حضرتِ زینبِ کبریٰ سلاماللہعلیہا اس عظیم المرتبت ہستی کا نام ہے جنھوں نے تاریخِ کربلا کے اوراق پر صبر و شجاعت کی ایک بے مثال داستان رقم فرمائی۔
آپ سلاماللہعلیہا کی سیرت، فکر و تدبر اور علم و عمل کا وہ آئینہ ہے جو حق و باطل کے ہر معرکے میں اہلِ ایمان کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ آپ کی شخصیت ولایتِ الٰہیہ کی سچی تصویر اور امیرالمؤمنین علیہالسلام کی تربیت کا جلوہ تھی، جس کی گواہی آپ کے جلالت بھرے خطبات دیتے ہیں۔
کربلا سے شام اور پھر مدینہ تک کے غم انگیز سفر میں، جب ہر سو دل دہلا دینے والے مناظر تھے، آپ سلاماللہعلیہا نے خاندانِ رسول صلیاللهعلیہوآلہ کے معصوم بچوں، اپنے امام (یعنی امام سجاد علیہالسلام)، اور اسیرانِ کربلا کی بہترین نگہبان اور کفیل بن کر حفاظت فرمائی،مصائب کے طوفان میں بھی آپ سلاماللہعلیہا نے اپنے حکیمانہ اقدامات سے دشمن کی ہر سازش کو خاک میں ملا دیا۔
حکیمانہ اقدام، شجاعت اور علمبردارِ ولایت
آپ سلاماللہعلیہا نے ابنِ زیاد جیسے جابر و ظالم حکمران کے سامنے شجاعتِ حیدری کا مظاہرہ کیا، اور اپنی الہی شجاعت سے ایوانِ ظالم کو لرزا دیا۔ (لہوف، ارشاد) آپ کے خطبات نہ صرف ظلم کے پردے چاک کرنے والے تھے بلکہ انھوں نے امامت و حقانیت کے پیغام کو کوفہ و شام کے ہر گلی کوچے میں پھیلا دیا،اسی بنا پر آپ کو حق و ہدایت کی علمبردار کہا جاتا ہے۔
واقعۂ عاشورا اور اس میں حضرتِ زینب سلاماللہعلیہا کا کردار، آپ کے مقام و مرتبے کو اسلام کی تاریخ میں ہمیشہ کے لیے روشن کر گیا،جب آپ نے اپنے بھائی امامِ حسین علیہالسلام کی شہادت دیکھی تو آپ پر غم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے، مگر آپ عاشورا کے مقاصد اور امام علیهالسلام کے پیغام کی حفاظت پر قائم رہیں،یوم عاشورا کے بعد حضرتِ زینب سلاماللہعلیہا امامِ حسین علیہالسلام کے خاندان کی سرپرست اور محافظ کی حیثیت سے دشمن کے ظلم و ستم کے سامنے ڈٹ گئیں، قید کے دور میں بھی آپ نے اپنا فریضہ انجام دیا۔
نتیجہ
شام میں اپنے خطبے میں حضرتِ زینب سلاماللہعلیہا نے نہ صرف عاشورا کا پیغام پہنچایا بلکہ نہایت شجاعت اور بصیرت کے ساتھ اہلِ بیت علیہمالسلام کا مقام یاد دلایا۔ آپ نے لوگوں کو متوجہ کیا کہ ظلم کے سامنے خاموشی اختیار نہ کریں اور ہمیشہ ولایتِ امیرالمؤمنین علیهالسلام کے دفاع میں ثابت قدم رہیں، یہ خطبات ایک فکری اور عملی میراث ہیں جو استقامت کا درس دیتے ہیں۔
تاریخِ کربلا کے منابع و مقاتل سے مأخوذ

