امیرالمؤمنین علیہالسلام کی عبادت کی توصیف میں یہی کافی ہے کہ وہ دنیا سے منقطع ہو کر الله سے متصل ہو چکے تھے، یعنی جب وہ اپنے معبود کے حضور جاتے تو دنیا اور اس کی ہر شے سے مکمل طور پر کٹ جاتے اور اپنے پورے وجود کو ذاتِ باری تعالیٰ میں فنا کر دیتے۔
اس مضمون میں آپ ایک حیرت انگیز روایت پڑھیں گے جو حضرت امیرالمؤمنین علی علیہالسلام کی خفیہ عبادت اور اس حالت کے بارے میں ہے جو ان پر غالب آتی تھی اور آپ ان کے خالق کے ساتھ اس تعلق کی حقیقت سے آشنا ہوں گے جو بندے اور معبود کے درمیان اعلیٰ ترین نوعیت کا تعلق ہے۔
امیرالمؤمنین علیہالسلام کی عبادت
امیرالمؤمنین علیہالسلام کی عبادت بھی اُن کی دیگر خصوصیات کے مانند صرف اُن ہی سے مخصوص تھی، انقطاع الی الله، یعنی ہر شے سے کٹ کر صرف خدائے عزوجل کی طرف متوجہ ہونا، اُنہیں خصوصیات میں سے ایک تھی جس کی وجہ سے حضرت علی علیہالسلام مشہور تھے۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد دنیا نے ایسا کوئی انسان نہیں دیکھا جو امیرالمؤمنین علیہالسلام کے مانند فضیلتوں کو اپنے اندر جمع کیے ہوئے ہو، آپ نے اولین لوگوں پر سبقت حاصل کی اور آخرین کو عاجز و ناتواں کر دیا،آپ کی فضیلتیں اس سے کہیں زیادہ ہیں کہ شمار کی جا سکیں اور آپ کی صفات لا محدود ہیں۔
دعا، مناجات کے وقت خدا کے خوف سے امیرالمؤمنین علیہالسلام کی عجیب کیفیت
عروہ بن زبیر ایک حدیث کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ابو درداء سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے خود علی بن ابیطالب علیہالسلام کو شوَیحِطاتِ نجار کے مقام پر دیکھا کہ آپ نے اپنے ساتھیوں اور غلاموں سے کنارہ کشی اختیار کی اور اپنے ساتھیوں کی نگاہوں سے اوجھل ہو گئے اور کھجوروں کے درختوں کے پیچھے تنہائی اختیار کی، اچانک مجھے گمان ہوا کہ میں نے انہیں کھو دیا ہے اور وہ مجھ سے دور ہو گئے ہیں، میں نے کہا کہ یقیناً وہ اپنے گھر واپس چلے گئے ہوں گے۔
اسی لمحے میں نے ایک غمگین، دردناک آہ و زاری اور مناجات کی آواز سنی:میرے معبود! تو نے میرے کتنے گناہ دیکھے اور ان کے مقابلے میں مجھے اپنے عذاب میں مبتلا نہیں کیا۔
اور میں نے کتنی ہی نافرمانیاں کیں جنہیں تو نے اپنے لطف و کرم سے آشکار نہ ہونے دیا۔
اے میرے اللہ! اگر میری عمر تیری نافرمانی میں دراز ہو گئی ہو اور گناہوں نے میرے نامہ اعمال کو بوجھل کر دیا ہو، تو بھی مجھے تیری بخشش کے سوا کوئی تمنا نہیں، اور تیری رضا کے علاوہ کسی اور چیز کی امید نہیں۔
راوی کہتا ہے کہ اس آواز نے مجھے اپنی طرف کھینچ لیا، میں اُس کے پیچھے گیا، دیکھا کہ علی بن ابیطالب، امیرالمؤمنین علیہالسلام ہیں،میں نے خود کو اُن سے چھپا لیا اور آہستگی سے ان کے پیچھے چل پڑا، میں نے دیکھا کہ آپ نے آدھی رات کی تاریکی میں چند رکعت نماز ادا کی اور دعا اور گریہ و زاری میں مشغول ہو گئے۔
امام اپنی مناجات میں خدائے عزوجل سے عرض کرتے تھے:
معبود! جب میں تیری عفو و بخشش کے بارے میں سوچتا ہوں، تو مجھے اپنے گناہ آسان اور چھوٹے محسوس ہوتے ہیں لیکن جب تیرا عتاب یاد آتا ہے تو میرے لیے بلائیں عظیم اور سنگین ہو جاتی ہیں۔
پھر فرمایا:آہ! اگر میں اپنے نامۂ اعمال میں ایسا گناہ دیکھوں جسے میں بھول چکا ہوں اور تو نے اسے شمار کیا ہو اور خدا ارشاد فرمائے: اسے پکڑ لو،
افسوس اُس بلا پر کہ اُس وقت نہ رشتہ دار بچا سکتے ہیں، نہ قبیلہ کوئی فائدہ دے سکتا ہے،
اور جب ندا دی جائے گی، تو کوئی بھی تیری پکڑ سے بچانے والا نہ ہوگا۔
اور آپ مزید فرماتے ہیں:آہ اُس آگ سے جو جگر اور کلیجے کو جلا دیتی ہے!
آہ اُس آگ سے جو تجھے (نافرمان بندے) جلانے کے لیے تیار کی گئی ہو!
آہ اُس گریہ و زاری اور ہاتھ پیر مارنے سے جو آگ کی لپٹوں کے درمیان ہو!
راوی کہتا ہے:اس کے بعد حضرت اس طرح گریہ کرنے لگے کہ میں نے ان میں کوئی حرکت یا جنبش نہ دیکھی، میں نے اپنے دل میں کہا: شاید شب بیداری کے باعث سو گئے ہوں، سوچا کہ نمازِ صبح کے وقت انہیں جگاؤں گا، اس وقت جب میں ان کے قریب گیا تو انہیں خشک لکڑی کی طرح بے حس و حرکت پایا،جتنا بھی ہلایا، انہوں نے کوئی حرکت نہ کی، میں نے کوشش کی کہ انہیں بٹھاؤں، لیکن کامیاب نہ ہو سکا۔
میں نے دل میں کہا: إنا لله وإنا إلیه راجعون، خدا کی قسم! علی بن ابیطالب علیہالسلام دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں۔
میں دوڑتا ہوا حضرت کے گھر کی طرف گیا تاکہ اہلِ خانہ کو خبر دوں، وہاں حضرت فاطمہ زہرا سلاماللهعلیها کو دیکھا،انہوں نے فرمایا: ابو درداء! کیا ہوا؟
میں نے انہیں سارا ماجرا بتایا۔
حضرت فاطمہ سلاماللهعلیها نے فرمایا:خدا کی قسم! یہ وہی حالتِ خلسہ ہے جو خدا کے خوف کے سبب ان پر طاری ہو تی ہے۔
پھر پانی لایا گیا اور حضرت کے چہرے پر چھڑکا گیا یہاں تک کہ انہیں ہوش آ گیا۔
انہوں نے میری طرف دیکھا، میں رو رہا تھا۔
فرمایا:ابو درداء! تم کیوں رو رہے ہو؟
میں نے کہا:اس حالت کو دیکھ کر جو آپ پر طاری ہوتی ہے۔
فرمایا:ابو درداء! تم مجھے اس وقت کیسے دیکھو گے، جب مجھے حساب و کتاب کے لیے بلایا جائے گا اور مجرموں کو عذاب دیا جا رہا ہوگا،
اور میں خداوندِ جبار کے حضور کھڑا ہوں گا اور دوست احباب مجھ سے جدا ہو چکے ہوں گے اور دنیا والے مجھے چھوڑ چکے ہوں گے،اس مقام پر تمہیں میرے حال پر زیادہ رحم آنا چاہیے، اُس ذات کے مقابل جس پر کچھ بھی پوشیدہ نہیں۔
ابو درداء کہتے ہیں:
خدا کی قسم! میں نے رسول خدا صلیاللهعلیهوآله کے کسی بھی صحابی کو ایسی حالت میں نہیں دیکھا۔
حضرت امیرالمؤمنین علیہالسلام کے ذریعے خداوند کی عبادت کی اعلیٰ ترین حقیقت؛ شکرگزاری پر مبنی عبادت
خداوند عزوجل حضرت امیرالمؤمنین علیہالسلام کی روح میں جلوہگر تھا، اسی لیے آپ کی عبادت خداوند کی محبت اور اشتیاق کا مظہر تھی۔
امیرالمؤمنین علیہالسلام نہ عذابِ الٰہی کے خوف سے خدا کی عبادت کرتے تھے اور نہ ہی جنت کی لالچ میں ۔
آپ، پیغمبر اکرم صلیاللهعلیهوآله کی مانند، خداوند متعال سے رابطے میں اعلیٰ ترین درجات پر فائز تھے۔
امیرالمؤمنین علیہالسلام اپنے اور خداوند متعال کے تعلق کی حقیقت کو یوں بیان فرماتے ہیں:
اے میرے پروردگار! میں نے تیری عبادت نہ عذاب کے خوف سے کی ہے اور نہ ہی ثواب کی لالچ میں؛ بلکہ میں نے تجھے عبادت کے لائق پایا، اس لیے تیری عبادت کی۔
بے شک عبادت کی یہ قسم یقین سے برتر اور ایمان سے زیادہ قیمتی ہے۔
امیرالمؤمنین علیہالسلام عبادت کی اقسام کو اس طرح بیان فرماتے ہیں:
بیشک کچھ لوگ خداوند کی عبادت لالچ کی وجہ سے کرتے ہیں، یہ تاجروں کی عبادت ہے۔
کچھ لوگ خوف کی وجہ سے عبادت کرتے ہیں، یہ غلاموں کی عبادت ہے،
کچھ لوگ شکرگزاری کے طور پر خدا کی عبادت کرتے ہیں، یہ آزاد انسانوں کی عبادت ہے۔
امیرالمؤمنین علیہالسلام کی عبادت اسی تیسرے درجے کی عبادت تھی جس کا سرچشمہ معبود کے شایستہ اور سزاوارِ عبادت ہونے کے شعور سے تھا۔
بس یہی ایک دلیل کافی ہے،
ورنہ امیرالمؤمنین علیہالسلام کے فضائل کا حال تو وہی ہے جو رسول اللہ صلیاللهعلیهوآله نے فرمایا:
اگر تمام نیزے قلم بن جائیں، تمام سمندر سیاہی بن جائیں،
اور تمام جنّات شمار کرنے والے اور تمام انسان لکھنے والے ہو جائیں،
تب بھی علی بن ابیطالب کے فضائل کو شمار نہیں کیا جا سکتا۔
امیرالمؤمنین علیہالسلام کا اخلاق، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرتِ مبارکہ کی ایک روشن جھلک تھی، کیونکہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گھر میں پرورش پائی اور رسولِ خدا کے شریفانہ اخلاق کے دسترخوان پر زندگی بسر کی اور نشوونما پائی۔
رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان تمام برسوں میں امیرالمؤمنین علیہالسلام کو عظئم اور بلند آداب سکھائے تاکہ ان کا اخلاق اور زیادہ بلند ہو جائے،یہ فضائل روز بروز زیادہ پروان چڑھتے رہیں اور ان میں مزید قوت اور پختگی آتی گئی جس کے نتیجہ میں وہ عظیم شخصیت بنی جو رہتی دنیا تک باقی رہے گی اور قیامت تک اس جیسا کوئی نہیں ہو سکتا۔