رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مظلومانہ شہادت ۲۸ صفر سن ۱۱ ہجری کو مدینہ منورہ میں، ۶۳ برس کی عمر میں زہر کے ذریعے واقع ہوئی۔
اپنی انتھک قربانیوں کے ذریعے انسانیت کی تقدیر بدلنے والا اور انسانوں کے سامنے تہذیب و تمدن کے روشن اور درخشاں ابواب کھولنے والا خورشیدِ ہدایت اس دنیائے فانی سے رخصت ہو گیا۔
جب آپؐ نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی، تو آپؐ کی عمرِ مبارک باون (۵۲) سال، گیارہ (۱۱) ماہ اور تیرہ (۱۳) دن ہو چکی تھی، مدینہ میں آپؐ نے تقریباً دس سال قیام فرمایا، یہاں تک کہ ۲۸ صفر، سن ۱۱ ہجری کو آپؐ شہید کر دیے گئے۔
خادمہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا حضرت فضہ روایت کرتی ہیں کہ
لَمَّا قُبِضَ رَسُولُ اللَّهُ صلیاللهعلیهوآله افْتَجَعَ لَهُ الصَّغِیرُ وَ الْکبِیرُ وَ کثُرَ عَلَیهِ الْبُکاءُ وَ قَلَّ الْعَزَاءُ وَ عَظُمَ رُزْؤُهُ عَلَی الْأَقْرِبَاءِ وَ الْأَصْحَابِ وَ الْأَوْلِیاءِ وَ الْأَحْبَابِ وَ الْغُرَبَاءِ وَ الْأَنْسَابِ وَ لَمْ تَلْقَ إِلَّا کلَّ بَاک وَ بَاکیةٍ وَ نَادِبٍ وَ نَادِبَةٍ۔
رسول خدا کی رحلت پر ہر چھوٹے بڑے، قریب و دور والوں کے دل غم میں ڈوب گئے، مدینہ کے ہر گھر سے گریہ و زاری کی آوازیں آ رہی تھیں۔
وَ لَمْ یکنْ فِی أَهْلِ الْأَرْضِ وَ الْأَصْحَابِ وَ الْأَقْرِبَاءِ وَ الْأَحْبَابِ أَشَدَّ حُزْناً وَ أَعْظَمَ بُکاءً وَ انْتِحَاباً مِنْ مَوْلَاتِی فَاطِمَةَ الزَّهْرَاءِ سلاماللهعلیها
مگر اہل زمین میں ، اصحاب، اقرباء اور احباب میں سے حضرت فاطمہؑ سے زیادہ کوئی بھی غم زدہ اور نوحہ گر نہ تھا۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تجہیر و تکفین اور نماز جنازہ
حضرت علی علیہ السلام نے تنہا غسل و کفن دینے کے بعد آپ کی نماز جنازہ پڑھی۔
رسول اللہؐ کے جسد اطہر کو غسل و کفن دینے کے بعد حضرت علیؑ نے فرمایا کہ رسول خدا ہم سب کے امام ہیں، زندگی میں بھی اور وفات کے بعد بھی ،یہی وجہ تھی کہ نماز جنازہ جماعت سے نہیں بلکہ انفرادی طور پر ادا کی گئی۔
مؤمنین، مرد و زن، صحابہ، حتیٰ کہ بچے تک آتے، آیۃ شریفہ
﴿إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ﴾
تین بار پڑھتے، نماز جنازہ ادا کرتے اور باہر نکل جاتے۔ یہ سلسلہ منگل کے دن ظہر تک جاری رہا۔
تدفین میں تین دن کی تاخیر سیاسی پیغام؟
عائشہ کہتی ہیں
مَا عَلِمْنَا بِدَفْنِ رَسُولِ اللَّهِ صلیاللهعلیهوآله حَتَّی سَمِعْنَا صَوْتَ الْمَسَاحِی فِی جَوْفِ لَیلَةِ الْأَرْبِعَاءِ
ہمیں رسول خدا کے دفن ہونے کی خبر ہی نہ ہوئی، یہاں تک کہ بدھ کی شب ہم نے بیلچوں کی آواز سنی۔
اس تاخیر کی وجہ؟
ابن ابی الحدید معتزلی کہتے ہیں:
لِیثبِتَ عِندَ النَّاسِ أَنَّ الدُّنیا شَغَلَتهُم عَن نَبِیهِم ثَلَاثَةَ أَیامِ حَتَی أَمَرَهُ إلَی مَا تَرَون وَ قَد کانَ یتَطَلَّبُ الحَیلَةَ فِی تَهجِینَ أَمرِ أَبِی بَکرِ حَیثُ وَقَعَ فِی مَا وَقَعَ بِکلِّ طَرِیقِ وَ یتَعَلَّقُ بِأَدنَی سَبَبِ مِن أُمُورِ کانَ یعتَمِدُهَا۔
امیرالمؤمنینؑ نے تین دن تک تدفین مؤخر رکھی تاکہ امت کو دکھا دیں کہ اہل سقیفہ دنیا کی سیاست میں اس قدر مشغول تھے کہ تین دن تک رسول خدا کے جنازے کی فکر بھی نہ کر سکے!
یہ امیرالمؤمنینؑ کی سیاسی بصیرت کا مظہر تھا کہ وہ حکومت کے غیرشرعی غصب پر خاموش نہ رہے، بلکہ تدفین کو مؤخر کر کے انقلابِ فکری پیدا کیا۔
مکانِ دفن حجرہ حضرت فاطمہؑ
حضرت علیؑ نے فرمایا
جہاں اللہ نے اپنے نبی کی روح قبض کی، وہی اس کا مقام دفن ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت فاطمہ زہراؑ کے حجرہ میں دفن کیا گیا، جہاں آپ نے وفات پائی تھی۔
قبر کس نے تیار کی؟
ابو عبیدہ جراح اور زید بن سَہل نے پیغبر اکرمؐ کی قبر تیار کی اور امیرالمؤمنینؑ، فضل بن عباس اور عباس بن عبدالمطلب
قبر میں اترے، رسول اللہؐ کے چہرۂ انور کو کھولا، رخسارِ مبارک کو مٹی پر رکھا، قبر کو بند کیا اور خود خاک ڈال کر دفن مکمل کی۔
حوالہ جات
بحارالانوار، علامہ مجلسی، ج 43، ص 175
تاریخ الاسلام، ذہبی، ج 1، ص 582
شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید، ج 13، ص 37