مقامِ نبوت و ولایت عظیم آزمائشوں اور امتحانات سے بھرا ہوا ہوتا ہے،معراج کی یہ حدیث ہمیں بتاتی ہے کہ رسولِ خدا صلیاللہعلیہوآلہ اور ان کے اہلِ بیت علیہمالسلام کو کن مشکلات سے گزرنا پڑا، پروردگارِ عالم نے آپ صلیاللہعلیہوآلہ کو عظیم ذمہ داریوں کے ساتھ، صبر کے دشوار مراحل سے بھی آگاہ فرمایا۔
کتاب "کامل الزیارات” میں، امامِ جعفر صادق علیہالسلام سے ایک روایت ہے جس میں خداوندِ عالم کا ارشادِ گرامی نقل ہوا ہے۔ فرمایا گیا کہ آپ صلیاللہعلیہوآلہ کو تین سخت امتحانات سے گزارا جائے گا، تاکہ آپ کا صبر ظاہر ہو۔
پہلا امتحان، فقر اور بھوک کا تھا۔ ارشاد ہوا کہ آپؐ اور آپ کے اہلِ بیت علیہمالسلام کو تنگدستی کا سامنا ہوگا، رسولِ اکرم صلیاللہعلیہوآلہ نے عرض کیا: ’’پروردگار! میں نے قبول کیا، میں راضی ہوں، اور تجھ ہی سے صبر و توفیق کا طلبگار ہوں۔‘‘
دوسرا امتحان، تکذیب، خوف اور قتال (جنگ) کا تھا،آپ کو اپنی ہی قوم کی جانب سے جھٹلایا جائے گا، منافقین کی اذیتوں کا سامنا ہوگا، اور میدانِ جنگ کی سختیاں برداشت کرنا ہوں گی،آپ صلیاللہعلیہوآلہ نے فرمایا: ’’پروردگار! میں نے قبول کیا، اور تجھ ہی سے مدد چاہتا ہوں۔‘‘
تیسرا اور سب سے دشوار امتحان، آپ صلیاللہعلیہوآلہ کے بعد، آپ کے اہلِ بیت علیہمالسلام پر ڈھائے جانے والے مصائب تھے، ارشاد ہوا کہ آپ کے وصی، امیرالمؤمنین علیہالسلام پر یہ امت ظلم کرے گی، ان سے بغض رکھا جائے گا اور آخرکار انہیں شہید کر دیا جائے گا،رسولِ خدا صلیاللہعلیہوآلہ نے عرض کیا: ’’میں نے قبول کیا اور تسلیم کیا۔‘‘
پھر آپ کی شہزادی، فاطمہ سلاماللہعلیہا کے مصائب بیان ہوئے، اُن پر ظلم ہوگا، ان کا حق غصب کیا جائے گا، ان کے گھر کی بے حرمتی ہوگی، اور وہ انہیں زخموں کی وجہ سے دنیا سے رخصت ہو جائیں گی، یہ سن کر، آنحضرت صلیاللہعلیہوآلہ نے فرمایا: ’’إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّا إِلَیهِ رَاجِعُونَ، میں نے قبول کیا، اور تجھ سے صبر کو طلب کرتا ہوں۔‘‘
یہ حدیثِ معراج[1] اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نبوت اور ولایت کا راستہ امتحانات سے بھرا ہے،صبر، اور رضائے الٰہی ہی وہ صفات ہیں جن سے خدا کے مقرب بندے پہچانے جاتے ہیں،انبیاء اور اوصیاء علیہمالسلام کا راستہ، قربانیوں سے بھرا ہوا ہے، تاکہ انسانیت کے لیے ہدایت کا چراغ ہمیشہ روشن رہے۔
[1] ۔ کامل الزیارات، جلد 1، ص 332
