سب سے زیادہ تلاش کیا گیا:

امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی مرقد مطہر (حصہ دوم)

امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی ضریح مطہر (حصہ دوم)

حرم مقدس امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی تاریخ نہایت قدیم ہے، تاریخ کے مختلف ادوار میں آپ کے چاہنے والوں نے اس حرم مقدس کی تعمیر، مرمت اور تزئین و آرائش کے ذریعے ہمیشہ اپنی عقیدت کا اظہار کیا ہے۔

حرم مقدس امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی تاریخ نہایت قدیمی ہے، تاریخ کے مختلف ادوار میں آپ کے چاہنے والوں نے اس حرم مقدس کی تعمیر، مرمت اور تزئین و آرائش کے ذریعے ہمیشہ اپنی عقیدت کا اظہار کیا ہے۔

اگر یہ کہا جائے کہ حرم مقدس امیرالمؤمنین علیہ‌السلام زمین پر جنت کا ایک ٹکڑا ہے، تو یہ کوئی مبالغہ نہیں ہوگا، اس جنت نشاں مقام کی تاریخ اور شان میں ہم اس تحریر کو کئی حصوں میں تفصیل سے پیش کریں گے، تحریر کے دوسرے حصے میں حرم مقدس کے دروازوں اور امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی ضریح مقدس کی جالیوں کے بارے میں گفتگو کریں گے۔

سونے کے دروازوں کا نصب کیا جانا

حرم مقدس امیرالمؤمنین علیہ‌السلام  کے دروازے پہلے سونے کے نہیں تھے،حرم مبارک کا کمرہ چوکور ہے اور اس میں چار داخلی راستے ہیں، شمالی اور مشرقی داخلی دروازے چاندی کے تھے،جنوب کی طرف دو پٹ والا لوہے کا ایک دروازہ تھا،جبکہ مغربی طرف، جہاں امیرالمؤمنین علیہ‌السلام  کا سرِ اقدس ہے، مکمل طور پر لوہے کی جالی سے بند تھا اور وہاں کوئی دروازہ نہیں تھا۔

لاکھوں زائرین کی آمد، خاص طور پر امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی مخصوص زیارت کے موقع پر،ضروری ہو گیا کہ مزید داخلی راستے بنائے جائیں اور کچھ اور دروازے بنائے جائیں، اسی مقصد کے تحت آٹھ دروازے بنائے گئے۔

سب سے پہلے حرم مقدس کا مشرقی دروازہ تبدیل کیا گیا جو داخل ہونے کا مرکزی راستہ سمجھا جاتا ہے اور حضرت کی پائینتی کی طرف ہے، الحاج محمد تقی اتفاق تہرانی نے سید محمد کلانتر کی کوششوں سے یہ دروازہ تحفے میں دیا، جسے 1376 ہجری (1956ء) میں نصب کیا گیا۔

اس دروازے پر قصائد لکھے ہوئے ہیں جن میں اس کے نصب کرنے کی تاریخ ذکر ہے،یہ قصائد سید موسی بحر العلوم کے ہیں، پہلا قصیدہ دروازے کی دائیں جانب اور دوسرا بائیں جانب لکھا ہوا ہے۔

حرم مقدس کا شمالی دروازہ بھی ایران میں بنایا گیا اور 1432 ہجری (2011ء) میں حرم مقدس کی انتظامیہ نے اسے نصب کیا،ایک سال بعد شیخ جابر جدی کے بیٹے الحاج محسن معین نے مغربی اور جنوبی داخلی دروازے تحفے میں دیے جنہیں 1433 ہجری (2012ء) میں نصب کیا گیا۔

مغربی دروازوں کے فریموں پر سید رضا الہندی کے مشہور قصیدہ الکوثریہ کے کچھ اشعار درج ہیں جبکہ حرم مقدس کے جنوبی دروازوں کے فریموں پر شاعر اہلبیت علیہم‌السلام  سید منعم الفرطوسی کے اشعار لکھے ہوئے ہیں۔

امیرالمؤمنین علیہ‌السلام  کی ضریح مقدس کی جالی

امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی ضریح مقدس کی یہ جالی اسلامی فن کا ایک عظیم شاہکار اور نایاب تحفہ ہے جس کی نظیر نہیں ملتی، اس کی مادی قدر سے ہٹ کر یہ سونے اور چاندی کے کام کی معراج کی حیثیت رکھتی ہے۔

موجودہ جالی بوہرہ برادری کے روحانی پیشوا سید طاہر سیف الدین نے تحفہ میں پیش کی تھی، اس جالی کی تیاری کا کام 1941 عیسوی میں ہندوستان میں مکمل ہوا اور اسے 13 رجب 1361 ہجری بمطابق 1942 عیسوی میں نصب کر کے باقاعدہ رونمائی کی گئی۔

یہ جالی  دو اہم حصوں پر مشتمل ہے؛ پہلا حصہ چاندی کی بنی ہوئی جالی  پر مشتمل ہے جبکہ دوسرا حصہ اس کے اوپر نصب سونے کا تاج ہے، زمین سے لے کر سونے کے تاج کی چوٹی تک ضریح مقدس کی کل اونچائی تقریباً چار میٹر ہے جبکہ اس کی لمبائی چھ میٹر اور چوڑائی پانچ میٹر ہے۔

چاندی کی بنی ہوئی جالی  اٹھارہ خانوں پر مشتمل ہے جن میں سے ایک دروازے کا کام دیتا ہے، ان خانوں کے درمیان سونے کے ملمع سے ڈھکے ہوئے ستون ہیں جن پر پھول، پتیوں اور ابھرے ہوئی انگور کی بیلوں کے نفیس نقش و نگار ہیں،کونوں کے ستون سونے اور سرخ یاقوت سے مزین ہیں،چاندی کی جالی پر ایک چاندی کا طغریٰ نصب ہے جس پر ابن ابی الحدید کے قصیدہ عینیہ کے سترہ اشعار کندہ ہیں۔

چاندی کی جالی اور چاندی کے طغرے کے اوپر نصب سونے کا تاج تین پٹیوں یا حصوں پر مشتمل ہے جن پر قرآن کریم کے سورے اور امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی فضیلت میں رسول اللہ صلی‌الله‌علیہ‌وآلہ کی احادیث کندہ ہیں،تاج پر پھولوں اور پتیوں کے نفیس نقش و نگار بنے ہوئے ہیں، خصوصاً انگور کی بیلوں اور سونے کے پھولوں کی شکل میں جن میں سے ہر ایک پر اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ میں سے ایک نام کندہ ہے، تاج کے چاروں اطراف سونے کی قندیلیں اور چھوٹے تاج نصب ہیں، اس کے علاوہ تاج کے ہر کونے پر خالص سونے کے بنے ہوئے چار انار نصب ہیں۔

بہت سے شعراء نے اس جالی  کے نصب کئے جانے کے موقع پر قصائد لکھے جن میں سید علی ہاشمی کا نام خصوصیت سے قابل ذکر ہے۔

سنہ 2003 عیسوی کے بعد بوہرہ برادری کے افراد اور حرم مقدس کی انتظامیہ کی نگرانی میں ضریح مقدس کی جالی  کے متعدد حصوں کی تجدید و مرمت کی گئی، انہیں اقدامات میں سنہ 1426 ہجری بمطابق 2005 عیسوی میں ضریح مقدس پر دوبارہ سونے کا کام کیا گیا۔

اسی سلسلے میں ضریح مقدس کی جالیوں پر سونے کا کام ہوا، تاج کی کندہ کاری پر دوبارہ نقش و نگار بنائے گئے اور سونے کے پھولوں پر کندہ اسماء حسنیٰ کو سرخ یاقوت سے مزین کیا گیا نیز ضریح مقدس کے چاروں کونوں کے چاندی کے ستونوں پر خالص سونا چڑھایا گیا، یہ سب کام 5 شعبان 1427 ہجری بمطابق 2006 عیسوی میں مکمل ہوئے۔

سنہ 2009 عیسوی میں ضریح مقدس کے کونوں کے لیے نئے ستون تیار ہوئے جو سونے اور چاندی سے بنے تھے اور جن میں فنکارانہ خوبصورتی اور قیمتی پتھروں کے استعمال کے لحاظ سے منفرد خصوصیات پائی جاتی ہیں ۔

اسی طرح سنہ 2011 عیسوی میں امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی ضریح مقدس کا دروازہ تبدیل کیا گیا جبکہ پرانا دروازہ حرم مقدس کے خزانے میں منتقل کر دیا گیا۔

سنہ 2016 عیسوی میں امیرالمؤمنین علیہ‌السلام  کی ضریح مقدس کے بیس ستونوں کو سونے سے ملمع شدہ چاندی کے نئے ستونوں سے بدلا گیا اور ضریح مقدس کو سہارا دینے والی اصلی ساگوان لکڑی کی مرمت کی گئی، اس کے بعد سنہ 2017 عیسوی میں ایک بار پھر ضریح مقدس کی تجدید و مرمت کا کام انجام دیا گیا۔

ضریح مقدس امیرالمؤمنین علیہ‌السلام  کی جالی  کی منفرد خصوصیات

مشہور ہے کہ تمام مقدس مقامات میں امیرالمؤمنین علیہ‌السلام  کی ضریح کی جالی سب سے زیادہ قیمتی اور شاندار شمار ہوتی ہے، اس جالی  کی تیاری اور اس کی اہم فنی و فنکارانہ خصوصیات بشمول اس کی شکل و صورت، نقش و نگار اور تحریری نقوش کے بارے میں عبدالہادی ابراہیمی وضاحت کرتے ہیں:

بلا شک و شبہ، الفاظ اس قابل نہیں کہ اس ضریح مقدس کی جالی  کی عظمت کو بیان کر سکیں۔

تاریخی دستاویزات و مصادر کے مطابق، حضرت امیرالمؤمنین علیہ‌السلام  کی ضریح مقدس پر موجودہ جالی  کے علاوہ اب تک پانچ مختلف جالیاں نصب ہو چکی ہیں، پہلی جالی  کا تعلق صفوی دور سے ہے جو لوہے کی تھی،جیسا کہ ہم جانتے ہیں، اس ضریح مقدس کی تعمیر کی بنیاد شاہ عباس اول نے 1023 ہجری (1614ء) میں رکھی اور ان کے بعد ان کے پوتے شاہ صفوی نے اس کی تعمیر مکمل کی۔

اس کے بعد قاجاری دور میں، قاجار خاندان کے بانی محمد شاہ قاجار نے حرم مقدس امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کو چاندی کی ایک جالی  ہدیہ کی، اس طرح لوہے کی جالی ہٹا کر چاندی کی جالی نصب کی گئی، یہ 1211 ہجری (1796ء) میں انجام پایا، اس کے بعد عباس قلی خان کی جالی آئی اور پھر چوتھی جالی سید محمد شیرازی کی جانب سے ناصر الدین شاہ قاجار کے دور میں ہدیہ کی گئی، جسے 1298 ہجری (1881ء) میں نصب کیا گیا۔

موجودہ جالی ، جو سید محمد شیرازی کی ہدیہ کردہ جالی  کی جگہ نصب کی گئی ہے، اپنی ساخت، استعمال ہونے والے سونے، پھولوں اور پتیوں کے نقوش اور نفیس تحریروں کے اعتبار سے تمام مقدس مقامات میں سب سے خوبصورت اور قیمتی جالی سمجھی جاتی ہے،یہ ہندوستان کی بوہرہ برادری کے سربراہ طاہر سیف الدین کا تحفہ ہے، جسے 1361 ہجری (1942ء) میں نصب کیا گیا، اس جالی  کی افتتاحی تقریب، جو 13 رجب کو امیرالمؤمنین علیہ‌السلام  کے یوم ولادت با سعادت کے موقع پر منعقد ہوئی، میں اس وقت کے عراقی وزیر اعظم نوری سعید بھی موجود تھے اور چابی سید عباس کلیددار الرفیعی کے حوالے کی گئی۔

اس دور کے شعراء نے اپنے اشعار میں اس جالی  کے نصب ہونے کے سال کو یادگار قرار دیا، انہیں شعراء میں سید علی ہاشمی بھی شامل ہیں جنہوں نے ایک قصیدہ لکھ کر جالی کی تعمیر کے سال کو تاریخ میں محفوظ کر لیا۔

ضریح مقدس امیرالمؤمنین علیہ‌السلام  کی جالی کے اہم حصے

ضریح مقدس امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی جالی  دو اہم حصوں پر مشتمل ہے؛ نیچے چاندی کی جالی اور اوپر سونے کا تاج، چاندی کی جالی میں اٹھارہ خانے اور دو دروازے ہیں جو ضریح کے جنوبی رخ پر واقع ہیں۔

جالی کے درمیان سونے کے پانی چڑھے ہوئے ستون ہیں، نیز جالی  کے چاروں اہم کونوں پر چار ستون نصب ہیں،ان ستونوں پر پھولوں اور پتیوں اور خاص طور پر انگور کے خوشوں کی نفیس نقاشی کی گئی ہے،ہر ستون کے اوپر قرآنی آیت "وَھُوَ العَلِیُّ العَظِیم" کندہ ہے،ستونوں کے نیچے "یا علی .. یا علی .. یا علی" کی عبارت درج ہے، یہ تحریریں مرصع کاری کے ساتھ سرخ یاقوت سے آراستہ ہیں۔

اس کے علاوہ ہر جالی کے دونوں جانب ایک خوبصورت حاشیہ بنایا گیا ہے جس کے درمیان "یا علی" کی عبارت کندہ ہے، یہ خط امیرالمؤمنین علیہ‌السلام  سے منسوب ایک قلمی نسخہ سے اخذ کیا گیا ہے جو "مدرسہ غروی” کے قلمی نسخوں کے خزانہ میں محفوظ ہے، اس کی تاریخ 40 ہجری بتائی جاتی ہے،اس قلمی نسخہ کے آخر میں علی بن ابی طالب کا دستخط مبارک ہے، خط کی ساخت کو اس کی اصلی حالت میں برقرار رکھتے ہوئے نقل کیا گیا اور حال ہی میں ستونوں کے ان حصوں پر نسخہ برداری کیا گیا ہے۔

ضریح مقدس امیرالمؤمنین علیہ‌السلام  کی تحریری پٹیاں

ضریح مقدس کی جالی کے اوپر ایک تحریری پٹی نصب ہے جس پر ابن ابی الحدید کے قصیدۂ عینیہ کے اشعار کندہ ہیں جبکہ سونے کے تاج پر تین تحریری پٹیاں موجود ہیں،اوپر اور نیچے والی پٹیوں پر قرآن مجید کی آیات کندہ ہیں جبکہ درمیانی پٹی پر حضرت علی علیہ‌السلام  کے فضائل میں رسول اللہ صلی‌الله‌علیه‌وآله کی احادیث نقش ہیں۔

 اس جالی  کے دستاویزی ثبوت میں ایک قابل ذکر پہلوطاہر سیف الدین کا نام ہے، جو نیچے والی سنہری پٹی کے جنوب مغربی سرے پر درج ہے۔

یہ جالی  جالیاں بنانے کے فن کا اعلیٰ ترین نمونہ ہے، اس جالی  کے اوپر سونے کا ایک چھوٹا تاج نصب ہے،اس حصے میں سونے کے پھول بنائے گئے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ لکھے ہوئے ہیں، ہر نام سے پہلے "یا” کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔

اسمائے حسنیٰ کا سلسلہ حضرت کے سر مبارک کی جانب سے شروع ہوتا ہے، جن میں "یا اللہ”، "یا رب”، "یا رحمن”، "یا رحیم” جیسے نام شامل ہیں۔ ضریح شریف کے ہر کونے پر سونے کے خوبصورت گلدستے بنائے گئے ہیں جو اپنے فن کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

بعثی حکومت کے دور میں اس جالی کو شدید غفلت کا سامنا رہا اور اسے کافی نقصان پہنچا، چاندی کی جالی میں دراڑیں پڑ گئیں اور سوراخ ہو گئے،اس کے علاوہ 1991ء کے شعبانیہ انتفاضہ کے دوران حرم مقدس، جالی  اور صندوق خاتم تک کو بموں کے چھرے بھی لگے جس سے کافی نقصان ہوا۔

لہٰذا 2003ء میں بعثی حکومت کے زوال کے بعد ضریح مقدس کی جالی پر متعدد مرمتی، تجدید اور طلاکاری کے کام ہوئے،ان میں سے آخری کام حرم  مقدس امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی نگرانی میں 1438 ہجری (2017ء) میں ضریح شریف کی جالی  کی مکمل تجدید و مرمت تھی۔

 

جاری۔۔۔

مزید مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے