نہجِ البلاغہ کے خطبہ نمبر 27، جو خطبۂ جہاد کے نام سے بھی مشہور ہے، میں امیرالمؤمنین علیہالسلام نے راہِ خدا میں جہاد کی اہمیت کو بیان فرمایا ہے اور اہلِ کوفہ کی سستی، بےحسی اور دشمن کے حملے کے مقابلے میں لاپرواہی پر سخت ملامت اور تنبیہ فرمائی ہے۔
امیرالمؤمنین علیہالسلام نہجِ البلاغہ کے خطبہ نمبر 27 میں اپنی بارہا کی گئی جہاد کی دعوتوں اور لوگوں کی بےاعتنائی کو یاد دلاتے ہوئے اُن کے سست اور بےعمل رویّے پر سخت ملامت فرماتے ہیں۔
اس خطبے میں امیرالمؤمنین علیہالسلام ارشاد فرماتے ہیں:
اما بعد! جہاد جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے جسے پروردگار عالم نے اپنے مخصوص اولیاء کے لیے کھولا ہے، یہ تقویٰ کا لباس اور اللہ کی محفوظ و مستحکم زرہ اور مضبوط سپر ہے۔ جس نے اس سے منہ موڑا اور اسے نظر انداز کیا اسے اللہ ذلت کا لباس پہنا دے گا، اس پر مصیبت حاوی ہو جائے گی، اسے ذلت و خواری کے ساتھ ٹھکرا دیا جائے گا، اس کے دل پر غفلت کا پردہ ڈال دیا جائے گا، جہاد کو ضائع کرنے کی بنا پر حق اس کے ہاتھ سے نکل جائے گا، اسے ذلت برداشت کرنا پڑے گی اور وہ انصاف سے محروم رہ جائے گا۔
آگاہ ہو جاؤ کہ میں نے تم لوگوں کو اس قوم سے جہاد کرنے کے لیے دن میں پکارا، رات میں آواز دی، خفیہ طریقہ سے دعوت دی، اعلانیہ طور پر بلایا اور بارہا سمجھایا کہ ان کے حملہ کرنے سے پہلے تم میدان میں پہنچ جاؤ کہ خدا کی قسم جس قوم سے اس کے گھر کے اندر جنگ کی جاتی ہے اس کے حصے میں ذلت کے علاوہ کچھ نہیں آتا، لیکن تم نے ٹال مٹول کی اور سستی کا مظاہرہ کیا، یہاں تک کہ تم پر مسلسل حملے شروع ہوگئے اور تمہارے علاقوں پر قبضہ کر لیا گیا،دیکھو یہ بنی غامد کے آدمی (سفیان بن عوف) کی فوج انبار میں داخل ہوگئی ہے اور اس نے حسان بن حسان بکری کو قتل کردیا ہے اور تمہارے سپاہیوں کو ان کے مراکز سے نکال باہر کردیا ہے۔
مجھے تو یہاں تک خبر ملی ہے کہ دشمن کا ایک سپاہی مسلمان یا مسلمانوں کے معاہدے میں رہنے والی عورت کے پاس آتا ہے اور اس کی پازیب، کنگن، گلو بند اور گوشوارے اتار کر لے جاتا ہے اور وہ سوائے "انا للہ” پڑھنے اور رحم و کرم کی درخواست کرنے کے کچھ نہیں کر سکتی؛ وہ سارا ساز و سامان لے کر چلا جاتا ہے، نہ کسی کو تکلیف ہوتی ہے اور نہ کسی کا خون بہتا ہے، اس صورتِ حال کے بعد اگر کوئی مسلمان صدمے سے مر بھی جائے تو قابلِ ملامت نہیں ہے بلکہ میرے نزدیک حق بجانب ہے،کس قدر حیرت انگیز اور تعجب خیز صورتِ حال ہے۔
خدا کی قسم یہ بات دل کو مردہ بنا دینے والی اور ہم و غم کو سیمٹنے والی ہے کہ یہ لوگ باطل پر اکٹھے اور متحد ہیں اور تم لوگ حق پر ہونے کے باوجود متحد نہیں ہو؛ تمہارا بُرا ہو، کیا افسوسناک حال ہے تمہارا کہ تم تیر اندازوں کا مستقل نشانہ بن گئے ہو، تم پر حملہ کیا جا رہا ہے اور تم حملہ نہیں کرتے ہو، تم سے جنگ کی جا رہی ہے اور تم باہر نہیں نکلتے ہو، لوگ خدا کی نافرمانی کر رہے ہیں اور تم اس صورتِ حال سے خوش ہو، میں تمہیں گرمیوں میں جہاد کے لیے نکلنے کی دعوت دیتا ہوں تو کہتے ہو کہ شدید گرمی ہے، تھوڑی مہلت دیجئے کہ گرمی کا موسم گزر جائے، اس کے بعد سردیوں میں بلاتا ہوں تو کہتے ہو سخت جاڑا پڑ رہا ہے، ذرا ٹھہریے سردی ختم ہوجائے۔ حالانکہ یہ سب جنگ سے فرار کرنے کے بہانے ہیں، ورنہ جو قوم سردی اور گرمی سے فرار کرتی ہے وہ تلواروں سے کس قدر فرار کرے گی۔
اے مردوں کی شکل و صورت والے نامردو! تمہاری فکریں بچوں جیسی اور عقلیں حجرہ نشین عورتوں جیسی ہیں۔ میری دلی خواہش تھی کہ کاش میں تمہیں نہ دیکھتا اور تم سے تعارف نہ ہوا ہوتا؛ جس کا نتیجہ صرف ندامت اور رنج و افسوس ہے، اللہ تمہیں غارت کرے، تم نے میرے دل کو پیپ سے بھر دیا ہے اور میرے سینے کو رنج و غم سے چھلکا دیا ہے، تم نے ہر سانس میں غم کے گھونٹ پلائے ہیں اور اپنی نافرمانی اور سرکشی سے میری رائے کو بھی بےاثر بنا دیا ہے، یہاں تک کہ اب قریش والے یہ کہنے لگے ہیں کہ فرزندِ ابو طالب علیہالسلام بہادر تو ہیں لیکن انہیں فنونِ جنگ کا علم نہیں ہے۔
اللہ ان کا بھلا کرے، کیا ان میں کوئی بھی ایسا ہے جو مجھ سے زیادہ جنگ کا تجربہ رکھتا ہو اور مجھ سے بڑا مقام رکھتا ہو؟ میں نے جہاد کے لیے اس وقت قیام کیا جب میری عمر 20 سال بھی نہیں تھی، اب تو 60 سے زیادہ ہو چکی ہے، لیکن کیا کیا جائے؟ جس کی اطاعت نہیں کی جاتی اس کی رائے کوئی رائے نہیں ہوتی ہے۔
نہجِ البلاغہ، خطبہ نمبر 27