حضرت آیۃ اللہ سید ابو الحسن اصفہانی شیعوں کے مراجع، فقہاء اور آخوند خراسانی کے ممتاز شاگردوں میں سے تھے۔
حضرت آیۃ اللہ سید ابو الحسن اصفہانی شیعوں کے عظیم مراجع اور فقہاء میں سے تھے اور ان کا شمار آخوند خراسانی کے ممتاز شاگردوں میں ہوتا تھا۔
ولادت اور خاندان
سید ابوالحسن اصفہانی سنہ ۱۲۸۴ ہجری قمری میں صوبہ اصفہان کے لنجان ضلع کے ایک چھوٹے سے گاؤں "مدیسہ” میں پیدا ہوئے۔
آپ کا تعلق اصل میں بہبہان کے موسوی سادات سے تھا۔ آپ کی ولادت سے کئی برس پہلے، آپ کے دادا سید عبدالحمید بہبہان سے اصفہان آگئے تھے۔ سید عبدالحمید نجف کے جیّد علماء میں سے تھے اور حضرت آیت اللہ شیخ محمد حسن نجفی المعروف بہ "صاحب جواہر” کے شاگرد تھے۔ انہوں نے نجف سے واپس ہونے کے بعد اصفہان اور لنجان میں سکونت اختیار کی اور آخری عمر تک وہیں پر تدریس اور شرعی امور کی انجام دہی میں مصروف رہے۔
سید ابوالحسن کے والد سید محمد اسی زمانے میں کربلا میں پیدا ہوئے تھے جب سید عبدالحمید دینی تعلیم کے لئے عراق گئے ہوئے تھے۔ اگرچہ سید محمد کا شمار علماء میں نہیں ہوتا ہے لیکن وہ بہت ہی پرہیزگار اور روشن دل انسان تھے۔ ان کی وفات کے بعد انہیں خوانسار کے علاقے میں سپرد خاک کیا گیا۔
علمی مقام و منزلت
حضرت آیت اللہ سید ابوالحسن اصفہانی میرزا حبیب اللہ رشتی اور آخوند خراسانی کے شاگرد تھے۔ آپ نے اوّلاً غیر معمولی قوت حافظہ، اور شیعہ فقہ پر گہری دسترس، ثانیاً مشروطہ انقلاب کے دوران اپنی سیاسی سرگرمیوں، ثالثاً نجف کے آبرسانی کے نظام کی اصلاح جیسے عوامی فلاح و بہبود کے وسیع منصوبوں کی بنا پر حوزہ علمیہ نجف میں بے پناہ مقبولیت اور محبت حاصل کی۔
مرحوم شیخ آقا بزرگ تہرانی کہتے ہیں کہ میں نے خود جناب سید ابو الحسن سے سنا ہے کہ ان کی تاریخ پیدائش ۱۲۸۴ ہے۔ لیکن ان کے مقبرے میں موجود تصویر کے نیچے ۱۲۷۱ درج ہے، یعنی دونوں میں ۱۳ سال کا فرق ہے!
حضرت آیتالله سید موسی شبیری زنجانی مدظلہ العالی مختلف قرائن کی بنیاد پر اس بات کے قائل ہیں کہ ۱۲۷۱ کی تاریخ صحیح ہے۔ جیسا کہ میرزا ہاشم آملی کہتے ہیں کہ آیت اللہ سید ابوالحسن اصفہانی جب نجف کے مدرسہ صدر میں تشریف لائے اس وقت وہ ایک ایسے معزز عالم دین بن چکے تھے جنہیں طلاب ان سے ملاقات سے پہلے ہی سے انہیں جانتے تھے۔ اسی بناء پر وہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ ان کی صحیح تاریخ ولادت سنہ ۱۲۷۱ ہی ہونا چاہئے۔
حضرت آیت اللہ شبیری زنجانی مدّظلہ دوسری جگہ فرماتے ہیں:
میں نے سنا ہے کہ جناب سید ابوالحسن اپنی تاریخ ولادت کا اظہار اس لئے نہیں کرتے تھے، کیونکہ کسی پیشینگوئی کرنے والے نے انہیں خبردار کیا تھا کہ جس وقت بھی وہ اپنی تاریخ ولادت کا اظہار کریں گے اسی برس ان کی وفات کا سال ہوگا۔۔۔ شاید اسی وجہ سے انہوں نے مرحوم شیخ آقا بزرگ سے بھی توریہ سے کام لیتے ہوئے تاریخ ولادت کو پوشیدہ رکھا اور واقعی تاریخ ولادت کو ظاہر کرنے سے گریز فرمایا۔
مرجعیت کے عہدے پر فائز ہونا
آپ آیت اللہ شیخ عبدالکریم حائری یزدی کے انتقال کے بعد سنہ ۱۳۵۵ ہجری میں مرجعیت کے عہدے پر فائز ہوئے۔ اور میرزا حسن نائینی، آقا ضیاء عراقی جیسے جناب آخوند خراسانی کے دیگر ممتاز شاگردوں کی وفات کے بعد سنہ ۱۳۶۱ میں پورے عالم تشیع کی مرجعیت آپ پر منحصر ہوگئی۔
آپ کو شیعہ مراجع تقلید میں سب سے زیادہ روشن خیال مرجع تقلید کے طور پر جانا گیا ہے، جنہوں نے اپنی دس سالہ مرجعیت کے دوران حوزہ علمیہ نجف میں نمایاں تبدیلیاں ایجاد کیں۔ منجملہ آپ نے کئی نئے مدارس کی بنیاد ڈالی اور علمی جرائد کو شائع فرمایا۔
رضاخانی جمہوریت کی مخالف
سنہ ۱۳۰۲ شمسی میں سید ابوالحسن اصفہانی (میرزا نائینی اور سید محمد علی شہرستانی کے ہمراہ) عثمانیہ حکومت کے ماتحت عراق سے ایران کی طرف جلاوطن کر دیے گئے۔
اس وقت ایران میں مجموعی طور پر قاجاریوں نے عوام میں اپنی روایتی مقبولیت کھو دی تھی اور مجلس کے اکثر اراکین مشروطہ نظام حکومت کو جمہوریت میں بدل دینے کے حامی تھے۔
اسی دوران، جب سنہ ۱۳۰۲ق میں حضرت آیت اللہ اصفہانی کو عراق سے ایران جلاوطن کیا گیا، اس وقت رضاخان (فوج کا سردار) اقتدار پر اپنی اجارہ داری کو مکمل طور پر مستحکم کرنے کے ارادے سے ایران کو جمہوریہ بنادینے کی بھرپور تبلیغ اور کوشش کر رہا تھا۔
رضاخان کی جمہوریت سے دستبردار ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ علمائے کرام (خاص کر آیت اللہ اصفہانی) نے ایران کے سیاسی نظام کو جمہوریت میں تبدیل کرنا مناسب نہ سمجھا۔ علماء کو یہ خدشہ تھا کہ کہیں ترکی کی طرح، جمہوریت کے آنے کے بعد دین اور مذہب کو ختم نہ کر دیا جائے، اور ایران ترکی جیسی صورت حال سے دوچار ہوجائے۔
جب فوج کے سردار نے قم میں اس وقت کے تین عظیم مراجع تقلید، سید ابوالحسن اصفہانی، میرزا حسین نائینی اور شیخ عبدالکریم حائری یزدی سے ملاقات کی، علماء نے جمہوریت کے بارے میں اپنے موقف کو بیان کیا اور رضاخان کے لیے اپنے ممکنہ کردار سے آگاہ فرمایا۔ ان میں سے دو مجتہدین نے رضاخان کی بقاء کو آئیین اور مشروطیت کے پابند رہنے سے وابستہ قرار دیا۔
شیخ عبدالکریم حائری یزدی کے فرزند مہدی حائری یزدی کے بقول، اس ملاقات میں رضاخان سے کہا گیا کہ علماء اسے بادشاہ کے طور پر تو تسلیم کرسکتے ہیں، لیکن "جمہوریت” ان کے لیے قابل قبول نہیں ہے؛ لہٰذا طے پایا کہ جمہوریت کے بارے میں گفتگو کو موقوف کردیا جائے۔
اس اعلان کے بعد، رضاخان بھی مجبور ہو گیا کہ ایک باضابطہ اعلان کے ذریعے جمہوریت کی حمایت سے اپنی دستبرداری کا اعلان کرے۔
رضاخان نے قم سے واپسی کے بعد ایک حکومتی اعلان جاری کیا کہ وہ مراجع تقلید (اصفہانی، نائینی، اور حائری یزدی) سے اتفاق رائے کے تحت جمہوریت سے دستبردار ہوتا ہے۔ اسی طرح ان تینوں مراجع کرام نے بھی قم میں ایک مشترکہ اعلان جاری کیا، جو اس اتفاق رائے کی توثیق کرتا تھا۔
نجف واپسی
آخرکار، ملک فیصل کو جلاوطن کیے گئے مراجع (سید ابوالحسن اصفہانی، میرزا نائینی، اور سید محمد علی شہرستانی) سے معذرت خواہی پر مجبور ہونا پڑا، اور یہ تینوں علمائے کرام، آٹھ مہینے کی جلاوطنی کے بعد، سنہ ۱۳۴۲ ہجری میں دوبارہ حوزۂ علمیہ نجف واپس لوٹ آئے۔
فتویٰ دینے کی جرأت
حضرت آیت اللہ اصفہانی احکامِ الٰہیہ اور اپنے فہم کے مطابق صحیح نظر آنے والے مسائل کے بیان میں غیر معمولی جرأت کے حامل تھے، اور اس میں کسی کی پروا نہیں کرتے تھے، چاہے بظاہر ان کے لئے نقصان دہ ہی کیوں نہ ہو۔
آپ نے درندہ صفت استعمار اور اس کے مقامی ایجنٹوں کے خلاف استقامت کا مظاہرہ کیا اور اپنے فتووں کے ذریعے عوام کو ان کے مقابلے میں ڈٹ جانے کی ترغیب دی۔ اس مقدس راہ میں آپ نے بے شمار مشقتیں اور سختیاں بھی برداشت کیں۔
آپ قرآن کریم کی اس آیت "۔۔۔یجاهدون فی سبیل الله و لا یخافون لومة لائم۔۔۔” کے نمایاں مصداق تھے۔ خدا کی راہ میں جہاد کرتے تھے اور ملامت کرنے والوں کی ملامت سے خوفزدہ نہیں ہوتے تھے۔
وہ مرجع جس نے برطانوی سفیر کو شرمسار کر دیا
دوسری عالمی جنگ کے بعد، عراقی حکومت اور وزیر اعظم نوری سعید کی جانب سے الحاج مہدی بہبہانی نام کی ایک معتمد شخصیت، مرجع تقلید حضرت آیت اللہ سید ابوالحسن اصفہانی کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ انہوں نے گفتگو کے دوران کہا: برطانیہ کا سفیر آپ کی خدمت میں حاضری کا خواہشمند ہے اور اپنی حکومت کا پیغام پیش کرنا چاہتا ہے!
حضرت آیت اللہ اصفہانی اس سے ملاقات پر راضی نہ ہوئے، البتہ جب لوگوں نے بہت زیادہ اصرار کیا تو آپ نے فرمایا: میں ایک شرط پر اس کی ملاقات منظور کروں گا! اور وہ یہ کہ ملاقات اور گفتگو اعلانیہ اور لوگوں کی موجودگی میں ہوگی!
ملاقات کا دن آن پہنچا۔ اور برطانیہ کا سفیر، سخت حفاظتی انتظامات اور بڑی شان و شوکت کے ساتھ عراقی وزیراعظم اور چند وزراء کے ہمراہ آیت اللہ العظمیٰ اصفہانی کے دولتکدہ میں داخل ہوا۔ دوسری طرف، مرجع وقت کی جانب سے مدعو کی گئی مختلف شخصیات کا بڑا مجمع بھی وہاں پر موجود تھا۔
جب حضرت آیت اللہ اصفہانی تشریف فرما ہوئے، تو برطانوی سفیر نے، جو ان کے پہلو میں بیٹھا تھا، سلام عرض کرنے، آداب بجا لانے اور اپنی حکومت کا پیغام پیش کرنے کے بعد کہا: عالی جناب!
برطانیہ کی حکومت نے نذر مانی تھی کہ اگر وہ نازی جرمنی پر فتح حاصل کر لے، تو ایک لاکھ دینار آپ کی خدمت میں بحیثیت مرجع عالم تشیع پیش کرے گی، تاکہ آپ اسے جس مصرف میں مناسب سمجھیں، استعمال فرمائیں۔
حضرت آیت اللہ اصفہانی نے فرمایا: کوئی حرج نہیں!
سفیر نے فوراً ہی اپنا بریف کیس کھولا اور ایک لاکھ دینار کا چیک آپ کی خدمت میں پیش کردیا۔ مرجع عالی مقام نے اسے قبول فرمایا اور اپنے تکیے کے نیچے رکھ دیا!
حضرت آیت اللہ کی جانب سے اس تحفے کا قبول کرلینا جلسہ میں موجود بعض علماء، تاجروں اور دیگر معزز شخصیات کو ناگوار گزرا اور وہ رنجیدہ خاطر ہوئے۔
لیکن کچھ ہی لمحے بعد کیا دیکھتے ہیں کہ "حضرت آیت اللہ” نے برطانوی سفیر اور اس کے ساتھیوں سے فرمایا: ‘ہمیں معلوم ہے کہ اس جنگ میں یورپ کے بے شمار لوگ بے گھر ہو چکے ہیں اور ان کی زندگی برباد ہو گئی ہے۔
ہماری طرف سے اپنی حکومت کو یہ پیغام پہچادیں کہ: سیّد ابوالحسن، مسلمانوں کی جانب سے، جنگ کے متاثرین کی امداد کے لیے ایک معمولی رقم پیش کر رہے ہیں، اور مقدار کی کمی پر معذرت خواہ ہیں، کیونکہ آپ خوب جانتے ہیں کہ ہم خود بھی اسی جیسے حالات سے دوچار ہیں۔
اس کے بعد، آپ نے برطانوی سفیر کا دیا ہوا چیک تکیہ کے نیچے سے نکالا، اور اس کے ساتھ اپنی طرف سے ایک لاکھ دینار کے چیک کا اضافہ کرکے برطانیہ کے سفیر کے حوالے کردیا!!
حضرت آیت اللہ اصفہانی کی اس ماہرانہ تدبیر اور عزتِ نفس سے برطانوی سفیر نہایت شرمندہ ہوا، اس کے چہرے کا رنگ متغیر ہوگیا، اور فوراً رخصت کی اجازت طلب کرنے لگا۔ اس نے مرجع عالی مقام کی دست بوسی کی اور ان کے دولتکدے سے باہر نکل آیا!
کچھ ہی دیر بعد، عراقی وزیر اعظم، نوری سعید دوبارہ حضرت آیت اللہ اصفہانی کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور خود کو آپ کے قدموں پر گرا دیا۔ اور عرض کیا:
اے مرجع عظیم القدر! آپ پر قربان جاؤں!
برطانیہ کا سفیر، آپ کی خدمت سے رخصت ہونے کے بعد، آپ کی ہوشیاری اور فراست سے اس قدر حیرت زدہ ہوا کہ کہنے لگا:
‘ہم تو چاہتے تھے کہ شیعوں کو استعمار کا شکار بنائیں اور انہیں خرید لیں! مگر تمہارے مرجع نے ہمیں ہی خرید لیا! اور اسلام کا پرچم برطانیہ کی سر زمیں پر گاڑ دیا!!
نوری سعید کے جانے کے بعد جلسہ میں موجود کچھ لوگوں نے حضرت آیت اللہ اصفہانی سے سوال کیا:
اگر وہ رقم جو آپ نے برطانوی سفیر کو دے دی، حوزہ علمیہ پر خرچ ہوتی، تو کیا بہتر نہ ہوتا؟!
اس پر آپ نے فرمایا:
سہم امام (علیہ السلام) اسلام اور مذہب کی تبلیغ اور ترویج میں خرچ ہونا چاہیے۔ میرے خیال میں، یہ ایک ایسا موقع تھا جس سے ہم اسلام کی تبلیغ و ترویج میں بہترین فائدہ اٹھا سکتے تھے۔
آج کے اس نازک دور میں بھی، دنیا کے مستکبرین کا ایک اہم ہتھیار، مذاہب اور ان کے رہنماؤں کو اپنے مفادات کے لیے مادی وسائل اور سہولیات کے ذریعے اپنے قابو میں رکھنا ہے۔
آپ کی تعلیم و علمی خدمات
حضرت آیت اللہ سید ابوالحسن اصفہانی نے اپنی ابتدائی دینی تعلیم اپنے آبائی گاؤں کے مدیسہ میں مکمل کی۔ جوانی کے ابتدائی دور میں آپ حوزہ علمیہ اصفہان تشریف لے گئے، حالانکہ آپ کے والد گرامی طالب علمی کے دور میں پیش آنے والی غربت اور گھر، خاندان سے دوری جیسی مشکلات کے سبب آپ کے طالب علم بننے پر راضی نہیں تھے۔ آپ نے اصفہان کے مدرسہ نیماورد میں حوزہ علمیہ کے اساتذہ کرام سے استفادہ کرتے ہوئے علوم نقلیہ اور عقلیہ کی تعلیم مکمل فرمائی۔
فقہ و اصول کے درجات کو مکمل کرنے کے بعد، آپ اصفہان کے اساتذہ کے درس خارج میں شریک ہو گئے۔
اساتذہ کرام
اصفہان کے حوزہ علمیہ میں اپنے تمام اساتذہ میں سے، وہ شخصیت کا سید ابوالحسن نے خود نام لے کر ذکر کیا ہے، آخوند ملا محمد کاشانی ہیں، جو علومِ عقلیہ اور ریاضیات کے استاد تھے۔
اصفہان میں آپ کے دیگر اساتذہ میں جن کا نام شمار کیا گیا ہے، ان میں سید مہدی نحوی، سید محمد باقر درچہای، سید ہاشم چہار سوقی، ابوالمعالی کلباسی اور جہانگیر خان قشقائی کا نام شامل ہیں۔
سیاسی سرگرمیاں
انگریزوں نے عراق میں اپنے مراکز کے تحفظ کے بہانے اس اسلامی ملک پر حملہ کرکے اسے اپنے قبضے میں لے لیا۔ اس دوران عراقی وزیر اعظم، رشید عالی ایران فرار کرگیا اور پھر وہاں سے مصر چلا گیا۔
انگریزوں کے حملے اور رشید عالی کے فرار ہوجانے کے ساتھ ہی، عراقی افسروں میں سے امیر عبداللہ (فیصل کے ماموں) اور نوری سعید، جو اردن میں پناہ لیے ہوئے تھے، انگریزوں کی امدادی فوج کے ذریعہ عراق واپس آئے اور دوبارہ عراق میں ایک کٹھ پتلی حکومت قائم کی، اور اس موقع پر انہوں نے ایک نمائشی اور جعلی انتخابات کا انعقاد بھی کرایا، یہ واقعہ سنہ ۱۳۴۱ ہجری قمری میں پیش آیا۔
برطانوی حمایت یافتہ حکومت کی جانب سے علمائے عراق کی جلاوطنی
اس انتخابات کا شیعہ علماء اور فقہاء کی جانب سے بائیکاٹ کیا گیا۔ اس وقت کے دو جلیل القدر اور بزرگ مرجع تقلید، آیت اللہ نائینی اور آیت اللہ اصفہانی نے مرحوم آیت اللہ خالصی کی تحریک کی حمایت کی، اس اقدام نے عوامی بغاوت کی راہ ہموار کردی، لہذا آیت اللہ اصفہانی، آیت اللہ نائینی، اور سید ہبۃ الدین شہرستانی کو ایران جلاوطن کر دیا گیا۔
علمائے نجف کی جلاوطنی کا ایران میں اثر
اس وقت حوزہ علمیہ قم کے قائم ہوئے ابھی ایک سال سے زیادہ کا عرصہ نہیں گزرا تھا اور یہ حوزہ علمیہ ابھی اپنے ابتدائی مراحل کو طے کررہا تھا۔ حوزہ علمیہ کے مؤسس عالی قدر حضرت آیت اللہ حائری، خود متعدد مشکلات کا سامنا کر رہے تھے تبھی نجف کے عظیم الشان مراجع عظام کی جلاوطنی کی خبر قم تک پہنچی۔ ایرانی عوام ان بزرگ علماء کا شاندار استقبال کرنے کے لئے نکل پڑی، اور ان کا تاریخی اور بے مثال استقبال کیا گیا۔
ان کے قم پہنچنے کے بعد، آیت اللہ حائری نے اپنا حوزہ علمیہ مرجع عالی قدر، اور حضرت آیت اللہ نائینی کے حوالے کردیا، اور انہوں نے قم کے جدید التاسیس حوزہ علمیہ کے طلاب اور افاضل کو اپنی علمی فیوض و برکات سے مستفید فرمایا۔
حضرت آیت اللہ اصفہانی کا استعمار کے خلاف تاریخی فتویٰ
ہجرت کے وقت، آپ نے ایک اعلامیہ جاری فرمایا، جس کو ہم ذیل میں پیش کر رہے ہیں۔ یہ اعلامیہ ملت اسلامیہ کے حقوق کی بحالی کے سلسلہ میں عظیم المرتبت مرجع تقلید کے خلوصِ نیّت اور پختہ ایمان کی نشاندہی کرتا ہے۔ ایک ایسا اعلامیہ جو آج بھی ملت اسلامیہ کے لئے نوید بخش اور محرّک بننے اور بیداری کی روح بھوکنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
حضرت آیت اللہ اصفہانی کے فتویٰ کی عبارت
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سلام ہو تمام لوگوں پر، خاص کر ہمارے عراقی بھائیوں پر۔
دینی فریضہ تمام مسلمانوں پر لازم کرتا ہے کہ وہ اسلامی سرزمینوں اور اسلامی ممالک کے تحفظ کے لیے حتی المقدور کوشش کریں، اور ہم سب پر واجب اور ضروری ہے کہ عراق کی سرزمین کو، جہاں ائمہ ہدیٰ علیہمالسلام کے مزارات اور ہمارے دینی مراکز واقع ہیں، کفار کے تسلط سے محفوظ رکھیں اور اس کے دینی مقدسات کی حفاطت کریں۔
میں آپ سب کو اس عمل کی دعوت دیتا ہوں اور اس کی طرف متوجہ کرتا ہوں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ کو اسلام اور مسلمین کی خدمت کی توفیق عطا فرمائے۔
ابوالحسن الموسوی الاصفهانی
اس عظیم الشأن فقیہ اور مرجع تقلید کی سیاسی و اجتماعی امور میں مداخلت اور سرگرمیوں کی دسیوں مثالوں میں سے دوسری مثال مسجد گوہرشاد کے سانحے کے خلاف آپ کا ردعمل ہے۔
رضاخان کے حکم پر مسجد گوہرشاد میں قتل عام
مسجد گوہرشاد کا المناک واقعہ، رضاخان پہلوی کے دور کے ان درجنوں اور سیکڑوں خونریز واقعات میں سے ایک ہے، جس میں مسلمانوں کو علمائے کرام کی حمایت میں کھڑے ہونے پر خون میں نہلا دیا گیا۔
اس دن لوگوں نے آیت اللّہ سید حسین قمی کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کے طور مظاہرہ کرنا شروع کردیا تھا۔
جب رضا شاہ کو اس کی اطلاع ملی کہ مشہد کے ہزاروں لوگ اسلام اور علماء کے مقاصد کی حمایت میں مسجد گوہرشاد میں جمع ہو گئے ہیں، تو اس نے حکم دیا کہ مسجد کے دروازوں اور چاروں طرف کی چھتوں سے تمام لوگوں پر گولیوں کی بوچھار کردی جائے، اور کسی بھی چھوٹے بڑے، بچے بوڑھے، مرد و عورت پر کوئی رحم نہ کیا جائے۔
تاریخ کے اس جلاّد حاکم کے اس حکم کو اس کے سنگدل کارندوں نے عملی جامہ پہنادیا، اور نہتے لوگوں کو اپنی گولیوں کا نشانہ بنایا۔ اور مرد و زن، علماء اور عام لوگ، زائرین اور مقامی لوگوں میں کئی ہزار افراد کو شہید ڈالا۔
اس وحشیانہ اور درندگی سے بھرے حملے کے بعد مسجد کے دروازوں کو کھولا گیا، زندہ بچ جانے والوں کو باہر نکالا گیا، اور شہیدوں کی لاشوں کو ٹرکوں میں بھر کر سب کو ایک خندق میں پھینک دیا گیا جو شہر سے باہر اسی مقصد کے لیے کھودی گئی تھی، پھر اس خندق کو مٹی سے بند کردیا گیا۔ آج بھی وہ مقام "قتلگاہ” کے نام سے مشہور ہے۔
اس واقعے کے بعد، ‘آیت اللہ سید حسین قمی’ کو شہر رے کے سراج الملک باغ میں قید کر دیا گیا اور ان سے ہر قسم کا رابطہ ممنوع قرار دیا گیا۔ ایک ماہ کے بعد، یعنی ربیع الثانی کے آخر میں، انہیں انکے بیٹے اور چند دیگر افراد کے ساتھ عراق کی جانب جلاوطن کردیا گیا۔
جس وقت آیت اللہ سید حسین قمی کربلا پہنچے، تو آیت اللہ سید ابوالحسن اصفہانی نے اپنے داماد جناب سید میرزا کو ایک خط کے ساتھ اپنی نمائندگی میں ان کی خدمت میں بھیجا۔ جناب سید میرزا نے کہا: "حضرت (آیت اللہ اصفہانی) نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں ان کی جانب سے آپ کی دست بوسی کروں۔”
مرجع عالم اسلام حضرت آیت اللہ اصفہانی کے اس عمل نے اپنا اثر دکھایا، اور اس طرح آپ نے آیت اللہ قمی کی دینی خدمات اور جدوجہد پر اپنی رضامندی کا اظہار کیا، اور رضا خانی حکومت کے ظالمانہ اقدامات پر اپنی ناراضگی اور غصے کا اعلان فرمایا۔
آپ کے شاگرد
حضرت آیت اللہ اصفہانی نے حوزۂ علمیہ نجف میں فقہ و اصول کے بہت سے مجتہدین اور محققین کی تربیت کی؛ منجملہ ان میں میرزا حسن بجنوردی، سید محمود حسینی شاہرودی، سید محسن حکیم، سید محمد ہادی میلانی اور سید محمد حسین طباطبائی جیسی ممتاز شخصیات کا نام لیا جا سکتا ہے۔
آپ کی تالیفات و تصنیفات
حضرت آیت اللہ اصفہانی کے باقی ماندہ علمی آثار کو پانچ گروہوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
سب سے پہلی اور اہم ترین قسم، آپ کے فقہی و اصولی دروس کی تقریرات کا ہے، جنہیں آپ کے متعدد شاگردوں نے قلمبند فرمایا ہے۔
آپ کی تقریرات کا ایک مکمل مجموعہ میرزا حسن سیادتی سبزواری نے سنہ ۱۳۳۸ سے ۱۳۴۵ ہجری کے درمیان کئی جلدوں میں تحریر کیا، اور آپ کی تقریرات کا دوسرا مجموعہ شیخ محمد رضا طبسی کے ذریعہ ترتیب دیا گیا ہے۔
ان میں سے، اصول فقہ سے متعلق آپ کی تقریرات کا حصہ، آپ کی علمی منزلت اور آخوند خراسانی سے طویل اور مسلسل علمی استفادے کی جانب اشارہ کر رہا ہے۔ اور شاید اس کی اہم ترین مثال "استصحاب” پر مشتمل آپ کے دروس ہیں، جنہیں آپ کے شاگرد شیخ محمد تقی آملی نے قلمبند کیا ہے۔
دوسری قسم: اپنے اساتذہ کے فقہی و اصولی دروس کی تقریرات کی تدوین ہے، جنہیں خود آپ نے تحریر و تالیف کیا۔
ان میں سب سے اہم وہ کتاب ہے جسے حضرت آیت اللہ اصفہانی کی سوانح نگاروں نے شرح کفایة الاصول آخوند خراسانی کے عنوان سے یاد کیا ہے، جس کے سلسلہ میں بیشتر گمان یہ ہے کہ وہ آخوند خراسانی کے اصول فقہ کے دروس کی تقریرات پر مشتمل ہوگی۔
تیسری قسم: حضرت آیت اللہ اصفہانی کی علمی تصانیف میں سے، ان کے رسالہ ہائے عملیہ اور فتووں پر مشتمل کتب ہیں، جن میں سب سے اہم کتاب وسیلۃ النجات کے عنوان سے ہے۔ یہ کتاب، سید محمد کاظم طباطبائی یزدی کی کتاب العروۃ الوثقیٰ کے طرز پر، طہارت سے لے کر وراثت تک فقہ کے ایک مکمل دورے پر مشتمل ہے۔
اس کتاب کا مکمل نسخہ سنہ۱۳۵۵ہ ق میں شائع ہوا، اور اس کی تلخیص شدہ نسخے، جو مقلدین کی روزمرہ زندگی میں درپیش ضروری مسائل پر مشتمل تھے، ۱۶ مرتبہ ۴۴ ہزار کی تعداد میں چھپ کر شائع ہوئے۔
وسیلۃ النجات فتووں کی ایک کتاب کے عنوان سے، بعد کے عظیم فقہاء کی توجہ کا مرکز قرار پائی، جس کی بہترین مثال حضرت امام خمینی کی ‘تحریر الوسیلۃ’ ہے۔
اس کتاب کا فارسی ترجمہ ابوالقاسم صفوی اصفہانی (۱۳۷۰ھ) نے ‘صراط النجاة’ کے عنوان سے انجام دیا، جو پہلی بار سنہ ۱۳۳۴ھ میں اور دوسری بار سنہ ۱۳۴۵ھ میں شائع ہوا۔
اسی طرح آپ کا فارسی زبان میں فقہی رسالہ عملیہ ذخیرۃ الصالحین کے نام سے آپ کی زندگی ہی میں تین مرتبہ شائع ہوا۔
آپ کا ایک اور رسالہ فارسی زبان میں مناسک حج کے عنوان سے سنہ ۱۳۴۲ھ نجف سے شائع ہوا، اور اسی طرح آپ کے فقہی رسالوں کا ایک خلاصہ "منتخب الرسائل” کے نام سے ۴۲ مرتبہ طبع ہو چکا ہے۔
چوتھی قسم: آپ کی تصنیفات میں سے، آپ کی دوسرے علماء کی تألیفات پر لکھے گئے حاشیے ہیں، جیسے "تبصرة المتعلمین” علاّمہ حلی پر آپ کا حاشیہ، جو نجف، ایران اور ہندوستان میں متعدد بار شائع ہو چکا ہے۔
اسی طرح سید محمد کاظم طباطبائی کی "العروۃ الوثقی” پر حاشیہ، صاحب جواہر کی "نجاة العباد” پر حاشیہ، فاضل شربیانی کی "ذخیرۃ العباد”، اور شیخ مرتضی انصاری کی "مناسک الحج” پر لکھے گئے آپ کے حاشیے بھی قابل ذکر ہیں۔
پانچویں قسم: آپ کی تصنیفات میں سے، آپ کے ان کے فتاویٰ کا مجموعہ ہے، جو خود آپ کے قلم سے نہیں، بلکہ دوسروں کے ذریعہ آپ کے فتاویٰ کی بنیاد پر مرتب کیا گیا ہے، جن میں سے بعض حسب ذیل ہیں:
۱) انیس المقلدین، جسے سید ابوالقاسم صفوی موسوی اصفہانی نے جمع کیا اور تالیف فرمایا ہے۔
۲) تحفۃ العوام، جو آپ کے فتاویٰ کا ایک انتخاب ہے، جسے خواجہ فیاض حسن ہندی نے اردو زبان میں مرتب کیا ہے۔
۳) عبادات کے احکام پر مشتمل ایک رسالہ جو ترکی زبان میں ہے، کہ جو عراق کے شہر کرکوک کے شیعوں میں رائج تھا، لیکن اس کی اشاعت کی تاریخ اور مقام کے بارے میں معلومات دستیاب نہیں ہیں۔
آپ کی وفات
حضرت آیت اللہ اصفہانی ایک مختصر علالت کے بعد، لبنان سے کاظمین واپسی کے دوران، منگل کی رات ۹/ ذیالحجہ سنہ۱۳۶۵ھ (بمطابق ۱۳ آبان ۱۳۲۵ شمسی) کو وفات پا گئے۔
آپ کے جسد مبارک کو کاظمین سے نجف لایا گیا، اور ایک بے مثال اور تاریخی تشییع جنازہ کے بعد روضہ مبارکہ امیر المومنین علی علیہ السلام کے صحن میں انکے شہید فرزند سید محمد حسن اور آیت اللہ آخوند خراسانی کی قبر کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا۔