سب سے زیادہ تلاش کیا گیا:

حضرتِ ام‌البنین سلامُ‌اللہ‌علیہا؛ ادب، ولایت اور صبر کا درخشاں نمونہ

حضرتِ ام‌البنین سلامُ‌اللہ‌علیہا؛ ادب، ولایت اور صبر کا درخشاں نمونہ

حضرتِ امّ البنین سلامُ‌اللہ‌علیہا، حضرت عباس علیہ‌السلام کی والدۂ ماجدہ، تاریخِ اسلام کی ان عظیم اور بافضیلت خواتین میں شامل ہیں جن کی حیاتِ طیبہ ولایت اور امامت کی محبت سے سرشار رہی، یہ پاکیزہ اور زمانہ شناس خاتون حریمِ حسینی کی پاسدار اور شہیدانِ کربلا کے لیے عزادارى برپا کرنے والی تھیں، اعلیٰ اخلاق، انسانی کمالات، قوی ایمان، صبر، اور بصیرت جیسی خصوصیات آپ کو امامت کے گھر میں ایک شایانِ شان اور باعظمت مقام عطا کرتی ہیں۔

حضرتِ امّ البنین سلامُ‌اللہ‌علیہا، حضرت عباس علیہ‌السلام کی والدۂ ماجدہ، تاریخِ اسلام کی ان عظیم اور بافضیلت خواتین میں شامل ہیں جن کی حیاتِ طیبہ ولایت اور امامت کی محبت سے سرشار رہی، یہ پاکیزہ اور زمانہ شناس خاتون حریمِ حسینی کی پاسدار اور شہیدانِ کربلا کے لیے عزادارى برپا کرنے والی تھیں، اعلیٰ اخلاق، انسانی کمالات، قوی ایمان، صبر، اور بصیرت جیسی خصوصیات آپ کو امامت کے گھر میں ایک شایانِ شان اور باعظمت مقام عطا کرتی ہیں۔

آپ نے اہلِ بیت علیہم‌السلام کے مقام و منزلت کی معرفت رکھتے ہوئے ایسے فرزندوں کی تربیت کی، جن میں حضرتِ ابوالفضل عباس علیہ‌السلام نمایاں ہیں، جنھوں نے اپنی حیاتِ مبارکہ کی آخری سانس تک ولایت سے وفاداری اور وابستگی کا حق ادا کیا، حضرتِ ام البنین سلامُ‌اللہ‌علیہا خواتین کے درمیان شمعِ ولایت کی پروانہ تھیں؛ ایک ایسی ممتاز بی بی جو عرب کی عورتوں میں اخلاقی، روحانی اور علمی  فضائل کے اعتبار سے معروف و مشہور تھیں، کئی مصنفین نے آپ کی عظمت، فضل و کمال، اور شخصیت پر خامہ فرسائی کی ہے۔

ادب، ولایت اور شجاعت کی تفسیر

آپ ایک ادب پرور خاندان سے تعلق رکھتی تھیں اور معلمِ ادب امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ نے اپنے ادب کو الٰہی سانچے میں ڈھال لیا، آپ کے ادب کا سب سے بڑا جلوہ امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کے اہلخانے کے سامنے نظر آتا ہے، جہاں آپ خود کو اولادِ فاطمہ سلام‌اللہ‌علیہا کی خادمہ سمجھا کرتی تھیں۔[1]

حضرتِ ام‌البنین علیہا‌السلام کی ولایت پذیری واقعۂ کربلا اور آپ کے بیٹوں کی شہادت کے بعد اوج پر دکھائی دیتی ہے، جب آپ نے کوئی شکوہ نہ کیا اور تمام بیٹوں کو اپنے امام، حسین ابن علی علیہماالسلام کا جانثار سمجھا۔[2]

یہ شیر دل خاتون حد درجہ شجاعت کی مالک تھیں، اور آپ کے فرزندوں نے بہادری و شہامت آپ ہی سے سیکھی، واقعۂ کربلا کے بعد، اُس سیاسی گھٹن کے ماحول میں بھی، آپ حضرتِ عباس علیہ‌السلام کے کمسن بیٹے کے ساتھ بقیع میں عزاداری برپا کرتیں، جس کی وجہ سے ارد گرد لوگ جمع ہو کر نالہ و فغاں کرتے۔[3]

عظیم صبر کی مالکہ اور تحریکِ کربلا کی پاسداری

اپنے چار بیٹوں کی خبرِ شہادت سن کر بھی آپ کا وہ معروف جملہ آپ کے مقامِ صبر و تحمل کو واضح بیان کرتا ہے، کہ بشیر کے خبر سنانے پر بھی آپ نے صرف امامِ حسین علیہ‌السلام کی خیریت دریافت کی۔[4]

آپ ایک بہترین سخنور اور شاعرہ تھیں، اور آپ نے سوگواری و مرثیہ خوانی کے ذریعے تحریکِ کربلا کو زندہ رکھا، یہ کام احساسات کے علاوہ یزید کے خلاف ایک دینی اور اجتماعی اقدام کی حیثیت رکھتا تھا۔[5]

نتیجہ

حضرتِ ام‌البنین سلامُ‌اللہ‌علیہا ان روایات اور تاریخی کتب میں ایک ایسی باوقار، باادب، ولایت‌ شناس اور صبر و شجاعت کی پیکر خاتون کے طور پر سامنے آتی ہیں جنھوں نے اپنی حیات کے ہر مرحلے میں خاندانِ امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی خدمت، محبت، اور وفاداری کو محورِ حیات بنایا۔

[1] ۔ معالی‌السبطین، جلد1، ص443
[2] ۔ ام‌البنین سیدۀ نساءالعرب، ص 50
[3] تاریخ طبری، جلد 6 ، ص296
[4] ۔ اعلام النساء، جلد 4، ص 243
[5] ۔ اعلام‌النساء، جلد 4، ص 40

مزید مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے