سب سے زیادہ تلاش کیا گیا:

جنگِ جمل؛ امتِ اسلامی کی پہلی داخلی آزمائش

جنگِ جمل؛ امتِ اسلامی کا پہلا اندرونی امتحان

سال چھتیس ہجری میں امتِ اسلامی ایک اہم اندرونی امتحان سے گزری، جسے جنگِ جمل کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

سال چھتیس ہجری میں امتِ اسلامی ایک اہم اندرونی امتحان سے گزری، جسے جنگِ جمل کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب علیه‌السلام سے بیعت کرنے کے بعد طلحہ بن عبیداللّه، زبیر بن عوام اور عائشہ بنت ابی بکر نے عثمان کے قتل کا بہانہ بنا کر بغاوت کی اور ناکثین کی تحریک کو جنم دیا۔ جب خلیفۂ سوم عثمان بن عفان کے قتل کے بعد عوام نے اصرار کے ساتھ امیرالمؤمنین علیہ‌السلام سے بیعت کی، تو آپؑ نے فرمایا:

    "دَعُونِي وَ الْتَمِسُوا غَيْرِي، فَإِنَّا نَسْتَقْبِلُ أَمْرًا لَهُ وُجُوهٌ وَ أَلْوَانٌ…”

مجھے چھوڑ دو اور کسی دوسرے کو تلاش کرو، کیوں کہ ہم ایک ایسے معاملے کے سامنے ہیں جس کے کئی رخ اور کئی رنگ ہیں…

ناکثین کی بغاوت

اس بصیرت افروز انتباہ کے باوجود، طلحہ بن عبیداللّه اور زبیر بن عوام نے عائشہ بنت ابی بکر کے ہمراہ عثمان بن عفان کے قصاص کا بہانہ بنا کر بیعت کو توڑا اور ناکثین (پیمان توڑنے والے) کی تحریک کو جنم دیا، یہ دونوں نے عمرے کے بہانے سے مدینے سے نکلے اور عائشہ کے ساتھ ملاقات کے بعد اس تحریک کو مضبوط کیا۔

مقامِ معرکہ اور قیادت

بصرہ کے قریب واقع خریبہ کے نزدیک جگہ میدان جنگ قرار پائی؛ یہ ایک اسٹریٹجک علاقہ تھا جہاں فوجی صف بندی اور گھوڑ سواروں کا دوڑنا ممکن تھا۔ بصرہ اور کوفہ کے قریبی راستے نے امیرالمؤمنین علیه‌السلام کو امدادی فوج لانے میں سہولت دی، جب کہ دشمن نے مقامی قبائل کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی،آپ علیه‌السلام کے لشکر میں اہلِ بیت علیهم‌السلام جیسے امام حسن علیه‌السلام و امام حسین علیه‌السلام ، بنی ہاشم کے جوان (محمد حنفیہ و عبداللہ بن جعفر و اولادِ عقیل وغیرہ)، اصحابِ بدر اور وفادار صحابہ جیسے عمارِ یاسر اور ابو ایوب انصاری شامل تھے۔

دوسری طرف ناکثین کی قیادت طلحہ اور زبیر کی علامتی سرپرستی میں تھی، جب کہ اصلی سربرستی اور رہنمائی عائشہ کے ہاتھ میں تھی، ان کی کثیر تعداد کے باوجود داخلی اختلافات ان کے نقصان کا باعث بنے۔

نتائج اور شہادت

امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی منظم کارروائی اور حکمت سے فتح حاصل ہوئی، جس نے آپ علیه‌السلام کی قیادت اور اصولِ عدل و انصاف کی اہمیت کو اجاگر کیا،اس جنگ کے نتیجے میں اسلامی خلافت مستحکم ہوئی مگر عظیم جانی نقصان بھی ہوا؛امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کے لشکر کے شہدا کی تعداد چار سو سے لے کر پانچ ہزار اور ناکثین کے مقتولین کی تعداد چھ ہزار سے لے کر پچیس ہزار کے درمیان بیان کی جاتی ہے، جن میں طلحہ اور زبیر بھی شامل ہیں۔

حوالہ جات: (نہج البلاغہ، خطبہ 92)، (فیض العلام، ص239)، (بحار الانوار، ج32، ص174 و ص183 و ص196 و ص211)

مزید مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے