سب سے زیادہ تلاش کیا گیا:

امیرالمؤمنین علیہ السلام کی شہادت اور  جائے دفن

امیرالمؤمنین علیہ السلام کی شہادت اور  جائے دفن

حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام سن 40 ہجری، ماہِ مبارک رمضان کی اکیسویں شب کو 63 برس کی عمر میں کوفہ شہر میں ایک خارجی ابن ملجم ملعون کے وار سے شہید ہوئے۔

شیخ مفیدؒ اپنی معروف کتاب الارشاد میں تحریر فرماتے ہیں:حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام، ماہِ رمضان کی اکیسویں شب، صبح صادق کے وقت، مسجد کوفہ میں ابن ملجم خارجی لعنت اللہ علیہ کے وار سے شہید ہوئے۔ آپ کے دو بیٹوں، حضرت حسن اور حضرت حسین علیہما السلام نے وصیت کے مطابق آپ کو غسل دیا، کفن پہنایا اور پیکرِ مطہر کو کوفہ کے مقدس مقام الغری میں لے جا کر دفن کیا۔

حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی قبر، ان کی اپنی وصیت کے مطابق، پوشیدہ رکھی گئی، کیونکہ آپؑ بنی امیہ کی سازشوں اور ان کی بے انتہا عداوت سے بخوبی آگاہ تھے، آپؑ جانتے تھے کہ یہ گروہ اپنی خباثتوں اور بدنیتی کی وجہ سے کچھ بھی کر گزرے گا[1]۔

اہل بیت علیہم السلام سے بہت سی احادیث نقل ہوئی ہیں جن میں بیان ہوا ہے کہ حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام کو نجف میں اسی مقدس مقام پر دفن کیا گیا جہاں آج ان کا روضۂ مبارک زیارت کا مرکز ہے۔

ان میں سے ایک حدیث حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے جس میں آپؑ نے فرمایا:حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام نے اپنی وصیت میں فرمایا:مجھے ’’ظَهر‘‘ (نجف کے قدیم ناموں میں سے ایک) کی طرف لے جانا جب تمہارے قدم زمین کی شدتِ گرمی سے جلنے لگیں اور ہوائیں تمہاری جانب چلنے لگیں تو وہیں مجھے دفن کرنا، کیونکہ وہی جگہ طورِ سینا کی ابتدا ہے[2]۔

علامہ ابن طاووس نے اپنی کتاب کے باب فرحة الغری میں حَبان بن علی عنزی کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ جو امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب علیہ السلام کی خدمت میں موجود تھے۔

کہتے ہیں  کہ جب حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام کی شہادت کا وقت قریب آیا تو آپؑ نے امام حسن اور امام حسین علیہما السلام سے فرمایا:جب میں دنیا سے رخصت ہو جاؤں تو میرے جنازے کو ایک تخت پر رکھنا اور اس تخت کے پیچھے والے حصے کو تم دونوں اپنے کاندھوں پر اٹھانا جبکہ اس کے اگلے حصے کو ہاتھوں پر اٹھانا اور مجھے الغرین لے جانا

وہاں آپ لوگوں کو ایک سفید رنگ کی چٹان دکھائی دے گی

اسے کھودنا تو وہاں  آپ کو ایک لکڑی کا ٹکڑا ملے گا،مجھے اسی جگہ دفن کرنا۔

راوی بیان کرتا ہے:جب حضرت علی علیہ السلام کی روح پرواز کر گئی،

ہم نے پیکرِ مبارک کو تخت پر رکھا،تخت کے پچھلے حصے کو ہم نے اپنے کندھوں پر اٹھایا اور سامنے کا حصہ ہاتھوں پر اٹھایا

ہمیں چلتے چلتے ایک مدھم سی آواز سنائی دے رہی تھی…

یہاں تک کہ ہم الغریّ پہنچے، ہم نے وہاں ایک سفید چمک دار چٹان دیکھی جو سفیدی کی شدت سے چمک رہی تھی، جب ہم نے اس جگہ کو کھودا تو ہمیں ایک لکڑی کا تختہ ملا،جس پر یہ جملہ کندہ تھا:

یہ وہ چیز ہے جو نوح نبیؑ نے علی بن ابی طالبؑ کے لیے ذخیرہ کر رکھی ہے۔

پس ہم نے امیرالمؤمنینؑ کو اسی جگہ دفن کیا اور ہمیں یہ روحانی خوشی حاصل ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت علی علیہ السلام کو کس قدر عظمت و شرافت سے نوازا ہے[3]۔
اللہ رب العزت نے نجف کی خاک کو اپنے انبیا، اوصیاء اور صالحین کے پاکیزہ پیکروں سے عزت اور برکت عطا کی ہے خصوصاً یہ کہ حضرت آدم، نوح، ہود اور صالح علیہم‌السلام بھی اسی سرزمین میں دفن ہیں۔

مفضل بن عمر جعفی روایت کرتے ہیں:میں امام جعفر صادق علیہ‌السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا:مولا! میرا دل خاکِ غری کے لیے تڑپ رہا ہے۔

امام علیہ‌السلام نے فرمایا:کس چیز نے تمہیں اس مٹی کا مشتاق بنایا؟

میں نے عرض کیا:میں امیرالمؤمنین علی علیہ‌السلام کی زیارت کا مشتاق ہوں۔

حضرت نے فرمایا:کیا تم جانتے ہو اس زیارت کا کیا اجر ہے؟

میں نے عرض کیا:نہیں، مولا! مجھے آگاہ فرمائیے۔

تب امام علیہ‌السلام نے فرمایا: جب بھی تم امیرالمؤمنینؑ کی زیارت کے لیے روانہ ہو، جان لو کہ تم آدمؑ، نوحؑ اور علی بن ابی طالبؑ کی زیارت کو جا رہے ہو[4]۔
شیخ طوسی کی کتاب تہذیب میں بھی یہ روایت موجود ہے کہ حضرت علی علیہ‌السلام نے اپنے فرزند امام حسن علیہ‌السلام کو وصیت فرمائی، اور یوں فرمایا:جب میں اس دنیا سے رخصت ہو جاؤں تو مجھے الظہر(نجف) میں دفن کرنا، میرے دو بھائیوں ہود اور صالح (علیہماالسلام) کی قبر میں[5]۔
امام جعفر صادق علیہ‌السلام کے دو صحابی سلیمان بن خالد اور محمد بن مسلم روایت کرتے ہیں:ہم حِیرہ کی جانب امام جعفر صادق علیہ‌السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے،ہم نے حضرت سے امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی قبر کے بارے میں سوال کیا۔

حضرت نے فرمایا:جب تم روانہ ہو اور الثُوَیَّه اور القائم کے علاقوں سے گزر جاؤ اور نجف سے تمہارا فاصلہ چند قدم رہ جائے، تو تم ایک جگہ پہنچو گے جسے ذکوات بیض کہتے ہیں (نجف کی اونچی زمین جس کی مٹی سفید رنگ کی ہوتی ہے)۔ وہاں ایک قبر ہے جس کی مٹی پانی کی طغیانی نے بہا دی ہے… وہی امیرالمؤمنین علی علیہ‌السلام کی  قبر ہے[6]۔
علاوہ ازیں، متعدد تاریخی و روائی ذرائع میں یہ بات بیان ہوئی ہے کہ امیرالمؤمنین علی علیہ‌السلام کی قبر مبارک نجف میں واقع ہے۔

اس مسئلے کی اہمیت کے پیشِ نظر، ان اقوال کا رد بھی کیا گیا ہے جو مرقد شریف کی جگہ کو مشکوک یا غلط قرار دیتے ہیں۔

یہ اقوال عموماً محض بغض، عناد اور اولیاء اللہ سے دشمنی پر مبنی ہیں، جن کی کوئی علمی یا تاریخی بنیاد نہیں ۔

مثال کے طور پر، ابن ابی الحدید معتزلی نے اپنی شرحِ نہج‌البلاغہ میں ان اقوال کے رد میں لکھا ہے:حضرت علیہ‌السلام کی قبر الغری (یعنی نجف) میں واقع ہے۔

ان راویوں کے ان دعووں کی کوئی بنیاد نہیں جو یہ کہتے ہیں کہ حضرت علی علیہ‌السلام کی قبر مدینہ میں ہے یا مسجد جامع کے صحن میں یا قصر الامارہ کے دروازے کے پاس ہے یا یہ کہ حضرت کا پیکر ایک اونٹ پر لادا گیا اور وہ اونٹ بھاگ نکلا اور آخرکار اعراب نے اس اونٹ کو پکڑ کر امام علیہ السلسم کو دفن کیا…

یہ تمام اقوال باطل اور حقیقت سے عاری ہیں،حضرت علی علیہ‌السلام کی اولاد سوا کوئی بھی ان کی قبر کے مقام سے آگاہ نہیں تھا،جس طرح اولاد، اپنے والدین کی قبر کے بارے میں دوسروں سے زیادہ جانتی ہے اسی طرح حضرت علی علیہ‌السلام کی اولاد، ان کے مرقد کی صحیح جگہ سے واقف تھی۔

یہی وہ مرقد مطہر ہے  کہ اہل بیت علیہم السلام اور اولیاء خدا عراق آتے وقت خاص اہتمام سے وہاں حاضری دیتے تھے اور آپ کی زیارت کے لیے جاتے تھے جن میں سے خاص طور پر امام جعفر صادق علیہ‌السلام اور دیگر اولیائے الٰہی کا ذکر موجود ہے[7]۔

علامہ ابن طاؤوس بھی اپنی کتاب فرحة الغری میں لکھتے ہیں:اس میں کوئی شک نہیں کہ امام علی علیہ‌السلام کی پاکیزہ عترت (اہل بیت) اور ان کے حقیقی شیعہ آپ کی قبر مطہر کے مقام کے بارے میں مکمل طور پر متفق ہیں اور اس بارے میں ان کو کوئی شک یا تردد نہیں۔
نقل کیا گیا ہے کہ اہل بیت علیہم السلام کے پاس دلائل و شواہد موجود ہیں جو اس مقام کی صحت و صداقت کی تصدیق کرتے ہیں اور یہ ایسے محکم دلائل ہیں جو جاہل منکرین کے دعووں کو باطل کر دیتے ہیں۔

تعجب کی بات یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی مقام پر کھڑا ہو کر کہے کہ یہ میرے والد کی قبر ہے تو لوگ فوراً اس کی بات کو تسلیم کر لیتے ہیں اور اسے حجت مانتے ہیں لیکن جب حضرت علی علیہ‌السلام کی اولاد متفقہ طور پر اس جگہ کو اپنے والدِ گرامی کا مرقد قرار دیتے ہیں تو دوسرے لوگ اسے قبول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں!کیا واقعی اجنبی لوگ، اہلِ بیت سے زیادہ حضرت علیؑ کی قبر کے بارے میں جانتے ہیں؟ بے شک، یہ بات نہایت تعجب خیز ہے![8]

مأخذ
الإرشاد في معرفة حجج الله على العباد, الشيخ المفيد. مؤسسة آل البيت عليهم السلام لإحياء التراث, بيروت, لبنان, ۱۴۱۶هـ.

تهذيب الأحكام, الشيخ الطوسي: دار التعارف, بيروت, لبنان, ۱۴۱۲هـ.

فرحة الغري في تعيين قبر أمير المؤمنين علي عليه السلام: عبدالكريم بن طاووس: ۱۲۳-۱۲۴. دار التعارف, بيروت, لبنان, ۱۴۳۱هـ.

كامل الزيارات, جعفر بن قولويه القمي: ۳۹. دار القارئ, بيروت, لبنان, ۱۴۳۰هـ.

شرح نهج البلاغة, ابن أبي الحديد المعتزلي: مؤسسة الصفاء للمطبوعات. بيروت, لبنان, ۱۴۳۳هـ

 

[1] ۔ الإرشاد في معرفة حجج الله على العباد، جلد ۱ ،ص ۹-۱۰

[2] ۔ تهذيب الأحكام جلد ۶، ص ۳۴.

[3] ۔ فرحة الغري في تعيين قبر أمير المؤمنين علي عليه السلام، ص۱۲۳-۱۲۴

[4] ۔  كامل الزيارات، ص ۳۹.

[5] ۔ تهذيب الأحكام، جلد۶، ص ۲۹.

[6] ۔ فرحة الغري في تعيين قبر أمير المؤمنين علي عليه السلام، ص۲۳۷

[7] ۔ . شرح نهج البلاغة جلد ۱، ص ۱۰-۱۱.

[8] ۔ فرحة الغري في تعيين قبر أمير المؤمنين علي عليه السلام، ص۸۱-۸۲.

مزید مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے