سب سے زیادہ تلاش کیا گیا:

امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کے تواضع اور فروتنی کی چند مثالیں

غریبوں، محتاجوں اور کمزوروں کے سامنے تواضع اور فروتنی امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کی اہم اخلاقی صفات میں سے تھی۔ اسی لیے آپ کی محبت اور نیکی کی آغوش ہمیشہ ان کے لیے کھلی رہتی تھی۔ آپ اپنے چچا زاد بھائی رسول اللہﷺکی طرح برتاؤ کرتے تھے، مومنن کے لیے باپ اور غریبوں کے لیے بھائی تھے۔
ذیل میں حضرت علی علیہ السلام کے تواضع اور فروتنی کی چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں:
۱۔ مولائے متقیان کا مہمانوں کے ساتھ متواضعانہ برتاؤ
ایک شخص اپنے بیٹے کے ساتھ امیرالمؤمنین علیہ السلام کے پاس آیا۔
حضرت نے ان کا استقبال کیا اور انہیں مجلس کے اعلیٰ مقام پر بٹھایا۔ پھر کھانا کھانے کا حکم دیا۔ جب وہ سیر ہو گئے تو حضرت نے جلدی کی اور مشکیزہ اٹھا کر باپ کے ہاتھ دھونے لگے۔ وہ شخص ڈر گیا اور بولا: "خدا کیسے دیکھے گا کہ آپ میرے ہاتھ پر پانی ڈال رہے ہیں؟”
امیرالمؤمنین علیہ السلام نے نرمی اور مہربانی سے اسے جواب دیا: "خدا مجھے تمہارے بھائی کی حیثیت سے دیکھ رہا ہے، جس میں میرے اور تمہارے درمیان کوئی فرق نہیں ہے اور میں تم پر کوئی برتری نہیں رکھتا، اس طرح جنت میں میرے درجات میں اضافہ ہوگا۔”
وہ شخص حضرت کی بات پر راضی ہو گیا اور حضرت نے اس کے ہاتھوں پر پانی ڈالا۔ پھر مشکیزہ اپنے بیٹے محمد بن حنفیہ کو دیا اور فرمایا: "بیٹا، اگر یہ لڑکا اپنے باپ کے بغیر تنہا میرے پاس آتا تو میں خود اس کے ہاتھوں پر پانی ڈالتا، لیکن خدا پسند نہیں کرتا کہ باپ اور بیٹے کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے۔”
چنانچہ محمد بن حنفیہ نے لڑکے کے ہاتھوں پر پانی ڈالا۔ (۱)
۲۔ لوگوں کے استقبال پر امیرالمؤمنین کا رد عمل
امیرالمؤمنین علیہ السلام صفین سے واپسی پر انبار کے دیہاتیوں کے پاس سے گزرے۔ لوگ شان و شوکت کے ساتھ حضرت کے استقبال کے لیے آئے اور ان کے ساتھ بادشاہوں جیسا سلوک کیا۔ امیرالمؤمنین علیہ السلام ان کے اس عمل سے ناراض ہوئے اور فرمایا:
"خدا کی قسم! تمہارے حکمران تمہارے ان کاموں سے فائدہ نہیں اٹھاتے اور تم اپنی جانوں کو مشقت میں ڈالتے ہو اور آخرت میں یہ تمہارے لیے پریشانی کا سبب بنے گا۔ اور کتنی نقصان دہ ہے وہ مشقت جس کے بعد عذاب ہو، اور کتنا اچھا ہے اس کام کو چھوڑ دینا جس کے بعد آگ سے امان ملے۔” (۲)
۳۔ پیادہ ساتھیوں کے ساتھ امیرالمؤمنین کا برتاؤ
امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے:
"امیرالمؤمنین علیہ السلام اپنے ساتھیوں کے ساتھ نکلے، جبکہ آپ سوار تھے اور ساتھی آپ کے پیچھے پیادہ چل رہے تھے۔
امیرالمؤمنین علیہ السلام ان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ‘کیا تمہاری کوئی حاجت یا ضرورت ہے؟’ انہوں نے کہا: ‘نہیں، لیکن ہم آپ کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں۔’
حضرت نے ان سے فرمایا: ‘واپس جاؤ، سوار کے ساتھ پیدل چلنا سوار کے لیے مشکل کا باعث اور پیادے کے لیے ذلت کا سبب ہے۔'”
امام صادق علیہ السلام نے مزید فرمایا: "امیرالمؤمنین علیہ السلام دوسرے راستے سے اپنے سفر پر چلے گئے، ان کے ساتھی پھر بھی ان کے پیچھے ہو لیے، حضرت نے فرمایا: ‘واپس جاؤ، بیشک مردوں کے پیچھے چلنے والوں کے جوتوں کی آواز فساد انگیز ہے۔”(۳)
۴۔ گھر کے کاموں میں امیرالمؤمنین کا تواضع
امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے:
"امیرالمؤمنین علیہ السلام ہمیشہ خود ہی گھر کے لیے لکڑی اور پانی لاتے تھے، گھر میں جھاڑو دیتے تھے، اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا آٹا گوندھتی تھیں اور روٹی پکاتی تھیں۔” (۴)
۵۔ حضرت امیرالمؤمنین کی فروتنی
روایت ہے کہ امیرالمؤمنین علیہ السلام نے کوفہ سے کھجوریں خریدیں اور انہیں اپنی چادر کے کونے سےپکڑ لیا۔
لوگ حضرت کے پاس دوڑے ہوئے آئے تاکہ وہ ان کا یہ کام کر دیں۔ وہ کہنے لگے: "یا امیرالمومنین! ہم آپ کے لیے لے آئیں گے۔”
حضرت نے فرمایا: "گھر والا دوسروں کے مقابلے میں اسے اٹھانے کا زیادہ حق رکھتا ہے۔” (۵)
مصادر و مآخذ
[1] بحار الأنوار، ج 41، ص 43
[2] نہج البلاغہ، خطبہ 37
[3] الکافی، ج 2، ص165
[4] وسائل الشیعہ، ج 14، ص 122
[5] شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج 20، ص 335