک مسجد اور رواق تھا‘‘
تیسرا نظریہ: ’’شیخ جعفر محبوبہ‘‘ اپنی کتاب ’’ماضی النجف و حاضرہا‘‘ اور ’’شیخ محمد حسین حرز الدین‘‘ اپنی کتاب میں ’’تاریخ النجف الاشرف‘‘ کے عنوا ن کے تحت لکھتے ہیں کہ ’’رواق موجود تھا۔‘‘ مگر جب شاہ عباس صفوی نے ۱۰۲۳ھ ؍ ۱۶۱۴م نے اس جگہ کی بازسازی کا حکم دیا تو ، اس رواق کے ایک بڑے حصے کو تباہ کردیا، جو حرم امیر المومنین علیہ السلام کی قبر مقدس کے شمالی حصے کے روبرو تھا، جو ابھی بھی باقی ہے، یہ بہت چھوٹا رقبہ ہے جو بعد میں ’’مسجد‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔
’’محمد جواد فخر الدین ‘‘ اپنی کتاب میں حرم مطہر کے بارے میں کہتے ہیں:عضد الدولہ دیلمی ہر سال نجف اشرف زیارت سے مشرف ہوتا تھا، ممکن ہے کہ انھیں میں سے کسی ایک سفر میں عمران سے ملاقات ہوئی ہو۔ ان کا ماننا ہے کہ ایک شیعہ حاکم صرف ایک سال اور وہ بھی ۳۷۱ ھ میں حرم مطہر حضرت المومنین علیہ السلام کے افتتاح کے لئے مشرف ہو اور اسی سال ان دونو کی ملاقات ہو جائے اور یہ سارا ماجرا پیش آجائے، منطقی نہیں لگتا۔
لیکن معاصر مورخین میںسے ’’صلاح فرطوسی‘‘ نامی مورخ نے اپنی کتاب ’’مرقد و ضریح امیر المومنین‘‘ میں ایک پوری فصل کو اس مسئلے سے متعلق نظریات کی چھان بین سے مخصوص کیا ہے۔اس سلسلے میں ان کا خیال ہے کہ شاید یہ عمارت عمران کے بیٹے حسن نے تعمبر کرائی ہو اور یہ ماجرا عمران اور عضد الدولہ کے درمیان نہیں بلکہ حسن اور عضد الدولہ کے درمیان پیش آیاہو ، شاید یہ حسن ہی ہو جس نے آل بویہ خاندان کی نذر مانی اور اپنے باپ کے نام کو باقی رکھنے کے لئے اس کا نام اپنے والد کے نام پر رکھا ہو۔شاید اپنے باپ کی شہرت کی وجہ سے یہ عمران کے نام سے مشہور ہو گئی ہو۔
عبدالہادی ابراہیمی بات کو جاری رکھتے ہوئے اس بات کا بھی اضافہ کرتا ہے: ’’ میں نے ’’العراق کما رسمہ المطراقی زادہ‘‘ عنوان کے تحت ایک بیش قیمت کتاب کا مطالعہ کیا۔ مطراقی زادہ ایک مصنف، سیاست دان اور مصور تھا۔ ۹۴۱ میں سلیمان قانونی کے ساتھ زیارت کی غرض سے عراق گیا۔اس نے مقدس مزارات کی منجلہ حرم امیر المومنین علیہ السلام کے حرم کی تصاویر بنائیں۔اس وقت حرم علوی کی تعمیر ایک ایلخانی تعمیر ہوا کرتی تھی۔ یعنی موجود عمارت صفوی دور میں تعمیر ہونے سے پہلے ۔ میں نے محسوس کیا کہ اس نے اس رواق کو بھی امیر المومنین علیہ السلام کے مرقد مطہر کی شمالی سمت کے مطابق کھینچی تھی، جس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ رواق مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے ۔لہٰذا میں بھی ’’شیخ محمد کوفی‘‘کی رائے متفق ہوں کہ اس رواق کو ختم کردیا گیا ہے اور اس مسجد کو عمران کسی ایک فرزند یا فروں نے تعمیر کیا ہے اور بعد میں عمران کی شہرت کی وجہ سے اس کی طرف نست دیدی گئی ہے۔اس لئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایک رواق اور ایک مسجد ہوا کرتی تھی۔
مسجد عمران بن شاہین کا رقبہ اور اس کی بناوٹ
مسجد کا رقبہ دقیق طور پر کتنا ہے اور آیا اس کا یہی احاطہ ہے یا نہیں، اس سلسلے میں عبدالہادی ابراہیمی کہتا ہے:
یہ بات کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہے کہ شمالی سمت میں واقع یہ بڑا ایوان ، در حقیقت باب طوسی ہی ہے، یعنی کہ وہ عمارت جو صفوی دور میں تعمیر ہوئی تھی، وہیں پر آج باب طوسی ہے، موجودہ باب طوسی کو بعد میں توسیع دی گئی اور اس کا افتتاح ۱۹۵۳ ء میں ملک فیصل دوم کی تاج پوشی کے وقت کیا گیا۔
اس عمارت کی خوبصورتی اور اس مسجد کے فن تعمیر میں شیخ بہائی کی ذہانت یہاں سے ظاہر ہوتی ہے کہ انھوں نے اس عمارت کو اس طرح سے تعمیر کرنے کی کوشش کی ہے کہ زائر حرم امیر المومنین علیہ السلام کو تینوں سمتوں سے دیکھ سکتا ہے: مشرفی سمت سے ’’باب الساعہ‘‘ ، شمال کی طرف سے ’’باب طوسی‘‘ اور جنوب کی طرف سے ’’باب القبلہ ‘‘ کا نظارہ کرسکتا ہے۔
جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں’’ایوان علماء‘‘ بنیادی طور پر ایک دروازہ ہے، اور یہ دروازہ شمالی ایوان کے بالکل مخالف میں واقع ہے۔مسجد عمران بن شاہین کی تعمیراتی شان میں صرف یہی حصہ باقی رہ گیا ہے جو اس مرکزی دروازے کے بیرونی سمت میں بائیں جانب واقع ہے اور اس کا رقبہ تقریبا ۱۴۱ مربع میٹر ہے۔
اس مسجد میں بہت سے علماء مدفون ہیں۔ فقہی کتاب ’’العروۃ الوثقیٰ‘‘ کے مؤلف، اور شیعہ مرجع تقلید آیۃ اللہ العظمیٰ ’’محمد کاظم طباطبائی یزدی‘‘ جن کی وفات ۱۳۷۷ھ؍ ۱۹۱۹ ء میں ہوئی، اور’’المراجعات‘‘ کتاب کے منصف علامہ شیخ عبد الحسین شرف الدین موسوی آملی، جن کی وفات ۷۱۹ ھ میں ہوئی تھی۔
میں مختصر طور پر اپنی رائے بیان کردوں کہ میرا ماننا ہے کہ مرکزی دروازوں کو ان کی سابقہ حالت میں واپس آنا چاہئے۔ کیونکہ ایسا کرنے سے ہم حرم مقدس علوی کے منفرد اور مخصوص فن تعمیر کا احترام کرسکتے ہیں،جس طرح سے شیخ بہائی نے پوری توجہ اور بے انتہا نزاکت کے ساتھ اس کی تعمیر کی، اور ساتھ ہی حرم کی روحانی اور معنوی و عقیدتی علامات کا بھی خاص خیال رکھا۔
مسجد عمران بن شاہین کی تعمیر نو
عبد الہادی ابراہیمی، عمران بن شاہین کی مسجد کی تعمیر کے بارے میں بتاتے ہیں:
ایک ہزار سال سے زیادہ کی تاریخ کے ساتھ، عمران بن شاہین کی مسجد، نجف اشرف کی قدیم ترین مسجد سمجھی جاتی ہے۔ قدرتی طور پر، اس تاریخی عمارت کی متعدد بار مرمت ہوئی ہے۔اس مسجد کی سب سے اہم مرمت اور تعمیر نو صفوی دور میں، تقریبا چار صدیاں قبل قبر مطہر کی تعمیر کے دوران ہوئی۔
’’سعاد ماہر‘‘ اپنی کتاب ’’مشہد الامام علی فی النجف‘‘ میں کہتے ہیں: ’’جب میں نے اس کی دیواروں کا جائزہ لیا تو میں نے محسوس کیا کہ مسجد کا طرز تعمیر مکمل طور پر حرم مقدس کی عمارت سے ہماآہنگ اور مناسب تھا، اس مسجد میں اس طرح کی مرمت اور تعمیر نو، شاہ عباس صفوی اول نے کروائی تھی ۔‘‘
لیکن بدقسمتی سے، اس کے بعد کی دہائیوں میں، اور خاص طور سے سابق دور حکومت میں، یہ تاریخی یادگار بہت زیادہ بے توجہی کا شکار رہی، اور بطور مسجد اس کے تقدس کا خیال نہیں رکھا گیا۔ اس کی دیواریں گرنے کی حالت میں تھیں اوریہ کوڑا کرکٹ اور پرندوں کے جمع ہونے کی جگہ بن کر رہ گئی تھی۔لہٰذا، حرم مطہراور مسجد کی مکمل طور پر تعمیر نو اور اس کی مرمت و آرائش ، حرم علوی کے متولی کے اہم ترین اقدامات میں سے ایک تھی۔
اور اس طرح مسجد کی تزئین و آرائش کا کام ۱۴۲۸ ھ مطابق ۲۰۰۷ ء میں شروع ہوا اور تین سال بعد یعنی ۱۴۳۱ھ مطابق ۲۰۱۰ ء میں مکمل ہوا۔اور آخرکار ، عمران بن شاہین مسجد کو دوبارہ کھول دیا گیا اور یہ جگہ حوزوی درس و بحث اور زائرین کے عبادت کی جگہ بن گئی۔
مسجد عمران بن شاہین کی موجودہ صورتحال
مسجد کا مرکزی دروازہ اس وقت بڑے ایوان کے وسط میں واقع ہے جسے صفوی دور میں حرم مقدس علوی کے انجینیرنگ پلان میں باب الطوسی ہی سمجھا گیا ہے۔تاہم، باب طوسی کا مقام شاہ فیصل دوم کی تاجپوشی کے وقت ۱۳۷۲ ھ مطابق ۱۹۵۳ ء میں تبدیل کردیا گیااور اسے اس کے موجود مقام پر باقی رکھا گیا۔
اور دوسری طرف سے جنوبی بڑے ایوان کو جو اس وقت ’’ایوان الحبوبی‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، موجود دروازے کی تعمیر سے پہلے اصل میں ’’باب القبلہ‘‘ہوا کرتا تھا اور عثمانی گورنر ’’شبلی پاشا نے ۱۲۹۱ ھ مطابق ۱۸۷۴ ء میں اس کی مرمت اور تعمیر نو کرائی۔
جب ۱۰۲۳ ھ مطابق ۱۶۱۴ ء میں شاہ عباس اول کے حکم سے حرم علوی کی تعمیر مکمل ہوئی تو اس ایوان کا کچھ حصہ علوی صحن کو پھیلانے اورچوڑا کرنے کے لئے خراب کردیا گیا، اور فی الحال اس کا صرف ۱۴۱ مربع میٹر باقی رہ گیا، اس میں شمالی دروازے کی کوریڈور (گیلری) کا رقبہ شامل نہیں ہے، اور باب طوسی اپنی اصلی حالت میں باقی رہ گیا ۔
اس مسجد میں بہت سے علماء دفن ہیں جن میں سب سے زیادہ مشہور سید محمد کاظم طباطبائی یزدی اور علامہ شیخ عبد الحسین شرف الدین موسوی عاملی ہیں۔
پچھلی چند صدیوں میں، یعنی کہ چوتھی صدی ہجری سے لے کر اب تک اس مسجد کی کئی بار مرمت کی گئی ۔بد قسمتی سے ، یہ تاریخی یادگار حالیہ دنوں میں کئی دہائیوں تک بند رہی، اس کو نظراندازکئے جانے کی وجہ سے اسے گودام کے طور پر استعمال کیا گیا، اس لئے اس کے ستون اور اس کی دیواریں نمی کی وجہ سے خراب ہو گئیں۔
حرم علوی کے منصوبوں میں اس مسجد کی تعمیر نو اور تزئین و آرائش کا منصوبہ بھی تھا،جو ۱۴۲۸ھ مطابق ۲۰۰۷ ء میں ذیقعدہ کے مہینے میں شروع ہوا تھا۔مسجد کی چھت اور دیواروں کو مضبوط بنانے کے لئے دیواروں گے گرد کنکریٹ اور لوہے کا استعمال کرکے اس منصوبے کا آغاز ہوا۔
مرمت اور تزیین و آرائش کا کام مکمل ہونے کے بعد مسجد کو اپنی نئی شکل و صورت کے ساتھ ۲۸ شوال ۱۴۳۱ ھ مطابق ۲۰۱۰کو دوبارہ کھول دیا گیا۔آج زائرین نماز اور عبادت کے لئے مسجد عمران میں جاتے ہیں ، حوزہ علمیہ نجف کے اساتید اور بزرگو ں کے ذریعہ اس مسجد میں علمی محفلیں منعقد ہوتی ہیں۔
٭٭٭٭٭