علامہ مجلسی امیرالمؤمنین علی علیہالسلام کی کرامات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ حضرت امیرالمؤمنین علیہالسلام کی کرامات کے بارے میں بہت سی روایات نقل کی گئی ہیں، یہاں تک کہ شاعروں نے بھی انہیں نظم کی صورت میں بیان کیا ہے اور بعض کرامات مشہور ہو چکی ہیں جیسے واقعۂ ردّ الشمس (سورج کا پلٹایا جانا)، ان کرامات میں سے ایک سال ۱۲۷۲ ہجری میں ظاہر ہوئی۔
میں نے معتبر افراد سے سنا ہے کہ ایک بڑھیا جس کا نام مریم تھا، شہر غری (یعنی نجف؛ چونکہ نجف کو غری بھی کہا جاتا ہے اور اسی نسبت سے اہلِ نجف کو غَروی کہا جاتا ہے) میں رہتی تھی، جو عبادت اور تقویٰ کے لیے مشہور تھی۔
وہ سخت بیمار ہو گئی اور اس کی بیماری اتنی طولانی ہو گئی کہ وہ چلنے پھرنے کے قابل نہ رہی، تقریباً دو سال تک اسی حالت میں رہی یہاں تک کہ اس کی بیماری کی حالت شہرِ غری میں مشہور ہو گئی۔
جب ماہِ رجب آیا تو اس بڑھیا نے اس مبارک مہینے میں نو راتیں اللہ کے حضور دعا کی اور مولا امیرالمؤمنین علی علیہالسلام سے مدد طلب کی نیز آپ سے اپنی بیماری کی شکایت کی۔
اس نے خواب میں دیکھا کہ تین عورتیں اس کے پاس آئیں، جن میں سے ایک کا چہرہ چودھویں رات کے چاند کی مانند نورانی اور پاکیزہ تھا۔
ان عورتوں نے اس سے کہا ڈرو مت اور غمگین نہ ہو، تمہارا درد اس مبارک مہینے کی بارہویں شب کو دور ہو جائے گا۔
جب وہ خواب سے بیدار ہوئی تو بہت خوش ہوئی اور اپنے سچے خواب کو اپنے اطراف کے لوگوں سے بیان کیا۔
پھر وہ ماہِ رجب کی بارہویں شب کا انتظار کرتی رہی، لیکن اس رات کچھ نہ ہوا۔
پھر اس نے شعبان کی بارہویں شب کا بھی انتظار کیا، لیکن اس رات بھی کچھ نہیں ہوا۔
یہاں تک کہ ماہِ مبارک رمضان کی نویں شب کو اس نے پھر انہیں عورتوں کو خواب میں دیکھا جنہوں نے اسے بشارت دی اور کہا
جب اس مہینے کی بارہویں شب آجائے تو امیرالمؤمنین علیہالسلام کے حرم میں جانا اور ان تین عورتوں کو (جن کے نام اس بڑھیا کو بتا دیے گئے تھے اور جو اس کتاب کی تحریر کے وقت تک زندہ تھیں) اپنے ساتھ لے جانا۔
وہ خواب سے بیدار ہوئی تو اپنا خواب بیان کیا اور بہت خوش اور پرامید ہوئی،یہاں تک کہ وہ شب آ پہنچی، اس نے درخواست کی کہ اس کے بدن کو پاک کیا جائے، اسے پاکیزہ لباس پہنایا جائے اور ان عورتوں کو خبر دی جائے۔
پھر وہ بڑھیا، جو خود چلنے کے قابل نہ تھی، تین عورتوں کے ساتھ حضرت علی علیہالسلام کے حرم میں لے جائی گئی۔
جب رات کا تقریباً چوتھائی حصہ گزر گیا تو ان میں سے ایک عورت نے اس سے معذرت کی اور وہاں سے چلی گئی، اور دو عورتیں اس کے ساتھ باقی رہ گئیں، جو لوگ حرم میں تھے وہ سب رخصت ہو گئے اور دروازے بند کر دیے گئے، صرف وہ تین عورتیں رواق میں رہ گئیں۔
سحر کے وقت، اس کے ساتھ موجود دو عورتیں سحری کھانا چاہتی تھیں، اس لیے انہوں نے بڑھیا کو قبلة رُخ ضریح کی جالی کے پاس بٹھا دیا اور خود دوسرے رواق میں جا کر دروازہ بند کر دیا۔
جب وہ واپس آئیں تو بڑھیا کو وہاں نہ پایا جہاں اسے بٹھایا تھا،وہ پریشان ہو گئیں اور ہر طرف اسے ڈھونڈنے لگیں، یہاں تک کہ اسے مکمل صحت و سلامتی کے ساتھ چلتے ہوئے پایا!
انہوں نے بڑھیا سے پوچھا یہ کیا ماجرا ہے؟
بڑھیا نے کہا جب تم گئیں تو وہی عورتیں آئیں جنہیں میں نے خواب میں دیکھا تھا، انہوں نے مجھے اٹھایا اور حرم کے اندر لے گئیں، مجھے پتہ نہیں چلا کہ وہ مجھے کیسے اور کہاں سے اندر لے گئیں! جب میں ضریحِ مطہر کے قریب پہنچی تو قبر کے اندر سے ایک آواز آئی جو کہہ رہی تھی اس نیک عورت کو حرکت دو اور اسے تین بار گھماؤ،پھر انہوں نے مجھے تین مرتبہ قبر کے گرد گھمایا۔ اس کے بعد ایک اور آواز آئی جس نے کہا اس نیک عورت کو درِ رحمت سے باہر لے جاؤ، پھر وہ مجھے مغربی سمت سے، جو نمازیوں کے پیچھے اور دروازے کے پہلو میں ہے، باہر لے آئیں، اس سے پہلے یہ دروازہ اس نام سے مشہور نہ تھا۔
اب مجھے کوئی درد اور کمزوری محسوس نہیں ہوتی بلکہ بالکل تندرست اور قوی ہوں۔
مولانا محمد طاہر[1] (جو اس وقت حرم کے خادم تھے) اور بہت سے نیکوکار افراد جو اس شب حرم میں موجود تھے، سب نے گواہی دی کہ رات کے آغاز میں بڑھیا کو اس حال میں حرم لایا گیا تھا کہ وہ چلنے کے قابل نہ تھی، لیکن جب وہ حرم سے باہر نکلی تو صحت مند تھی اور اپنے پیروں پر چل رہی تھی۔
مأخذ
بحار الانوار، جلد ۹۷، صفحه ۱۵۳؛ الیتيمة الغروية، صفحه ۴۸۲.
[1] ۔ مولانا محمد طاہر سنہ ۱۰۷۲ ہجری میں حرمِ امام علی علیہالسلام کے خزانچی تھے اور اپنے دور کے دانشوروں میں شمار ہوتے تھے۔
ان کی گواہی میرزا عمادالدین محمد حکیم ابیالخیر بن عبداللہ بافقی کے اجتہاد کی تصدیق کے طور پر، سنہ ۱۰۷۱ ہجری میں دیکھی گئی ہے۔
شیخ یوسف حصری مترجم نے اپنی کتاب نشوة السلافة میں اس کرامت کو، جسے علامہ مجلسی نے ایک سو سے زیادہ اشعار پر مشتمل قصیدے میں بیان کیا ہے، نظم کی صورت میں ذکر کیا ہے۔ نشوة السلافة کے مصنف نے بھی حصری کے اسی ترجمے میں اس واقعے کی طرف اشارہ کیا ہے۔