سب سے زیادہ تلاش کیا گیا:

جنگِ صفّین؛ قرآن کے نیزوں پر خنجر آستینوں میں

جنگِ صفّین؛ قرآن نیزوں پر، خنجر آستینوں میں

خلافتِ حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ‌السلام کے عہد میں پیش آنے والی سب سے اہم جنگوں میں سے ایک جنگ صفّین ہے، یہ معرکہ لشکرِ معاویہ کے ساتھ سرزمینِ صفّین میں رونما ہوا،

خلافتِ حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ‌السلام کے عہد میں پیش آنے والی سب سے اہم جنگوں میں سے ایک جنگ صفّین ہے، یہ معرکہ لشکرِ معاویہ کے ساتھ سرزمینِ صفّین میں رونما ہوا، اس جنگ کی بنیاد سیاسی اور مذہبی اختلافات تھے جو حضرت امیرالمؤمنین علیہ‌السلام اور معاویہ کے درمیان وجود میں آئے۔

جب معرکہ اپنے شباب پر پہنچا اور یوں محسوس ہونے لگا کہ لشکرِ معاویہ شکست کے دہانے پر ہے، تب عمرو بن عاص نے ایک فریب کارانہ حربہ اختیار کیا۔ اس نے قرآنِ مجید نیزوں پر بلند کر دیے اور حَکَمیّت کا شُبہہ پیش کر کے جنگ کے رخ کو موڑ دیا۔

یوں یہ واقعہ نہ صرف صفّین کی جنگ کو ایک پیچیدہ اور پرحاشیہ مرحلے میں داخل کر گیا، بلکہ امتِ مسلمہ میں نفاق و اختلاف کی آگ کو بھی بھڑکا گیا۔

جنگ صفین کیوں ہوئی؟

جب جنگ جمل اختتام کو پہنچی اور امیرالمؤمنین علیہ‌السلام حق و باطل کے ایک اور معرکے میں کامیاب ہوئے تو اہلِ کوفہ کے دلوں میں نیا جوش و ولولہ پیدا ہوا، وہ چاہتے تھے کہ اب حضرت کے ساتھ شام کے باغی عنصر، یعنی معاویہ کا مقابلہ کیا جائے۔

امیرالمؤمنین علیہ‌السلام نے جلدی میں تلوار نہ اٹھائی، بلکہ پہلے سفیروں اور خطوط کے ذریعے معاویہ کو سمجھایا کہ جس بیعت پر تمام مسلمان متفق ہو چکے ہیں، وہ بھی اسے قبول کرے لیکن معاویہ نے ضد اور سرکشی کا راستہ اپنایا، اُس نے صلح کو ٹھکرا کر جنگ کو پسند کیا اور بڑے لشکر کے ساتھ عراق کی طرف روانہ ہوا
جب یہ خبر نجف و کوفہ پہنچی تو امیرالمؤمنین علیہ‌السلام لشکرِ اسلام کے ہمراہ آگے بڑھے تاکہ دشمن کو عراق کی سرزمین میں داخل ہونے سے روکیں اور خونریزی و فساد سے امت کو بچائیں، لیکن چونکہ معاویہ نے جنگ ہی کو ترجیح دی، اس لیے جنگ صفّین کی آگ بھڑک اٹھی۔

فرات کے پانی کے سلسلہ میں امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کا دشمنوں کے ساتھ شفیقانہ برتاؤ

جب معاویہ اور اس کے ساتھی صفّین پہنچے تو فرات کے کنارے قیام کیا، اس نے ابو الاعور سلمی کو مقرر کیا کہ پانی کی حفاظت کرے، امیرالمؤمنین علیہ‌السلام نے صعصعہ بن صوحان کو پیغام دے کر معاویہ کے پاس بھیجا کہ پانی بند نہ کرے، معاویہ نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ کیا کیا جائے؟ان میں سے کچھ نے کہا کہ جس طرح انہوں نے عثمان بن عفان پر پانی بند کیا تھا ان پر بھی اسی طرح پانی بند کیا جائے اور انہیں پیاسا قتل کیا جائے کہ اللہ انہیں ہلاک کرے لیکن عمر ابن عاص نے معاویہ کو سمجھانے کی کوشش کی پانی نہ بند کرے۔

صعصعہ بن صوحان واپس آئے اور امام علیہ‌السلام کو پورا ماجرا بتایا کہ معاویہ نے کہا کہ میں اپنا فیصلہ آپ تک پہنچا دوں گا لیکن اس نے اس کے فورا بعد کچھ سواروں کو ابوالاعور کی طرف بھیجا تا کہ امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کے لشکر پر پانی بندد کیا جائے،جب خبر امیرالمؤمنین علیہ‌السلام تک پہنچی تو آپؑ نے فرمایا: اب لڑائی پانی پر ہے، پھر ایک دستہ روانہ فرمایا، سخت معرکہ آرائی ہوئی اور اصحابِ امیرالمؤمنین علیہ‌السلام نے بے مثال شجاعت دکھائی، نتیجہ یہ نکلا کہ فرات پر قبضہ ہو گیا اور دشمن پسپا ہو فرات سے دور ہو گیا،جب سپاہیوں نے عرض کیا کہ اب ہم بھی اہلِ شام کو پانی نہ دیں امیرالمؤمنین علیہ‌السلام نے ان سے فرمایا:انہیں جتنا ضرورت ہے پانی لے جانے دیجئے،اللہ نے آپ کی مدد کی اور ان کا ظلم آشکار کر دیا،امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کا اپنے بدترین دشمن کے ساتھ یہ سلوک تھا۔

حضرت عمار بن یاسر کی شہادت کا واقعہ؛ رسول اللہؐ کی پیشگوئی اور دشمنان اسلام کی رسوائی

امیرالمؤمنین علیہ السلام نے اپنی فوج کے کچھ کمانداروں کو بلایا اور انہیں حکم دیا کہ تم معاویہ کے پاس جاؤ اور اسے اللہ کی اطاعت اور جماعت میں شامل ہونے کی دعوت دو۔
انہوں نے حسب حکم عمل کیا، لیکن معاویہ نے ان کی باتیں سن کر کہا کہ یہاں سے چلے جاؤ، تمہارے اور میرے درمیان اب صرف تلوار ہی فیصلہ کرے گی، وہ واپس امیرالمؤمنین کے پاس آئے اور انہیں صورت حال سے آگاہ کیا۔

نتیجتاً دونوں جانب سے سخت جنگ چھڑ گئی، ہر روز اتنی شدید لڑائی ہوتی تھی کہ جنگی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔
اس کے بعد امیرالمؤمنین علیہ السلام اپنے ساتھیوں کے ہمراہ حضرت عمار بن یاسر کی قیادت میں میدان جنگ میں آگے بڑھے۔ جب عمرو بن عاص کے سامنے پہنچے تو حضرت عمار نے کہا کہ اس جھنڈے والے (یعنی معاویہ) نے تین بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سے جنگ کی ہے اور یہ چوتھی بار ہے، اس بار بھی ماضی کی طرح نہ پاکیزہ ہے نہ نیک۔

حَبّہ بن حُوَین عِرْنی سے روایت ہیں کہ میں نے حذیفہ بن یمان سے کہا: ہمیں کوئی حدیث سنائیے، کیونکہ ہم فتنوں سے ڈرتے ہیں۔ انہوں نے جواب دیا: تم ابن سُمَیّہ (عمار بن یاسر) کی جماعت سے وابستہ رہو، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ایک متجاوز، ظالم اور گمراہ گروہ جو سیدھے راستے سے ہٹ کر عہد شکنی کرے گا، وہی عمار کو شہید کرے گا،ان کا آخری رزق دودھ ہوگا جس میں پانی ملا ہوا ہوگا۔
حَبّہ کہتے ہیں: میں خود اس دن موجود تھا جب عمار شہید ہوئے۔ انہوں نے کہا: میرا آخری رزق لاؤ، ان کے لیے ایک بڑے سرخ حلقے والے برتن میں دودھ لایا گیا جس میں پانی ملا ہوا تھا۔

معاویہ بن ابی سفیان کے بہت سے ساتھی حضرت عمار کی شہادت پر ذلیل و خوار ہوئے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کی عمار کے بارے میں پیشگوئی کسی سے پوشیدہ نہیں تھی،آپ نے فرمایا تھا: کتنے خوش نصیب ہیں عمار! انہیں ایک ظالم اور گمراہ گروہ شہید کرے گا، عمار ہمیشہ حق کے ساتھ ہیں اور حق ہمیشہ ان کے ساتھ رہے گا، یہ واقعات پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کی نبوت کی واضح نشانیاں ہیں۔

نیزوں پر قرآن؛ حق کی آڑ میں باطل

عمرو بن عاص نے جب دیکھا کہ عراق کے لوگ کس طرح ڈٹ کر سے مقابلہ کر رہے ہیں، تو شکست کے خوف سے معاویہ سے کہا کیا میں تمہیں ایک ایسی تجویز دوں جو ہمارے اتحاد کو مضبوط کرے اور ان (علی علیہ السلام کے لشکر) میں پھوٹ ڈال دے؟ معاویہ نے کہا: ضرور دو،عمرو نے کہا: ہم قرآن بلند کری گے اور کہیں گے کہ ہمارے اور تمہارے درمیان فیصلہ قرآن کرے گا۔

اس کے بعد انہوں نے قرآنوں کو نیزوں پر بلند اور اعلان کیا: یہ قرآن، اللہ کی کتاب، ہمارے اور تمہارے درمیان فیصلہ کرےگی۔ کیا عراق اور شام کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے کوئی زندہ بچے گا؟ جب لوگوں نے یہ منظر دیکھا، تو وہ کہنے لگے: ہم کتاب اللہ کے آگے سر تسلیم خم ہیں۔

امیرالمؤمنین علیہ السلام نے ان سے فرمایا: اے اللہ کے بندو! حق اور سچائی پر قائم رہو اور اپنے دشمن سے لڑائی جاری رکھو، کیونکہ معاویہ، عمرو، ابن ابی معیط، حبیب، ابن ابی سرح اور ضحاک نہ تو دیندار ہیں اور نہ ہی قرآن کو جانتے ہیں، میں انہیں تم سے بہتر جانتا ہوں، بچپن سے لے کر جوانی تک یقیناً وہ بدترین بچے تھے اور اب بدترین مرد ہیں! تم پر افسوس کہ انہوں نے قرآن کو دھوکے اور فریب سے نیزوں پر اٹھا رکھا ہے۔

خوارج کی فکر کی بنیاد

کچھ لوگوں نے حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام سے کہا: ہم اس بات کو قبول نہیں کر سکتے کہ ہمیں کتاب اللہ کی طرف بلایا جائے اور ہم اسے رد کریں، امیرالمؤمنین علیہ السلام نے انہیں جواب دیا: ہم ان سے اس لیے لڑ رہے ہیں تاکہ وہ اس کتاب کے حکم کو مان لیں کیونکہ انہوں نے اللہ کے حکم سے انکار کیا، عہد توڑا اور قرآن کو چھوڑ دیا ہے۔
ایک گروہ جو بعد میں خوارج کے نام سے جانا گیا، نے امیرالمؤمنین علیہ السلام سے کہا: اے علی! کتاب اللہ کی دعوت قبول کرو، ورنہ ہم آپ کو اور آپ کی سب چیزیں ان کے حوالے کر دیں گے، یا وہی کریں گے جو ہم نے عثمان بن عفان کے ساتھ کیا تھا۔

امیرالمؤمنین علیہ السلام نے ان کے جواب میں فرمایا: یاد رکھو، میں نے تمہیں منع کیا تھا، میری بات یاد رکھو، اگر تم میرا کہنا مانتے ہو تو لڑو اور اگر نافرمانی کرتے ہو تو جو چاہو کرو۔
اس وقت امام علیہ السلام کے لشکر اور معاویہ کے درمیان محض چند میٹر کا فاصلہ تھا، اگر یہ گروہ معاویہ کے چال میں نہ پھنستا، تو امیرالمؤمنین علیہ السلام صورت حال پر قابو پا سکتے تھے اور فتنے کو ابتدا میں ہی ختم کر سکتے تھے لیکن واقعہ حَکَمیت نے معاملات کو بدترین شکل دے دی اور مطلوبہ ہدف حاصل کرنے میں رکاوٹ ایجاد ہوئی، یہ تقدیر میں تھا کہ یہ سازش کامیاب ہو اور اس کے بعد مصیبتیں اور آفتیں آئیں۔

حَکَمیت کے بارے میں امیرالمؤمنین علیہ السلام کا واضح اور روشن خطاب

جب واقعہ حَکَمیت کا اختتام ہوا، تو حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام کے ایک ساتھی نے کہا: دین خدا میں مردوں کو حَکَم کیسے بنایا جا سکتا ہے؟ حکم صرف اللہ کا ہے (لا حكم إلّا لله) اس نے حضرت کے خطبے کو اس نعرے سے متاثر کیا، جس کی پیروی میں ایک گروہ نے بھی اس کا ساتھ دیا، یہ افراد، جو تقریباً بارہ ہزار کی تعداد میں تھے، محکمہ کے نام سے مشہور ہوئے، حروراء نامی علاقے میں جا بسے، اسی وجہ سے انہیں حروریہ بھی کہا جاتا ہے۔

حکمیت سے پہلے اپنے ابتدائی خطاب میں، امیرالمؤمنین علیہ السلام نے ان سے مناظرہ کرتے ہوئے فرمایا:ہم نے دونوں حَکَموں پر شرط عائد کی ہے کہ وہ قرآن کی روشنی میں فیصلہ کریں، جو کچھ قرآن زندہ کرتا ہے، اسے قائم رکھیں، اور جو کچھ قرآن مردہ قرار دیتا ہے، اسے فنا ہوا سمجھیں۔ پس اگر وہ قرآن کے مطابق عمل کریں اور فیصلہ دیں، تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں اور اگر سرکشی کریں تو ہم ان سے بیزاری کا اعلان کرتے ہیں۔
انہوں (خوارج) نے کہا: کیا خون کے معاملے میں مردوں کا فیصلہ انصاف پر مبنی ہو سکتا ہے؟
حضرت نے فرمایا:ہم نے قرآن کو حَکم بنایا ہے، نہ کہ مردوں کو قرآن دو جلدوں کے درمیان ایک تحریر ہے، جو نہ بول سکتا ہے اور نہ ہی بیان کر سکتا ہے بلکہ مرد ہی ہیں جو اس کے ذریعے بولتے ہیں۔

حکمیت کا فریب؛ ابوموسی اشعری اور عمرو بن عاص کی مکاری

ابوموسی اشعری اور عمرو بن عاص دونوں حَکَم مقرر ہوئے، ابوموسی، عمرو کی عیاری کا شکار ہو گئے، عمرو بن عاص نے ابوموسی سے کہا: آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کے صحابی ہیں اور مجھ سے عمر میں بڑے ہیں، لہٰذا پہلے آپ اپنی رائے دیں۔
عمرو درحقیقت چاہتا تھا کہ ابوموسی کو حضرت علی علیہ السلام کے عہدے سے معزولی کا اعلان کرنے پر مجبور کرے، اس نے مشورہ دیا کہ ہم علی اور معاویہ دونوں کو معزول کر کے (انتخابی کونسل) کے حوالے کرتے ہیں تاکہ مسلمان اپنی مرضی کا خلیفہ منتخب کر سکیں۔

ابوموسی اشعری آگے بڑھے اور تمام حاضرین کے سامنے اعلان کیا کہ وہ حضرت علی علیہ السلام کو خلافت سے معزول کرتے ہیں اور وہاں سے ہٹ گئے، اس کے بعد عمرو بن عاص کھڑا ہوا اور کہا کہ آپ نے ان کا اعلان سنا کہ انہوں نے اپنے علی کو معزول کر دیا ہے میں بھی اسی طرح علی کو معزول کرتا ہوں اور معاویہ کو خلیفہ قرار دیتا ہوں۔
ابوموسی حیران رہ گئے اور دونوں نے ایک دوسرے کو برا بھلا کہا۔ اس کے ساتھ ہی حکمیت کا یہ مذموم ڈراما اپنے انجام کو پہنچا۔

مسلمان ابوموسی کی تلاش میں نکلے، لیکن وہ مکہ فرار ہو گئے تھے۔ عمرو بن عاص اور اہل شام معاویہ کے پاس پہنچے اور اسے خلیفہ تسلیم کرتے ہوئے اس کی بیعت کی۔
اس طرح امیرالمؤمنین علیہ السلام واپس لوٹے اور اپنی فوج کو دوبارہ منظم کرکے جنگ کی نئی تیاریاں شروع کیں، لیکن ان کے اپنے ساتھیوں میں پیدا ہونے والے نئے اختلافات نے انہیں اپنے مقاصد کی طرف بڑھنے سے روک دیا۔

مزید مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے