سب سے زیادہ تلاش کیا گیا:

زیارتِ حضرتِ فاطمہ معصومہ سلام‌اللہ‌علیہا کا اِعجاز

زیارتِ حضرتِ فاطمہ معصومہ سلام‌اللہ‌علیہا کا اِعجاز

اہلِ بیتِ نبوت علیہم‌السلام کی تعلیمات میں، بعض مقامات اور شخصیات کی زیارت کو ایک خاص روحانی مقام حاصل ہے، ان برگزیدہ اَماکن میں سے ایک، حرمِ قم ہے، جو خاندانِ رسالت کے اقوال کی روشنی میں، عظمت و منزلت کا مظہر ہے اور یہ تقدس، حضرتِ فاطمہ معصومہ بنتِ موسیٰ بنِ جعفر علیهماالسلام کی ذات سے وابستہ ہے، اگر کسی اَمر کی فضیلت ائمہ علیہم‌السلام کے لسانِ حق سے جاری ہو تو وہ ایک سند یافتہ عبادتِ الہی بن جاتی ہے، حضرتِ امامِ صادق علیہ‌السلام، حضرتِ امامِ رضا علیہ‌السلام، اور حضرتِ امامِ تقی الجواد علیہ‌السلام کے فرامین اس مقام کی عظمت اور زائرین کی کامیابی کی سند فراہم کرتے ہیں۔

اہلِ بیتِ نبوت علیہم‌السلام کی تعلیمات میں، بعض مقامات اور شخصیات کی زیارت کو ایک خاص روحانی مقام حاصل ہے، ان برگزیدہ اَماکن میں سے ایک، حرمِ قم ہے، جو خاندانِ رسالت کے اقوال کی روشنی میں، عظمت و منزلت کا مظہر ہے اور یہ تقدس، حضرتِ فاطمہ معصومہ بنتِ موسیٰ بنِ جعفر علیهماالسلام کی ذات سے وابستہ ہے، اگر کسی اَمر کی فضیلت ائمہ علیہم‌السلام کے لسانِ حق سے جاری ہو تو وہ ایک سند یافتہ عبادتِ الہی بن جاتی ہے، حضرتِ امامِ صادق علیہ‌السلام، حضرتِ امامِ رضا علیہ‌السلام، اور حضرتِ امامِ تقی الجواد علیہ‌السلام کے فرامین اس مقام کی عظمت اور زائرین کی کامیابی کی سند فراہم کرتے ہیں۔

حرم کا اعلا مقام

اس باب میں، حضرتِ امامِ جعفر صادق علیہ‌السلام کا فرمانِ گرامی ایک بنیادی حیثیت رکھتا ہے،آپ علیه‌السلام نے فرمایا: "اللہ کا  حرم مکہ ہے، رسول اللہ صلی‌اللہ‌علیہ‌وآلہ کا حرم مدینہ ہے، امیرالمؤمنین علیه‌السلام کا حرم کوفہ ہے اور ہم اہلبیت کا  بھی ایک حرم ہے اور وہ قم ہے”۔ آپ نے مستقبل کی خبر دیتے ہوئے فرمایا: "بہت جلد میری اولاد میں سے ایک خاتون کو وہاں دفن کیا جائے گا جن کا نام فاطمہ ہوگا، جو بھی اُن کی زیارت کرے گا جنت اس پر واجب ہوجائے گی”۔[1]

 حضرتِ امامِ صادق علیه‌السلام نے اس مقام کی قدسیت کا اعلان اُس وقت فرمایا کہ ابھی تک حضرتِ امامِ موسیٰ کاظم (علیه‌السلام) کی ولادت بھی نہیں ہوئی تھی۔ یہ اِشارہ حضرتِ فاطمہ معصومہ (سلام‌اللہ‌علیہا) کی تقدیس کی دلیل ہے۔ امامِ صادق علیہ‌السلام نے یہ بھی فرمایا کہ "ان کی زیارت بہشت کے برابر ہے” اور یہ فرمان اس زیارت کی اھمیت اور فضیلت کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ ایک زیارت انسان کی ابدی سعادت اور کامیابی کی تضمین ہے اور وہ کامیابی اور سعادت کچھ اور نہیں بلکہ جنتِ فردوس ہے۔[2]

جنت اور معرفت کا اِرتباط

حضرتِ امامِ علی بنِ موسی الرضا علیہ‌السلام نے اِسی اِعجاز کی توثیق فرماتے ہوئے اپنے خادم سعد سے فرمایا: "اے سعد! تمھارے ہاں ہماری ایک قبر ہے۔” جب عرض کیا گیا کہ کیا حضرتِ فاطمہ بنتِ موسیٰ (علیهماالسلام) کی قبر ہے؟ تو آپ (علیه‌السلام) نے فرمایا: "جی ہاں! جو شخص اُن کی معرفت کے ساتھ زیارت کرے، اُس کے لیے جنت ہے”۔[3]

 یہاں "عارفاً بحقّها” کی قید، زیارت کے روحانی اور فکری پہلو پر زور دیتی ہے کہ محض جسمانی حاضری نہیں بلکہ آپ کی منزلت، عصمت، اور امام زادگی کی معرفت بھی ضروری ہے۔ مزید برآں، آپ علیہ‌السلام نے حضرتِ معصومہ سلام‌اللہ‌علیہا کے بلند و بالا مرتبے کو اُجاگر کرتے ہوئے فرمایا: "جو بھی قم میں معصومہ سلام‌اللہ‌علیہا کی زیارت کرے گویا اس نے میری زیارت کی”،[4] آپ کا اُنھیں "معصومہ” کے لقب سے پکارنا اور اپنی زیارت کے مثل قرار دینا، اُن کے اہلِ بیت اطہار میں شامل ہونے کی بیّن دلیل ہے، جس کی تصدیق قرآن کی آیتِ تطہیر سے ہوتی ہے: "إِنَّما یُرِیدُ اللَّهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیراً”۔[5]

حضرتِ امام محمد تقی الجواد علیہ‌السلام نے بھی اِسی بشارت کی تصدیق کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: "جو بھی قم میں میری پھوپھی کی قبر کی زیارت کرے، اس پر جنت واجب ہے”۔[6]

یہ اَقوالِ اَئمہ (علیہم‌السلام) تواتر کے ساتھ، حضرتِ فاطمہ معصومہ (سلام‌اللہ‌علیہا) کی زیارت کے ثواب کو جنت کے وجوب سے مشروط کرتے ہیں۔ یہ بات اہلِ معرفت کے لیے ایک اِجتماعی اِجماع کی حیثیت رکھتی ہے کہ زیارتِ قم، ایک ایسا عمل ہے جو انسان کو ابدی نجات کی ضمانت دیتا ہے، بشرطیکہ زائر معرفت اور اِخلاص کے ساتھ اِسے بجا لائے۔

زیارتِ حضرتِ فاطمہ معصومہ سلام‌اللہ‌علیہا کا اِعجاز

مزید مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے