عہدِ نادر شاہ میں مسجدالحرام میں شیعوں کے نمائندہ اور امام جماعت جلیل القدر عالم دین سید نصرالله الحائری اپنی کتاب تبصرۃ المؤمنین میں ایک عجیب روایت نقل کرتے ہیں۔
اس روایت کو اہل سنت کے عالم دین محمد صالح الحسنی الترمذی نے بھی اپنی کتاب المناقب میں صحیح اسناد کے ساتھ نقل کیا اور اس کی تصدیق کی ہے۔
ماجرا کچھ یوں ہے کہ ایک شخص جس کا نام مرّة بن قیس تھا، جو کافر اور مال و دولت کے ساتھ بہت سارے نوکر و چاکر کا مالک تھا، ایک روز اپنے قبیلہ کے ساتھ اپنے باپ دادا کے بارے میں گفتگو کر رہا تھا۔
اسی دوران یہ بات کہی گئی کہ علی بن ابی طالب علیہالسلام نے اس کے قبیلے کے ہزاروں افراد کو قتل کیا تھا، اس نے حضرت علی علیہالسلام کی قبر کے بارے میں پوچھا، تو بتایا گیا کہ نجف میں ہے۔
چنانچہ مرّة بن قیس دو ہزار سوار اور ہزاروں پیادہ لشکریوں کے ساتھ نجف کی سمت روانہ ہوا۔
جب وہ شہر نجف پہنچا تو اہلِ نجف باہر نکل آئے اور جنگ کے لیے تیار ہو گئے،جنگ چھ دن تک جاری رہی، یہاں تک کہ کافروں کو غلبہ حاصل ہوا اور وہ حرمِ مقدس میں داخل ہو گئے۔
مرّة بن قیس حرمِ مقدس امیرالمؤمنینؑ میں داخل ہوا اور گستاخی کے ساتھ حضرت علی علیہالسلام کو گالیاں دیں اور قبر کی بےحرمتی (قبر کھودنے) کا ارادہ کیا۔
لیکن اسی وقت قبر سے دو انگلیاں ظاہر ہوئیں جو ذوالفقار کی مانند چمک رہی تھیں اور انہوں نے مرّة بن قیس کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا، اس کے جسم کے دونوں ٹکڑے سیاہ پتھر میں تبدیل ہو گئے۔
اہلِ شہر نے ان دونوں پتھروں کو شہر کے دروازے پر رکھ دیا اور جو بھی نجف آتا تھا، ان پتھروں کو لات مارتا تھا، ان پتھروں کی ایک عجیب خاصیت تھی کہ کوئی بھی جانور ان پر سے گزر نہیں سکتا تھا۔
بعد میں کچھ نادان لوگ انہیں فروخت کرنے کے لیے مسجدِ کوفہ لے گئے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ وہ پتھر ٹوٹ پھوٹ کر ختم ہو گئے اور نابود ہو گئے۔
جلیل القدر عالم دین اور شرح الاستبصار کے مؤلف شیخ قاسم کاظمینی اُس شخص پر لعنت کیا کرتے تھے جو ان پتھروں کو نجف سے باہر لے گیا۔
وہ کہا کرتے تھے:
خدا اُس شخص کا بھلا نہ کرے جس نے ان دونوں پتھروں کو اس بارگاہِ مقدس سے باہر نکالا اور اس روشن معجزے کو نابود کر دیا۔