حرم مقدس امیرالمؤمنین علیہالسلام کا "طلائی پرنالہ ایوان ” حرم مقدس کا ایک ایسا حصہ ہے جس کی کوئی دوسری مثال دنیا کے کسی دوسرے مقدس مقام پر نظر نہیں آتی، یہ اپنی نوعیت کی منفرد اور اہم خصوصیات کا حامل ہے۔
اس تحریر میں طلائی پرنالہ ایوان کی تاریخ اور خصوصیات پر روشنی ڈالی جائے گی۔
طلائی پرنالہ ایوان کے بارے میں چند اہم باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ ایوان حرم مقدس کی جنوبی دیوار کی جانب واقع ہے اور اس کے سامنے "سید سعید الحبوبی” کا مزار ہے، شکل و صورت اور جسامت کے لحاظ سے یہ تقریباً "ایوانِ علما” جیسا ہی ہے۔
طلائی پرنالہ ایوان کی ساخت اور پیمائش
جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے، سنہرا پرنالہ ایوان اپنی شکل اور جسامت میں "ایوانِ علما” سے ملتا جلتا ہے، حرم مقدس امیرالمؤمنین علیہالسلام کے بورڈ کے رکن اور تاریخی امور و آثار قدیمہ کے ماہر عبدالہادی ابراہیمی نے ان دونوں ایوانوں کی سب سے اہم مماثلتوں اور اختلافات کو واضح کیا ہے:
سنہرا پرنالہ ایوان، اپنے طرزِ تعمیر اور نقش و نگار کے لحاظ سے ایوانِ علما جیسا ہے جو حرم کے شمالی صحن میں واقع ہے، ان دونوں ایوانوں کی ایک اور مشترکہ بات ان پر کندہ اشعار ہیں، جو "قوام الدین قزوینی” کے لکھے ہوئے ہیں خاص طور پر سنہرا پرنالہ ایوان کے اوپری حصے میں نصب گلدان کے اردگرد لکھے گئے اشعار وہی ہیں جو ایوانِ علما میں درج ہیں، جن کا آغاز اس مصرعے سے ہوتا ہے:
قُلِ اللّٰہُمَّ صَلِّ وَزِدْ وَ بَارِکْ ** عَلٰی طَہٰ صَلِّ عَلٰی عَلِیٍّ
کہہ دو اے اللہ! درود بھیج اور زیادہ سے زیادہ بھیج اور برکت عطا فرما طہٰؐ پر، درود بھیج علی علیہالسلام پر
تاہم، سنہرے پرنالہ ایوان کے درمیانی حصے میں کندہ قصیدہ، جو قرآن پاک کی ایک آیت سے شروع ہوتا ہے اور اس کے بعد ایک قصیدہ آتا ہے، ایوانِ علما کے قصیدے سے مختلف ہے، اس قصیدے کا آغاز اس مصرعے سے ہوتا ہے:
صَلِّ یَا رَبِّ عَلٰی شَمْسِ الضُّحٰی ** اَحْمَدَ الْمُخْتَارِ نُورِ الثَّقَلَیْنِ
اے میرے رب! ڈھلتی ہوئی دوپہر کے سورج پر رحمت نازل فرما، جو منتخب ہیں اور دونوں جہانوں کا نور ہیں
اس کے علاوہ، دونوں ایوانوں کے طول و عرض تقریباً ایک جیسے ہیں: ایوان کی لمبائی 10.5 میٹر، چوڑائی تقریباً 6 میٹر، اور گہرائی تقریباً 3.25 میٹر ہے۔
قیمتی تاریخی میناکاری
سنہرے پرنالہ ایوان اور ایوانِ علماء پر بنے ہوئے میناکاری کے ٹائل تاریخی اعتبار سے نہایت قیمتی ہیں، کیونکہ یہ حرم مقدس امیرالمومنین علیہالسلام میں موجود قدیم ترین ٹائلز میں شمار ہوتے ہیں۔
ان میناکاری والے ٹائلز کی مرمت اور تجدید نادر شاہ افشار کے دور میں ہوئی، جس کے اخراجات ان کی اہلیہ گوہر شاد بیگم نے برداشت کئے۔ یہاں درج تاریخ 1157 ہجری ہے، جب کہ ایوانِ علما پر درج تاریخ 1160 ہجری ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ٹائلز اور میناکاری کی مرمت کا کام صحن کے جنوبی حصے سے شروع ہوا اور حرم مقدس کے شمالی حصے پر جا کر مکمل ہوا، یعنی یہ مرمت کا کام تقریباً 4 سال تک جاری رہا۔
تاریخی دروازے کا مقام
ایک اور اہم نکتہ وہ قرآنی آیت ہے جو اس ایوان کی کھڑکی کے اوپر لکھی ہوئی ہے: "اَدْخُلُوہَا بِسَلٰمٍ آمِنِیْنَ” (سورہ الحجر، آیت 46)۔
(انہیں حکم ہوگا کہ تم ان باغات میں سلامتی اور حفاظت کے ساتھ داخل ہو جاؤ)
اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ حصہ صفوی دور میں ایک دروازہ تھا، بالکل اسی طرح جیسے ایوانِ علما بھی صفوی دور میں شروع میں ایک دروازہ تھا۔
یہ دروازہ بالکل سیدھا حرم کے اصل قبلہ رخ دروازے "باب القبلہ” کے مقابل تھا، جو ایک بڑا شمالی ایوان ہے اور "ایوان حبوبی” کے نام سے مشہور ہے، درحقیقت، یہی ایوان اصل باب القبلہ ہے، موجودہ دروازہ شبلی پاشا، عثمانی گورنر کے دور میں 1291 ہجری (1874ء) میں بنایا گیا۔
مستقبل کی امید
فی الحال، اس بات کی کوشش کی جا رہی ہے اور امید ہے کہ زائرین کی آمد و رفت کو آسان بنانے کے لیے ان تاریخی دروازوں کو دوبارہ کھولا جائے گا اور شیخ بہائی کی رکھی ہوئی بنیاد ان کی اصل اور خوبصورت طرزِ تعمیر کو اس کی سابقہ حالت میں واپس لایا جائے گا۔
سنہرا پرنالہ ایوان کے نام کی وجہ
ایسا لگتا ہے کہ اس ایوان کے نام میں "سنہرا پرنالہ” کا اضافہ اس میں موجود سونے کے بنے ہوئے پرنالے کی وجہ سے ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ پرنالہ آخر رکھا کیوں گیا، کیا اس کا کوئی خاص مقصد تھا؟
عبدالہادی ابراہیمی اس سلسلے میں درج ذیل وضاحت فرماتے ہیں:
ایک انوکھا فلکیاتی آلہ اس بات کا قوی اعتقاد ہے کہ جب شیخ بہائی نے صفوی دور میں حرم مقدس امیرالمؤمنین علیہالسلام کی تعمیر و توسیع کا کام سنبھالا تو انہوں نے نصف النہار (میریڈیَن) کے تعین پر بھی توجہ مرکوز کی اور ظہر کی اذان کے وقت کو معلوم کرنے کے لیے تین نشانات مقرر کیے،جب سورج کی روشنی ان نشانات پر پڑتی ہے اور سایہ ان پر پڑنا بند ہو جاتا ہے، تو یہ ظہر کے وقت کی نشاندہی کرتا ہے۔
لہذا یہ پرنالہ درحقیقت پانی کے نکاس کے لیے نہیں بنایا گیا تھا، یہ بات بہت سے لوگ نہیں جانتے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس پرنالے سے جو چھت جڑی ہوئی ہے اس کا رقبہ 34 مربع میٹر سے زیادہ نہیں ہے، جبکہ گنبد مقدس اور چھت کا کل رقبہ بہت وسیع ہے اور پانی کے نکاس کے لیے بہت سے دوسرے نکات موجود ہیں جو اس سنہرے پرنالے کی ضرورت کو ختم کرتے ہیں۔ نیز، یہ مستطیل نما رقبہ جو سنہرے پرنالے تک جاتا ہے، حرم مقدس کی چھت کی سطح سے تقریباً ایک میٹر بلند ہے۔
وقتِ ظہر کی پہچان کے لئے یہ پرنالہ قرآن پاک کی ایک آیت کے بالائی حصے میں نصب ہے اور بالکل قبلہ اور خانہ خدا کے سامنے ہے، ہر روز ظہر کی اذان کے وقت، جب سایہ بالکل سیدھا ہو کر برنالے پر پڑتا ہے، تو یہ ظہر کا وقت ہوتا ہے، یہ عمل ہر روز اور سال کے تمام موسموں میں بغیر کسی فرق کے ہوتا ہے، یہ ایک منفرد سائنسی اور تعمیراتی عجوبہ ہے۔
قابلِ غور بات یہ ہے کہ سنہرے پرنالے کے اوپری حصے میں لکھی گئی آیات سورۃ الانسان سے ہیں، اور پرنالے کے نیچے لکھی گئی آیت اسی سورہ کی آیت نمبر 15 ہے، جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: "وَيُطَافُ عَلَيْهِم بِآنِيَةٍ مِّن فِضَّةٍ وَأَكْوَابٍ كَانَتْ قَوَارِيرَا” (اور ان کے گرد چاندی کے پیالے اور شیشے کے ساغروں کی گردش ہوگی)۔
غور طلب بات یہ ہے کہ لفظ "كَانَتْ” کا "الف” (یعنی ‘ت’ کے بعد والی مد) بالکل سنہرے پرنالے کے مرکز میں آتا ہے۔ جب سایہ سنہرے پرنالے کے نیچے سیدھا ہو جاتا ہے، تو یہ اس ‘الف’ پر پڑتا ہے، اور یہی ظہر کی اذان کا صحیح وقت ہوتا ہے۔ یہ وہ پہلا نشان ہے جو شیخ بہائی نے حرم مقدس امیرالمؤمنین علیہالسلام میں ظہر کی اذان کے لیے مقرر کیا ہے۔
دوسرا نشان: دوسرا نشان مشرقی دیوار یا مشرقی دیوار کے ایوانوں میں ہے، جب سورج حرم مقدس اور صحن مقدس کے مشرقی کمرے کے ایوانوں، خاص طور پر چار ایوانوں کے کنارے پر پڑتا ہے (جن میں سے ایک میں "مسجد الخضراء” کا دروازہ ہے)، تو یہ ظہر کے وقت کی نشاندہی کرتا ہے۔
تیسرا نشان: تیسرا نشان "باب الساعہ” (گھڑی والا دروازہ) کے اندرونی حصے کے بائیں جانب بنے ہوئے نمونے کے عین درمیان میں سورج کی روشنی کا پہنچنا ہے، جب سورج اس نقطے کو چھوتا ہے، تو یہ بھی ظہر کے وقت کی علامت ہے۔
یہ نشانات سال کے کسی بھی دن یا کسی بھی موسم میں تبدیل نہیں ہوتے۔ یہی وہ اہم وجہ ہے جس کی بنا پر حرم مقدس امیرالمومنین علیہالسلام نے صحن مقدس پر چھت ڈالنے کے منصوبے کو مسترد کر دیا تھا، کیونکہ اس منصوبے کے نفاذ سے حرم مقدس کے تاریخی ڈھانچے کو نقصان پہنچنے کے علاوہ شیخ بہائی کے ان منفرد فلکیاتی اور ریاضیاتی حسابوں کا اعجاز بھی ختم ہو جاتا۔
سنہرے پرنالے کے بارے میں ایک اور اہم بات یہ ہے کہ یہ تقریباً چار سو سال قبل صفوی دور میں شیخ بہائی کے ہاتھوں حرم مقدس کی تعمیر کے وقت ہی نصب کیا گیا تھا، اس لیے یہ آسمان سے برسنے والے پانی سے متبرک ہوتا ہے۔
جب بارش ہوتی ہے اور حرم مقدس امیرالمؤمنین علیہالسلام کے مبارک گنبد پر پڑتی ہے، تو یہ پانی اس مخصوص حصے میں جمع ہو کر سنہرے پرنالے سے ہوتا ہوا زمین پر گرتا ہے، اسی وجہ سے زائرین ہمیشہ اس پرنالے کے پانی سے تبرک حاصل کرتے ہیں۔
سنہرے پرنالہ ایوان میں مدفون ممتاز شخصیات
ایوانِ علما کی طرح، سنہرے پرنالہ ایوان اور اس کے اردگرد کے علاقے میں بھی بڑے علماء، فقہا، ادبا، شعرا اور دیگر ممتاز شخصیات مدفون ہیں۔ "کاظم عبود الفتلاوی” نے اپنی کتاب "مشاہیر المدفون فی الصحن العلوی” (صحن علوی میں مدفون مشہور شخصیات) میں اس ایوان میں مدفون 12 شخصیات کا تذکرہ کیا ہے۔ ان میں سے کچھ یہ ہیں:سید نقیب مراد طالبی: جو صحن علوی اور صحن حسینی دونوں میں خدمات انجام دیتے تھے۔
حاکم نجف ملا یوسف، شیخ نصار؛ معروف فقیہ، علامہ، ادیب اور شاعر، جو نجف میں خاندان "آل نصار” کے بانی تھے، ان کے بیٹے شیخ راضی آل نصار۔
سنہرے پرنالہ ایوان میں کئی ممتاز خواتین بھی آسودۂ خاک ہیں، جن میں سے ایک "ملا وحیدہ” ہیں، جو نجفی تھیں اور شاعرہ کے طور پر مشہور تھیں۔
سنہرے پرنالہ ایوان کے درمیانی حصے میں سورہ مائدہ کی وہ مشہور آیت کندہ ہے جو "آیۃ الولایۃ” (آیت ولایت) کے نام سے جانی جاتی ہے:
بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ ٱللَّهُ وَرَسُولُهُۥ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ ٱلَّذِينَ يُقِيمُونَ ٱلصَّلَوٰةَ وَيُؤْتُونَ ٱلزَّكَوٰةَ وَهُمْ رَٰكِعُونَ وَمَن يَتَوَلَّ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ فَإِنَّ حِزْبَ ٱللَّهِ هُمُ ٱلْغَٰلِبُونَ
( ایمان والو بس تمہارا ولی اللہ ہے اور اس کا رسول اور وہ صاحبانِ ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوِٰ دیتے ہیں۔ اور جو بھی اللہ، رسول اور صاحبانِ ایمان کو اپنا سرپرست بنائے گا تو اللہ کی ہی جماعت غالب آنے والی ہے)
شیعہ حدیثی کتب اور تفاسیر میں سورہ مائدہ کی آیت نمبر 55 کو "آیہ ولایت” کے نام سے جانا جاتا ہے۔ دانشنامہ امام رضا علیہالسلام میں درج ہے کہ امام علی ابن موسی الرضا علیہالسلام نے اس آیت کو ولایت کے نام سے پڑھا ہے اور اس کا مصداق حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہالسلام کو قرار دیا ہے۔








