سب سے زیادہ تلاش کیا گیا:

امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی ضریح مطہر (حصہ سوم)

امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی ضریح مطہر (حصہ سوم)

اگر یہ کہا جائے کہ حضرت علی علیہ‌السلام کا حرم مقدس زمین پر جنت کا ایک ٹکڑا ہے، تو مبالغہ نہیں ہوگا۔ اس جنت نشان مقام کی تاریخ کے بارے میں اس تحریر کے تیسرے اور آخری حصہ میں ضریح مطہر کے موجودہ صندوق خاتم اور مقام "اصبعین" کے کرامات پر روشنی ڈالیں گے۔

حرم مقدس امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی تاریخ بہت قدیمی ہے،تاریخ کے مختلف ادوار میں آپ کے عقیدت مندوں نے ہمیشہ اس کی تعمیر، مرمت اور تزئین کے ذریعے اپنی عقیدت کا اظہار کیا ہے۔

اگر یہ کہا جائے کہ حرم مقدس امیرالمؤمنین علیہ‌السلام زمین پر جنت کا ایک ٹکڑا ہے، تو مبالغہ نہیں ہوگا۔ اس جنت نشان مقام کی تاریخ کے بارے میں اس تحریر کے تیسرے اور آخری حصہ میں ضریح مطہر کے موجودہ صندوق خاتم اور مقام "اصبعین” کی کرامات پر روشنی ڈالیں گے۔

ضریح مطہر امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کا موجودہ صندوقِ خاتم

ضریح مطہر امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کا موجودہ صندوقِ خاتم سلطان محمد جعفر بن محمد صادق زند نے 1787ء میں حرم مقدس کی خدمت میں پیش کیا، یہ صندوق ایک لاجواب شاہکار اور فن کا نادر نمونہ ہے جس کی تعمیر میں نہایت باریکی سے کام لیا گیا ہے، اس میں دیدہ زیب نقوش اور خطاطی کے بے مثال نمونے موجود ہیں، یہ صندوق ہندوستانی ساگوان کی لکڑی سے بنایا گیا ہے جس میں عاج، صدف اور رنگ برنگے لکڑی کے ٹکڑوں کی مرصع کاری سے کام لیا گیا ہے، صندوق کے چاروں کونوں پر قرآن مجید کے کچھ سورے، پیغمر اکرم صلی‌الله‌علیه‌وآلہ کی احادیث اور دعائے جوشن کبیر کے اقتباسات کندہ ہیں، جبکہ عطیہ دینے والے، کاریگر اور خطاط کے ناموں کے ساتھ ساتھ تعمیر کی تاریخ سر مبارک کے حصے میں درج ہے۔

صندوق کے جنوبی حصے میں ” اصبعین (دو انگلیاں) ” کے نام سے ایک مقام مشہور ہے جو حرم مقدس کی بے شمار کرامات میں سے ایک کی یاد دلاتا ہے، 1203ھ/1788ء میں صندوق کی تکمیل کے بعد اسے ایران سے نجف اشرف لایا گیا، اس صندوق کے ضریح مطہر میں نصب ہونے کی تاریخ نجفی شاعر سید صادق الفحام نے ایک قصیدے میں تحریر کی ہے۔

صندوق خاتم 1411ھ/1991ء میں بعثی حکومت کی فوجی جارحیت کے دوران شدید متاثر ہوا، چنانچہ 2017ء میں جب ضریح مطہر کی چاندی کی جالیوں کی مرمت کی گئی تو صندوق خاتم کے اردگرد کے شیشوں کو بھی نہایت عمدہ شیشوں سے بدلا گیا اور اس کے کناروں کو سونے کا پانی چڑھی ہوئی پٹیوں سے سجایا گیا جن پر "یاعلی” کندہ کر کے سرخ یاقوت سے جڑا گیا نیز صندوق پر ایک قیمتی سبز غلاف بھی چڑھایا گیا جس پر سونے کے دھاگوں سے تحریریں کندہ تھیں اور موتیوں ،عقیق اور یاقوت جیسے قیمتی پتھروں سے آراستہ کیا گیا۔

ضریح مطہر کے اندر موجود "صندوق خاتم” سے کیا مراد ہے؟

ضریح مطہر کے اندر موجود صندوق خاتم سے کیا مراد ہے؟ اور کیا اس صندوق کے علاوہ دوسرے صندوق بھی موجود رہے ہیں؟

صندوق خاتم دراصل وہی لکڑی کا صندوق ہے جو براہ راست امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کے مزار اقدس پر رکھا ہوا ہے،خاتم کاری سے مراد وہ فن ہے جس میں ایرانیوں کو خاص مہارت حاصل ہے، اس میں لکڑی کی سطوح کو مختلف قسم کی قیمتی لکڑیوں، عاج یہاں تک کہ سونے چاندی سے آراستہ کیا جاتا ہے۔

اب تک ضریح مطہر پر کئی صندوق نصب ہو چکے ہیں،ان میں سے پہلا صندوق "امین عباسی” ہے،جس کی ایک دلچسپ داستان ہے، معتمد عباسی کے دورِ میں ایک معروف شخص نے نجف میں ایک وفد بھیجا، قابل ذکر ہے کہ اس وقت حرم مقدس معروف تھا اور لوگ زیارت کے لیے آتے تھے،  بہرحال اس شخص نے وفد سے کہا کہ قبر کھودیں اور امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کے پیکر مطہر کو اس کے پاس لائیں،اس موقع پر امیرالمؤمنین علیہ‌السلام  کی طرف سے ایک کرامت ظاہر ہوئی، اور قبر میں داخل ہونے والے تمام افراد اچانک ہلاک ہو گئے، جب یہ خبر اس تک پہنچی تو اس نے توبہ کی اور ایک لکڑی کا صندوق تیار کرکے مزار مطہر پر نصب کرایا،یہ واقعہ 273 ہجری میں پیش آیا، تاہم بعض مورخین نے اس تاریخ پر شک کا اظہار کیا ہے، ان مورخین کے مطابق یہ واقعہ داؤد عباسی کے دور میں پیش آیا، جو اس وقت کوفہ کا والی اور منصور کا چچا تھا۔

جبکہ شیخ طوسی کی کتاب "تہذیب الاحکام” اور ابن طاؤس کی "فرحۃ الغریب” میں مذکور روایت کے مطابق یہ واقعہ 273 ہجری میں ہی پیش آیا۔

ایک اور صندوق کا ذکر مشہور سیاح ابن بطوطہ نے کیا ہے، جب وہ 727 ہجری (1327 عیسوی) میں حرم مقدس امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی زیارت کے لیے آیا تو اس نے بیان کیا کہ میں نے ایک لکڑی کی میز دیکھی جس پر سونے کا پانی چڑھا ہوا تھا اور چاندی کی میخوں سے جڑی ہوئی تھی، اس پر تین مقامات تھے جو حضرت آدم علیہ‌السلام  ، حضرت نوح علیہ‌السلام اور حضرت علی بن ابی طالب علیہ‌السلام  کے مزار تھے۔

تاریخ میں اسماعیل صفوی کے صندوق کا بھی ذکر ملتا ہے،روایت ہے کہ انہوں نے کئی صندوقِ خاتم متعدد مقدس مقامات کو ہدیہ کیے، جن میں حرم مقدس امیرالمومنین علیہ‌السلام کے بھی ایک صندوق تھا۔

اس کے بعد، بغداد کے والی حسن پاشا نے 1126 ہجری (1714 عیسوی) میں ضریح مطہر کے صندوق کی مرمت اور تجدید کی، لیکن موجودہ صندوق ان قیمتی اور نفیس صندوقوں میں سے ہے جسے سلطان محمد جعفر بن محمد صادق زند نے 1202 ہجری (1787 عیسوی) میں ہدیہ دیا اور اس کے ایک سال بعد 1203 ہجری میں نصب کیا گیا،اس صندوق کے نصب ہونے کی تاریخ کے حوالے سے سید صادق الفحام کا ایک قصیدہ موجود ہے جس میں نصب کرنے کی تاریخ کا ذکر کیا گیا ہے۔

صندوق خاتم کی خصوصیات

اگر ہم اس صندوق میں استعمال ہونے والے فنون کے بارے میں بات کرنا چاہیں تو ہمیں ملے گا کہ یہ صندوق ہندوستانی ساگوان کی لکڑی سے بنا ہے اور قیمتی لکڑیوں اور عاج کی خاتم کاری سے آراستہ ہے، صندوق پر نہایت خوبصورت خطاطی میں قرآن پاک کی آیات، امیرالمؤمنین علیہ‌السلام  کی مدح و ثنا میں نقل ہونے والی احادیث نبوی اور ذات باری تعالیٰ کے اسمائے حسنی کندہ ہیں نیز جیسا کہ بیان کیا گیا، صندوق کے نچلے حصے میں سرِ مبارک کی جانب عطیہ دینے والے سلطان محمد جعفر زند کا نام، صندوق بنانے والے نجار محمد حسین شیرازی کا نام اور خطاط محمد بن محی الدین حسینی کا نام درج ہے۔

جب سن 1942 عیسوی میں پرانی ضریح کی جالی ہٹا کر نئی جالی نصب کی گئی، تو تحفظ اور نگہداشت کے لیے صندوق خاتم کو شیشے کے ایک صندوق میں رکھا گیا جو الحاج صالح جوہرچی نے سن 1361 ہجری / 1942 عیسوی میں حرم مقدس امیرالمومنین علیہ‌السلام  کو ہدیہ کیا تھا جسے الحاج محمد سعید صائغ نے تیار کیا تھا، حسن سبتی نے اس سلسلے میں ایک نظم لکھی جس میں صندوق کی تنصیب اور حاج صالح جوہرچی کی جانب سے شیشے کا صندوق عطیہ کیے جانے کی تاریخ درج ہے۔

جیسا کہ آپ کو معلوم ہے، شعبانیہ انتفاضہ کے دوران بعثی حکومت نے حرم مقدس امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی بے حرمتی کی اور اس حکومت کے حملوں کے نتیجے میں حرم مقدس کے دروازوں، کھڑکیوں اور صندوق خاتم کو بھی نقصان پہنچا، اسی وجہ سے حرم مقدس امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی انتظامیہ نے سن 2017 میں بہرہ فرقے  کے تکنیکی اور انجینئرنگ عملے کے ذریعے ضریح مطہر کی جالی کی تجدید اور مرمت کا کام شروع کیا۔

اس دوران شیشے والے صندوق کا شیشہ بھی تبدیل کیا گیا اور 7 سینٹی میٹر موٹا شیشہ استعمال کیا گیا جس پر گولے کے چَھرّوں، گولیوں اور آگ کا اثر نہیں ہوتا۔

اس کے علاوہ صندوق پر "برده” کپڑے کا انتہائی قیمتی غلاف چڑھایا گیا ہے، یہ کپڑا سونے کے دھاگوں سے سجایا گیا ہے اور موتیوں اور قیمتی پتھروں سے آراستہ ہے۔

دو انگلیوں والا مقام

ضریح مطہر امیرالمؤمنین علیہ‌السلام  پر "اصبعین” یا "دو انگلیاں” کے نام سے ایک مقام مشہور ہے، اس مقام پر ضریح مطہر سے متعدد کرامات ظاہر ہوئی ہیں، جن میں سے سب سے اہم اور کتابوں میں مذکور کرامت "مرہ بن قیس” کی داستان ہے۔

مرہ بن قیس اپنے زمانے کا ایک دولتمند اور بااثر شخص تھا، ہزاروں افراد اس کی خدمت کرتے تھے، ایک دن اسے کسی نے بتایا کہ امیرالمؤمنین علیہ‌السلام نے تمہارے آباء و اجداد کو قتل کیا تھا۔

مرہ بن قیس نے پوچھا کہ وہ کہاں دفن ہیں، تو بتانے والے نے اسے نجف کا راستہ دکھایا،روایت ہے کہ وہ ایک لشکر لے کر نجف پہنچا اور وہاں کے رہنے والوں سے جنگ کی۔

بالآخر وہ نجف اور پھر حرم مقدس میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گیا، حرم میں داخل ہو کر وہ براہ راست ضریح مطہر کی طرف گیا اور اس طرف منہ کرکے کھڑا ہو گیا جہاں امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کا سر مبارک ہے،اس نے حضرت کو دھمکیاں دیں اور کہا: تم نے میرے باپ دادا کو قتل کیا تھا، اس لیے میں آج تمہاری قبر کو مسمار کرنے اور کھودنے آیا ہوں۔

روایت ہے کہ اسی لمحہ مرقد مطہر سے ذوالفقار کی شکل والی دو انگلیاں ظاہر ہوئیں جنہوں نے اسے درمیان سے دو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا اور مرہ بن قیس کی لاش پتھر کے دو ٹکڑوں میں تبدیل ہو گئی، اس کے علاوہ بھی اس مقام سے بہت سی دوسری کرامات ظاہر ہو چکی ہیں۔

مزید مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے