سب سے زیادہ تلاش کیا گیا:

سقیفہ بنی ساعدہ؛ رسولؐ کی شہادت کے بعد پہلا سیاسی طوفان

سقیفہ بنی ساعدہ؛ رسولؐ کی شہادت کے بعد پہلا سیاسی طوفان

شہادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے فوراً بعد مدینہ میں سقیفہ بنی ساعدہ کے مقام پر خلافت کی جنگ چھڑ گئی۔ انصار و مہاجرین کے درمیان خلافت کے دعوے، ابوبکر کی بیعت، اور قبیلہ اسلم کے ذریعے زبردستی بیعت لینے کے پس منظر پر ایک تفصیلی تاریخی جائزہ۔

سقیفہ بنی ساعدہ مدینہ کا ایک بند اور چھت دار مقام تھا جہاں قبیلہ بنی ساعدہ مشاورت کے لیے جمع ہوا کرتا تھا۔ لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے فوراً بعد یہ مقام امتِ اسلامی کی پہلی بڑی آزمائش اور خلافت کے غصب کا مرکز بن گیا۔

تین گروہ، تین دعویدار، ایک موقع

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وصال کے بعد امت تین گروہوں میں تقسیم ہوئی:

1. اہلِ بیت اور اصحابِ وفا؛ جنہوں نے حضرت علی علیہ السلام کے گھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تجہیز و تکفین کی ذمہ داری سنبھالی۔

2. مہاجرین (ابوبکر بن ابی قحافہ کی قیادت میں): جنہوں نے مسجد میں اجتماع کیا۔

3. انصار (سعد بن عبادہ کی قیادت میں): جو سقیفہ بنی ساعدہ میں خلافت کے مسئلے پر مشورہ کے لیے جمع ہوئے۔

یہ تینوں مختلف افراد کو خلافت کے لیے موزوں سمجھتے تھے، اہل بیتؑ و خواص اصحاب، امام علیؑ کو خلیفہ برحق مانتے تھے، مہاجرین کا اصرار تھا کہ خلیفہ قریشی ہو کیونکہ رسولؐ بھی قریشی تھے، جبکہ انصار اپنے استحقاق پر زور دیتے تھے کہ انہوں نے اسلام کے ابتدائی دور میں رسولؐ کو پناہ دی۔

دو امیر؟ یا ایک نیام میں دو تلواریں ؟

جب معاملہ بگڑنے لگا تو ایک شخص نے مشورہ دیا کہ ایک امیر مہاجرین سے اور دوسرا انصار سے ہو، اس پر عمر نے کہا کہ دو تلواریں ایک نیام میں نہیں سما سکتیں!
یہاں عمر نے ابوبکر سے بیعت کی پیشکش کی اور ابوبکر نے ہاتھ بڑھایا، یوں پہلا ہاتھ ابوبکر کے ہاتھ پر پڑا، اور پھر ایک کے بعد ایک سب نے بیعت کی۔

سعد بن عبادہ جن کی قیادت میں انصار جمع تھے کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا، اور سب مسجد کی طرف بیعت کو پختہ کرنے روانہ ہو گئے۔

بیعت کی حقیقت؛ قبیلہ اسلم کی مداخلت اور بالجبربیعت

قبیلہ بنی اسلم وہ بدوی عرب قبیلہ تھا جو ہر سال مدینہ تجارت و غلہ کے لیے آتا تھا، ان کا انصار سے پرانا قبائلی اختلاف تھا، جب یہ مدینہ آئے تو سقیفہ کی بیعت ہو چکی تھی۔

شیخ مفید کے مطابق، عمر اور اس کے حامیوں نے قبیلہ اسلم کو ترغیب دلائی کہ ابوبکر کے لیے بیعت میں مدد کریں، بدلے میں تمہیں غلہ مفت دیں گے۔

قبیلہ اسلم نے پہلے خود بیعت کی اور پھر بیعت کے لیے زبردستی مہم شروع کی، بازار، گلی، کوچوں میں ہر اس شخص کو گھسیٹ کر لاتے جو بیعت سے گریزاں تھا۔

تاریخ طبری میں آیا ہے کہ قبیلہ اسلم کا ہجوم اتنا بڑا تھا کہ بازاروں میں جگہ تنگ پڑ گئی، عمر نے انہیں دیکھ کر کہا کہ اب مجھے یقین ہو گیا کہ ہم کامیاب ہو گئے!

تلوار کے زور پر بیعت

ابن ابی الحدید روایت کرتے ہیں کہ ابوبکر، عمر، ابوعبیدہ اور دیگر ایک گروہ کے ساتھ لاٹھیوں اور ہتھیاروں کے ساتھ نکلے، جسے بھی ملتے، مار کر اس کا ہاتھ ابوبکر کے ہاتھ پر رکھتے خواہ وہ چاہے یا نہ چاہے۔

ابوبکر کی بیعت نہ صرف غیراصولی بلکہ پُرتشدد اور سیاسی سازشوں سے بھرپور تھی، جس نے خلافتِ حقہ امیرالمؤمنین علیہ السلام کو دبا دیا اور امت کو تاریخ کے ایک بڑے فتنے میں مبتلا کر دیا۔

حوالہ جات:

کتاب سلیم بن قیس ہلالی، ص 144
الجمل، شیخ مفید، ص 43
تاریخ طبری، ج 2، ص 458
شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید، ج 1، ص 219

مزید مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے