سب سے زیادہ تلاش کیا گیا:

امیرالمؤمنین علیہ السلام کی قبر مبارک پر صندوق اور ضریح کی ساخت و نصب کا تاریخی پس منظر

امیرالمؤمنین علیہ السلام کی قبر مبارک پر صندوق اور ضریح کی ساخت اور نصب کرنے کا تاریخی پس منظر

صفوی بادشاہ شاہ اسماعیل نے حضرت علی علیہ السلام، کاظمین اور سامراء میں موجود دیگر ائمہ علیہم السلام کی ضریحوں کے لیے نئے صندوق بنانے کا حکم دیا تاکہ پرانے صندوقوں کی جگہ وہ نصب کیے جا سکیں۔
سنہ ۱۱۲۶ ہجری میں بغداد کے والی حسن پاشا کے دور میں حضرت علی علیہ السلام کے صندوق کی تجدید اور تعمیر نو کی گئی۔ اس کی تاریخ کو ان الفاظ سے یاد کیا جاتا ہے:
وہ شیر (اسد) جس نے اپنے جنگل کو دوبارہ آباد کیا۔
یہ کام شیخ جواد بن حاج عبدالرضا بغدادی کے ہاتھوں انجام پایا، جو ۱۱۲۸ ہجری اس دنیا سے کوچ کر گئے۔
حضرت کا نقش و نگار سے آراستہ یہ صندوق واقعی ایک بے نظیر تحفہ تھا، اس پر مختلف عربی الفاظ کندہ کیے گئے تھے اور یہ ہندوستانی ساگوان کی لکڑی سے بنایا گیا تھا۔
اس میں صدف (سیپ)، ہاتھی دانت، آبنوس (کالی لکڑی) اور دیگر رنگین اقسام کی لکڑیاں استعمال کی گئی تھیں۔

صندوق کے اوپر سورہ ’’هل أتی‘‘ کندہ تھا، جس کی ۳۱ آیات ہیں۔
یہ سورہ جنوبی جانب مکمل طور پر کندہ تھا اور تحریر کے لیے سفید ہاتھی کے دانت کا استعمال کیا گیا تھا، جسے سونے اور چاندی سے منبت کیا گیا تھا۔
جنوبی جانب مزید چار تختیاں تھیں:
1. پہلی تختی پر سورہ "هل أتی” کا باقی حصہ لکھا ہوا تھا
2. دوسری پر سورہ "سبّح اسم ربک الأعلی” لکھا تھا
3. دروازے پر، جو "الاصبعتین” (دو انگلیوں) کے نام سے معروف ہے، یہ آیت کندہ تھی:
إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ
(بیشک جو لوگ آپ کی بیعت کرتے ہیں وہ درحقیقت اللہ کی بیعت کرتے ہیں اور ان کے ہاتھوں کے اوپر اللہ کا ہاتھ ہے )
صندوق کی مشرقی سمت کے بالائی حصے پر سورہ نبأ اور نچلی جانب سورہ عادیات کندہ تھا۔
شمالی جانب بھی چار تختیاں تھیں جن پر سورہ ملک کندہ تھا۔
حضرت علیؑ کے سر مبارک کی جانب بالائی حصے میں پیغمبر اسلام صلیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم کا خطبۂ وداع (خطبۂ غدیر خم) اور نیچے یہ حدیث درج تھی:
"یا علی! آپ میرے بھائی ہیں”
صندوق کے مغربی کنارے پر، آخری چوتھی سمت میں، اس کے بنانے والے کا نام کندہ تھا:
اس عظیم صندوق کو خالص نیت سے، خدا کی رضا اور اولیائے خدا کی محبت میں مکمل کیا،میں، امیرالمؤمنین علی بن ابی طالبؑ کے در کے کتے کی مانند، محمد جعفر بن صادق الزند،جس پر خدا کی نظر کرم ہو، نے سال ۱۲۰۲ ہجری میں یہ کام مکمل کیا۔
نیچے مزید لکھا تھا: یہ کام خاکسار محمد حسین نجار شیرازی کا ہے۔
یہ کلمات حضرتؑ کے سر مبارک کی جانب کندہ تھے۔

اس کے علاوہ، صندوق پر یہ بھی لکھا تھا:
محمد بن علاء الدین محمد حسینی نے سال ۱۱۹۸ ہجری میں یہ تحریر کیا۔
شیخ محمد الکوفی نے ذکر کیا ہے کہ صندوق پر کندہ تاریخ ۱۲۰۳ ہجری ہے، ان کے مطابق، یہی سال تھا جب حضرت علیؑ کی قبر مبارک پر یہ نیا صندوق رکھا گیا،شیخ محمد کُبہ نے یہ صندوق سال ۱۲۰۴ ہجری میں ضریح پر نصب کیا۔
یہ تمام تواریخ، حضرت علیؑ کے صندوق کی تجدید، تعمیرنو، اور فنکارانہ اضافوں کی تفصیل فراہم کرتی ہیں۔
یہ تمام کندہ عبارتیں، روشن الفاظ میں، نقش و نگار سے آراستہ، اور خطِ کوفی میں تھیں۔
استاد علی خاقانی بیان کرتے ہیں:
جب چاندی کا پرانا صندوق ہٹایا گیا اور موجودہ صندوق رکھا گیا، تو میں نے اس خاتم کاری والے صندوق کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اسے مس کیا،یہ مبالغہ نہیں اگر یہ کہوں کہ جس نے یہ صندوق دیکھ لیا، اسے یہ اتنا خوبصورت، قیمتی لگے گا کہ وہ زندگی میں کسی اور قیمتی چیز کے دیدار کی خواہش نہیں رکھے گا۔

اس صندوق کا سائز کچھ یوں ہے:
لمبائی: ۱۶ فٹ ۳ سینٹی میٹر
چوڑائی: ۱۰ فٹ ۳ سینٹی میٹر
اونچائی: ۶ فٹ ۳ سینٹی میٹر
صندوق کو ایک موٹے شفاف شیشے سے ڈھانپا گیا تاکہ زائرین اسے بآسانی دیکھ بھی سکیں اس کی مناسب حفاظت بھی ہو سکے، اس خوبصورتی اور شکوہ نے اس کی جلالت میں چار چاند لگا دیے تھے۔
یہ صندوق غالباً اس صندوق کی جگہ پر نصب کیا گیا جس کی بصرہ کے والی حسن پاشا نے ۱۱۲۶ ہجری میں تعمیرنو کروائی تھی ۔
شیخ جعفر محبوبہ نے ذکر کیا ہے کہ ناصرالدین شاہ قاجار نے ۱۲۸۷ ہجری میں نادر شاہ کے زمانے کے صندوق پر نیا صندوق نصب کروایا تھا۔
ذرائع کے مطابق خاتم کاری والے صندوق پر شیشے کا حفاظتی غلاف سال ۱۳۶۱ ہجری میں نصب کیا گیا اور نجف کے شعرا نے اس صندوق کی فنکارانہ عظمت اور روحانی قیمت کو بہترین اشعار میں بیان کیا ۔

مزید مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے