عبدالحسین امینی المعروف بہ علامہ امینی، "الغدیر” نامی معروف کتاب کے مصنف، فقیہ، محدث، متکلم، مورخ، کتاب شناس اور چودھویں صدی ہجری کے عظیم شیعہ علماء میں سے ہیں۔
آقا میرزا احمد، جو کہ تبریز کے نامور علماء میں سے تھے، سن 1320 ہجری قمری مطابق 1281 ہجری شمسی میں صاحب اولاد ہوئے۔ چونکہ ان کو حضرت سید الشہداء علیہ السلام سے بے پناہ محبت تھی، انہوں نے اپنے اس بیٹے کا نام گرامی "عبدالحسین” رکھا۔
علامہ امینی کے والد محترم:
تبریز کے مشہور و معروف عالم دین، آقا میرزا احمد، سنہ ۱۲۸۷ ہجری قمری میں تبریز کے ایک گاؤں "سردہا” میں پیدا ہوئے۔
وہ سنہ ۱۳۰۳ ہجری میں مزید تعلیم کے لیے شہر تشریف لائے اور ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد، عالم بزرگوار مرحوم حاج میرزا اسداللہ کے درس میں حاضر ہوئے اور تعلیم کے میدان میں خود کو اس مقام تک پہونچایا کہ اس وقت کے عظیم مرجع، حضرت آیت اللہ میرزا علی آقا شیرازی اور ممتاز فقیہ حاج میرزا علی ایروانی نے ان کی علمی صلاحیتوں کی تصدیق فرمائی۔
بہر کیف، علم و عمل کے سبب ان کو نمایاں حیثیت حاصل تھی، اس طرح سے کہ ان کی شہرت ہر خاص و عام کی زبان پر تھی، یہی بات کافی تھی تاکہ عبدالحسین نے اپنی تعلیم کا آغاز اپنے اس با عمل عالم و فاضل والد ماجد سے کریں۔
انہوں نے فارسی و عربی ادب، منطق، فقہ، اصول اور حوزہ کے دوسرے مروجہ علوم کی تعلیم اپنے والد سے حاصل فرمائی۔ اور اس کے ساتھ ساتھ، انہوں نے حدیث اور عقائد سے متعلق متعدد کتابوں کو بھی اپنے والد سے پڑھا، اور ان سے علمی اور روحانی فیض حاصل کیا۔
علامہ امینی کے جدّ محترم:
ان کے دادا امین الشرع کے نام سے مشہور تھے، جن کا تعلق آذربائیجان سے تھا۔ وہ سنہ ۱۲۷۵ہجری میں پیدا ہوئے اور انہوں نے خود کو علم و ادب، تقویٰ اور پرہیزگاری سے آراستہ کیا۔
یہ بزرگوار ائمہ اطہار علیہم السلام کی تعلیمات اور آثار کو جمع کرنے کا خاص ذوق و شوق رکھتے تھے۔ اور چونکہ فارسی اور ترکی ادب پر گہری دسترس بھی رکھتے تھے، انہوں نے ان دونوں زبانوں میں متعدد قصیدے بھی کہے۔
اسی بنا پر عبدالحسین کا خاندان ان کے دادا کی شہرت کی نسبت سے "امینی” کے نام سے معروف ہوا، اور انہوں نے وہی راستہ اختیار کیا جو ان کے جد امجد نے اپنایا تھا۔ یعنی وہ بھی اپنے دادا کی طرح شریعت کے امین اور خالص محمدی اور علوی اسلامی اصول کے محافظ اور پابند قرار پائیں۔
علامہ کی تعلیمات اور اساتذہ:
لہذا علامہ امینی نے سنہ ۱۳۴۲ ہجری تک، تقریباً 22 سال اپنے والد ماجد کی خدمت میں رہ کر علم حاصل کیا اور ان کی صحبت اور تربیت کے زیر اثر علمی و عملی طور پر اسلام اور قرآن سے آشنا ہوئے۔
البتہ یہ نکتہ بھی قابل ذکر ہے کہ اس دوران انہوں نے دوسرے علمائے کرام کے سامنے بھی علمی، اخلاقی تعلیمات کے لئے زانوئے ادب تہ کیا۔ جیسے مصباح السالکین جیسی کتاب کے مصنف، حاج سید محمد المعروف بہ مولانا۔ صاحب کتاب "العطاء الحقیر فی معنی حدیث الغدیر” جناب سید مرتضی خسروشاہی۔ مصنف کتاب هدیــة االنــام جناب شیخ حسین جیسی عظیم شخصیات سے کسب فیض کیا۔
علامہ کے نجف تشریف لے جانے کا سبب:
حوزہ علمیہ نجف اشرف شیعوں کا قدیم ترین علمی مرکز ہے، جس کی تاریخ ہزار سال پر محیط ہے۔ تاریخی شواہد کے مطابق یہ حوزہ علمیہ شیخ الطائفہ جناب شیخ طوسی (رہ) کے زمانے سے ہی علم، تقویٰ اور فضیلت کا گہوارہ رہا ہے، اور بہت سے علمائے شیعہ نے اسی حوزہ سے تربیت پائی ہے۔
اور چونکہ حوزہ علمیہ نجف اشرف میں تعلیم حاصل کرنا ہر طالب علم کے لئے ایک بڑی تمنّا ہوا کرتی تھی، اس کے علاوہ، ایران کے نامساعد سیاسی حالات، پھر بغاوت اور اس کے بعد رضا خان کی حکومت کے آنے کی وجہ سے، جناب عبدالحسین نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اپنے علمی سفر کو جاری رکھنے کے لئے نجف اشرف کی طرف ہجرت فرمائیں اور اس حوزہ میں اپنی تعلیمی سرگرمیوں کو جاری رکھیں۔
آخرکار، انہوں نے والد محترم کو اپنے عزم و ارادے سے آگاہ فرمایا اور ان کی اجازت مل جانے کے بعد، سنہ ۱۳۴۲ ہجری میں نجف اشرف کا سفر کیا، تاکہ حضرت امیرالمومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام کی عنایتوں کے سائے میں آپ جیسی عظیم شخصیت کی بابرکت زندگی کا ایک نیا باب رقم ہو۔
لہذا وہ پورے ذوق و شوق اور بے پناہ محنت اور لگن کے ساتھ اسلامی تعلیمات کی تکمیل میں کوشاں ہوگئے۔ اس سلسلہ میں وہ آیت اللہ سید محمد فیروزآبادی اور آیت اللہ سید ابوتراب خوانساری جیسی عظیم شخصیتوں کے دروس میں حاضر ہوئے اور ان علماء کے فیوض و برکات سے بھرپور علمی استفادہ کیا۔
"الغدیر”، نصف صدی کی کاوشوں کا نتیجہ
بے شک علامہ امینی کی تمام تصانیف میں سے کوئی بھی ان کی مایہ ناز کتاب یعنی”الغدیر” کے درجہ کی نہیں ہوسکتی۔
مصنف نے اپنی بابرکت زندگی کے تقریباً ۵۰ برس اس جامع اور عظیم دائرة المعارف کی تالیف میں صرف کیے، جو مولی الموحدین حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام کی حقانیت کے اثبات پر مشتمل ہے۔ اور اس عظیم کام کے لیے انہوں نے بے پناہ زحمتیں برداشت کیں اور بہت سی مشکلوں کا سامنا کیا۔
علمی سفر اور "الغدیر” کی تالیف میں علامہ کی قربانیاں
علامہ امینی نے ایران، ہندوستان، شام اور ترکی جیسے ممالک کے متعدد علمی سفر کیے تاکہ واقعہ غدیر کے تمام مآخذ اور مصادر کا گہرائی سے جائزہ لے سکیں۔
انہوں نے قلم کو ہاتھ میں لیا اور لکھنا شروع کردیا اور تن تنہا تاریخ کو مسخ کرنے اور اس میں تحریف کرنے والوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنے سخت اور مضبوط قلم، نیز منطقی اور حقیقت پر مبنی تحریر کے ذریعے پردوں کو ہٹانا شروع کیا اور تاریخ کے تاریک گوشوں میں صدیوں سے چھپے ہوئے حقائق کو نمایاں کیا۔
انہوں نے ان سارے مراحل میں کلامی اور اعتقادی مباحث میں علمی دیانتداری اور انصاف کا مکمل طور پر خیال رکھا۔
یہاں تک کہ استاد محمد عبدالغنی حسن مصری نے "الغدیر” پر اپنی تقریظ میں علامہ امینی کو ایسا محقق قرار دیا ہے، جو اگرچہ امیرالمومنین علی علیہ السلام اور ان کے شیعوں سے گہرا تعلق اور بے پناہ محبت رکھتے ہیں، پھر بھی انہوں نے علمی مباحث میں امانتداری اور غیر جانب داری کو اپنے جذبات و احساسات پر بہت زیادہ ترجیح دی ہے۔
یہی وہ خاصیت تھی جس کے باعث، آج جبکہ "الغدیر” کی تالیف کے پچاس برس سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے، لیکن پورے اطمینان سے کہا جاسکتا ہے کہ شیعہ اور سنی علماء اور محققین "الغدیر” کے نام اور علامہ امینی کی علمی کاوشوں اور گہرے اور جذبات سے لبریز مضامین سے بخوبی واقف ہیں۔
الغدیر: شیعہ و سنی دنیا کے درمیان پل:
لیکن اس دوران ابھی تلک، "الغدیر” کے خلاف کوئی ایک صفحہ کا رد یا کوئی تنقیدی مضمون نہ لکھ سکا جو توجہ کے قابل ہو اور اسے سنجیدگی سے لیا جا سکے۔ یہ بات خود اس کتاب کے اپنے آپ میں مضبوط اور مستحکم ہونے کی واضح دلیل ہے کہ مخالفین بھی اس پر کوئی قابلِ اعتراض بحث پیش کرنے سے عاجز رہے۔
مصری مستبصر ادیب و شاعر، ڈاکٹر صاح الصاوی کہتے ہیں:
"ہم کتاب الغدیر کو ایک ایسے پل کے عنوان سے سمجھ سکتے ہیں، جسے علامہ امینی نے عالم تشیع اور تسنن کے درمیان قائم کیا ہے۔ البتہ یہ کام بہت آسانی سے انجام نہیں پایا ہے۔”
حریمِ تشیع کے محافظ کی رحلت
بے انتہا سعی اور کوشش نے، مدینۂ الغدیر کے معمار کو جسمانی ضعف سے دوچار کر دیا اور وہ بیماری میں مبتلا ہو گئے۔
ان کے مرض میں رفتہ رفتہ اضافہ ہوتا رہا اور اس نے انہیں ان کے کام سے روک دیا۔
علامہ کی بیماری اور بستر علالت پر رہنے کا سلسلہ تقریباً دو سال تک جاری رہا، اور بیرون ملک علاج بھی کارگر ثابت نہ ہو سکا۔
اور آخرکار، اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی، اور عاشقان ولایت کا ایک پروانہ، راہ حق کا مجاہد، جمعہ کے روز 3 جولائی ۱۸۷۰ عیسوی، کو دوپہر کے وقت، اپنے خالقِ حقیقی کے حضور جا پہنچا۔
دوسرے دن کی صبح، تہران میں خاندان عصمت و طہارت علیہم السلام کے بے شمار عقیدت مندوں کی موجودگی میں ان کے جنازہ کو بڑی شان و شوکت کے ساتھ اٹھایا گیا۔ اور چند روز بعد، ان کے جسم اطہر کو نجف اشرف لے جایا گیا، جہاں ایک بے مثال تشییع جنازہ اور حرم مطہر کے طواف کے بعد، ان کی اپنی وصیت کے مطابق، اسی عوامی کتب خانے میں دفن کیا گیا جس کے بانی وہ خود تھے۔
حرم مقدس امیرالمومنین علیہ السلام کی خصوصی اشاعت "خم خانہ” سے ماخوذ