سب سے زیادہ تلاش کیا گیا:

ولادتِ امیرالمؤمنین علیہ‌السلام

ولادتِ امیرالمؤمنین علیہ‌السلام

امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی ولادت باسعادت بیتُ الله الحرام خانہ کعبہ میں ہوئی، یہ ایسی فضیلت  ہے جو نہ آپ سے پہلے کسی کو نصیب ہوئی اور نہ آپ کے بعد کسی کو عطا ہوئی۔

امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی ولادت باسعادت بیتُ الله الحرام خانہ کعبہ میں ہوئی، یہ ایسی فضیلت  ہے جو نہ آپ سے پہلے کسی کو نصیب ہوئی اور نہ آپ کے بعد کسی کو عطا ہوئی۔

دنیا بھر میں کوئی شخصیت ایسی نہیں جس نے رسولِ خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله کی فضیلتوں اور کرامتوں کو اس حد تک اپنے وجود میں سمیٹا ہو جس طرح امیرالمؤمنین علیہ‌السلام نے سمیٹا ہے، آپ کے مناقب اور فضائل اتنے  زیادہ ہیں کہ گنتی میں نہیں آتے اور ان کی بلندی ایسی ہے کہ ان کا کوئی اختتام نہیں۔

آپ کا اخلاق درحقیقت نورِ محمدی صلى‌الله‌عليه‌وآله کی تجلی تھا،آپ اسی گھر میں پروان چڑھے، اسی دسترخوانِ مکارمِ اخلاق پر تربیت پائی اور رسولِ اکرم صلى‌الله‌عليه‌وآله کے دستِ پرورش سے سیراب ہوئے۔ یوں آپ کے اخلاق اعلیٰ ترین درجے تک پہنچے اور آپ کا سلوک رفعت کی بلند ترین منزلوں پر فائز ہوا،یہ کرامتیں اور یہ صفاتِ نبوی، پوری زندگی آپ کے وجود میں جلوہ‌گر رہیں یہاں تک کہ آپ نے دارِ فانی کو الوداع کہا۔

امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی ذات اتنی وسیع اور باعظمت ہے کہ ہزاروں کتابیں اور لاکھوں اعداد و شمار بھی آپ کی حقیقت کو محدود نہیں کرسکتے۔ لیکن جیسا کہ قاعدہ ہے: «ما لا يُدرَك كلُّه لا يُترَك جلُّه» (جو چیز مکمل طور پر حاصل نہ ہو سکے، اسے بالکل ہی ترک نہیں کیا جاتا)، ہم پر لازم ہے کہ اگرچہ امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی مکمل معرفت ممکن نہیں، مگر جتنا ہو سکے اس بحرِ بیکراں سے فیضیاب ہوں، اگر سمندر کا پورا پانی سمیٹ نہیں سکتے لیکن پیاس تو بجھا سکتے ہیں ، یہی چند جھلکیاں ہمارے لیے مشعلِ راہ اور قربِ الٰہی کا ذریعہ بن سکتی ہیں تاکہ ہم اپنی زندگی اور موت دونوں میں، امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی حیات و سیرت کو نمونہ عمل بنا سکیں۔

امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی ولادت کا معجزہ

امام جعفر صادق علیہ‌السلام اپنے آباء و اجداد سے روایت کرتے ہیں: عباس بن عبدالمطلب اور یزید بن قعنب، بنی ہاشم اور عبدالعزی کے چند افراد کے ساتھ کعبہ کے پاس بیٹھے تھے کہ اچانک فاطمہ بنت اسد بن ہاشم وہاں آئیں، وہ اس وقت امیرالمؤمنین علیہ‌السلام ان کے شکم مبارک میں تھے اور حمل کا نواں مہینہ مکمل ہو چکا تھا۔

اسی لمحے انہیں دردِ زہ شروع ہوا، انہوں نے کعبہ کے سامنے رُک کر دونوں ہاتھ آسمان کی طرف بلند کیے اور عرض کیا:
پروردگارا! میں تجھ پر ایمان رکھتی ہوں، تیرے رسول محمد مصطفیٰ صلى‌الله‌عليه‌وآله پر ایمان رکھتی ہوں، تیرے تمام انبیاء و مرسلین پر ایمان رکھتی ہوں، تیری نازل کردہ تمام کتابوں پر ایمان رکھتی ہوں، اور اپنے جد ابراہیم خلیل علیہ‌السلام کے کلمات پر بھی ایمان رکھتی ہوں، جنہوں نے تیرے بیت عتیق کو قائم کیا، اے خدا! اس گھر اور اس کے بانی اور اس بچے کی قسم جو میرے رحم میں ہے ، مجھ سے ہمکلام ہوتا ہے اور مجھے اپنی باتوں سے سیراب کرتا ہے، میں جانتی ہوں کہ وہ تیری نشانیوں میں سے ایک ہے پس میرے لیے یہ ولادت آسان فرما۔

روایت میں ہے کہ کعبہ کی دیوار شق ہوئی اور وہ اندر چلی گئیں، تین دن تک کعبہ کے اندر رہیں، جب تین دن گزرے تو وہی دیوار دوبارہ شق ہوئی اور فاطمہ بنت اسد اپنے ہاتھوں میں علی علیہ‌السلام کو لیے باہر آئیں۔

انہوں نے کہا:اللہ عزوجل نے مجھے اپنی مخلوق میں سے منتخب کیا، جیسے اس نے آسیہ بنت مزاحم کو منتخب کیا، جنہوں نے پردۂ راز کے پیچھے خدا کی عبادت کی اور جیسے مریم بنت عمران کو چُنا اور عیسیٰ کی ولادت کو ان کے لیے آسان بنایا اور انہوں نے صحراء میں کھجور کے درخت کو ہلایا اور اس پر سے جناب مریمؑ کے لیے تازہ کھجوریں نیچے گریں لیکن خدا نے مجھے متنخب کیا اور ان دونوں خواتین پر بھی فضیلت بخشی کہ میں نے بیت اللہ الحرام کے اندر بچے کو جنم دیا اور تین دن تک جنت کے میووں سے رزق پایا نیز جب میں بچے کو لے کر باہر نکلنا چاہتی تھی تو ندا آئی: اے فاطمہ! اس بچے کا نام علی رکھو، کیونکہ میں علی اعلیٰ ہوں، میں نے اسے اپنی قدرت سے پیدا کیا ہے، اپنی عزت و جلال اور عدل و قسط سے اس کا نام اپنے نام سے مشتق کیا ہے، اسے اپنی تربیت میں پروان چڑھایا ہے اور تبلیغ دین کی ذمہ داری اس کے سپرد کی ہے، اپنے علم وجودی کے راز اس کے لیے عیاں کیے ہیں، یہ میرے گھر میں پیدا ہوا ہے، یہ پہلا شخص ہوگا جو اس گھر کی چھت پر اذان دے گا، بتوں کو توڑے گا، صرف مجھے سجدہ کرے گا اور میری ہی تسبیح و تحلیل کرے گا، یہ میرے حبیب محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله کے بعد امام و ان کا وصی ہوگا، خوش نصیب ہے وہ شخص جو اس سے محبت کرے اور اس کی نصرت کرے اور ہلاکت ہے اس کے  لیے جو اس کی مخالفت کرے گا اور اس سے کینہ اور دشمنی رکھے گا۔

روای کہتا ہے کہ ابوطالب علیہ‌السلام جب اپنے بیٹے کو دیکھنے آئے تو وہ بےپناہ خوش تھے، اس وقت نومولود بچے نے کہا:السلام علیک یا ابتاه و رحمة الله و برکاته (سلام و درود پر آپ پر اے بابا)

جب رسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله تشریف لائے تو امیرالمؤمنین علیہ‌السلام  مسکرا کر آپؐ کے چہرے کی طرف متوجہ ہوئے اور عرض کیا:
"السلام علیک یا رسول الله و رحمة الله و برکاته۔”

پھر باذنِ خدا سے یہ آیات تلاوت فرامائیں:
قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ * الَّذِينَ هُمْ فِي صَلاتِهِمْ خَاشِعُونَ
(یقیناً ایمان والے کامیاب ہوئے، جو اپنی نمازوں میں خشوع و خضوع اختیار کرتے ہیں۔)

یہاں تک کہ پورے سورۂ مومنون کی تلاوت فرمائی۔

رسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله نے فرمایا:
"مؤمنین آپ کے واسطے سے کامیاب ہوئے، اس کے بعد آپؐ نے بھی سب آیتیں تلاوت فرمائیں؛ أُوْلَئِكَ هُمْ الْوَارِثُونَ* الَّذِينَ يَرِثُونَ الْفِرْدَوْسَ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ
(درحقیقت یہی وہ وارثان هجنتّ ہیں، جو فردوس کے وارث بنیں گے اور اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں)
اس کے بعد رسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله نے فرمایا: خدا کی قسم آپ ان جنت کے  وارثوں کے امیر ہیں، اپنے علوم سے انہیں روشن کریں گے اور آپ ان کے ہادی اور رہنما ہیں۔

پھر نبی اکرم صلى‌الله‌عليه‌وآله نے فاطمہ بنت اسد کو حکم دیا کہ جائیے اور اپنے چچا حمزہ علیہ‌السلام کو یہ خوش خبری دیجئے۔

 فاطمہ نے عرض کیا:یا رسول الله! اگر میں چلی جاؤں گی تو اسے دودھ کون پلائے گا؟
آپ نے فرمایا:میں اسے سیراب کروں گا
فاطمہ بنت اسد نے کہا: آپ سیراب کریں گے؟
رسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله نے فرمایا: جی ہاں

پھر آپ نے اپنی زبانِ مبارک علی علیہ‌السلام کے دہن میں رکھی تو وہاں سے بارہ چشمے جاری ہوئے،اسی لیے اس دن کو "یوم الترویہ” کہا گیا ہے۔

فاطمہ بنت اسد واپس آئیں تو دیکھا امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کے وجود مبارک سے نور کی شعاعیں نکل رہی ہیں جو آسمان کی بلندیوں تک جا رہی ہیں۔

امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی ولادت مبارک تیرہ رجب المرجب سن تیس عام الفیل بروز جمعہ ہوئی یعنی رسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله کی ولادت باسعادت کے تیس سال بعد۔

مزید مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے