امامِ علی نقی علیہالسلام سے منقول امیرالمؤمنین علیہالسلام کے یہ پانچ فرامین انسان کی فکری تربیت، اخلاقی اصلاح اور عملی زندگی کی درست سمت کو متعین کرتے ہیں۔ یہ کلمات نہ پیچیدہ ہیں اور نہ مبہم، بلکہ نہایت واضح انداز میں انسان کو خواہش، مقصد، علم، نفس اور یقین کے درست مفہوم سے آشنا کرتے ہیں۔
امامِ علی نقی علیہالسلام امیرالمؤمنین علیہالسلام سے نقل کرتے ہیں کہ آرزوؤں میں حد سے بڑھ جانا فاجروں کا سرمایہ ہے، کیوں کہ بے قابو تمنائیں انسان کو حقیقت سے دور کر دیتی ہیں اور وہ عمل اور ذمہ داری سے غافل ہو جاتا ہے۔ اس لیے آرزوؤں سے پرہیز کرنے کو اخلاقی زندگی کی بنیاد قرار دیا گیا ہے۔[1]
اسی طرح آخرت کو مقصد بنانے کا نتیجہ یہ بتایا گیا ہے کہ انسان مال کے بغیر بھی بے نیاز ہو جاتا ہے، اہل و عیال کے بغیر بھی مانوس رہتا ہے، اور قبیلے کے بغیر بھی عزت پاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا سہارا دنیوی وسائل نہیں بلکہ آخرت پر یقین و عقیدہ ہے۔[2]
علم اور ادب کے بارے میں فرمایا گیا کہ علم سب سے شریف میراث ہے، آداب انسان کی بہترین زینت ہیں، فکر صاف آئینے کی طرح حقیقت دکھاتی ہے، اور عبرت انسان کو بیدار کرنے والی خیرخواہ نصیحت ہے۔ مزید یہ کہ انسان کے لیے اتنا ہی ادب کافی ہے کہ وہ اس کام کو ترک کر دے جو وہ دوسروں سے اپنے لیے پسند نہیں کرتا۔[3]
امامِ علی نقی علیہالسلام امیرالمؤمنین علیہالسلام سے یہ بھی نقل کرتے ہیں کہ خودپسندی انسان کو ہلاکت تک پہنچا دیتی ہے، کیوں کہ عُجب انسان کو اپنی کمزوریوں سے غافل کر دیتا ہے۔[4] اس کے مقابلے میں یقین کو سخاوت کا سرچشمہ قرار دیا گیا ہے؛ جسے معاوضہ ملنے کا یقین ہو وہ عطا کرتے وقت وسعتِ دل سے عطا کرتا ہے۔[5]
یہ فرامین، جو امامِ علی نقی علیہالسلام کے ذریعے امیرالمؤمنین علیہالسلام سے ہم تک پہنچے، ایک متوازن اور واضح اخلاقی نظام پیش کرتے ہیں جو انسان کو دنیا میں درست طرزِ زندگی اور آخرت کی تیاری دونوں کی راہ دکھاتا ہے۔
[1] ۔ أعلام الدین، دیلمی، جلد1، ص210
[2] ۔ الأمالي، شیخ طوسی، جلد 1، ص580
[3] ۔ الأمالي، شیخ مفید، جلد 1، ص336
[4] ۔ وسائل الشیعة، شیخ حر عاملی، جلد 1، ص104
[5] ۔ وسائل الشیعة، شیخ حر عاملی، جلد 16، ص288
