سب سے زیادہ تلاش کیا گیا:

امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کے بارے میں علماء و دینی شخصیات کے اقوال

امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کے بارے میں علماء و اہم شخصیات کے اقوال

امیرالمؤمنین علیہ‌السلام ایسی عظیم منزلت اور بلند مقام کے حامل ہیں کہ نہ صرف شیعہ و اہلسنت کے علماء اور بزرگان نے بلکہ صدر اسلام کی اہم شخصیات نے بھی آپ کے فضائل بیان کیے ہیں۔

امیرالمؤمنین علیہ‌السلام ایسی عظیم منزلت اور بلند مقام کے حامل ہیں کہ نہ صرف شیعہ و اہلسنت علماء اور بزرگان نے بلکہ صدر اسلام کی اہم شخصیات نے بھی آپ کے فضائل بیان کیے ہیں۔

امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کا مقام اس قدر بلند و بالا ہے کہ خود رسول اکرم صلی‌الله‌علیه‌وآله نے آپ کے بارے میں بے شمار ارشادات فرمائے ہیں اور اس کے بعد اسلامی شخصیات، فقہاء اور علماء نے بھی آپ کی عظمت پر روشنی ڈالی ہے ۔

ذیل میں صدر اسلام کی چند اہم  شخصیات کے اقوال کا ذکر کیا جاتا ہے:

  • سلمان المحمدی: امیرالمؤمنین علیہ‌السلام درحقیقت اس زمین کے عالم اور دانا، اعتماد کا مرکز اور اطمینان کا سہارا ہیں۔
  • مقداد بن اسود کندی: میں نے اس خاندان میں رسول اکرم صلی‌الله‌علیه‌وآله کے بعد، علی علیہ‌السلام جیسا کسی کو نہیں پایا۔ حیرت ہے کہ قریش نے اتنے پاک و وارستہ انسان کو چھوڑ دیا؛ وہ شخصیت کہ جس کے بارے میں زبان وصف سے قاصر ہے، جنہوں نے کبھی عدل و انصاف کے بغیر اقدام نہیں کیا۔
  • صعصعة بن صوحان: اے امیرالمؤمنین علیہ‌السلام! خدا کی قسم میں نے آپ جیسا عالم کسی کو نہیں پایا جو اس قدر ذاتِ خدا کا عارف ہو، خدا آپ کی نظر میں عظیم ہے ،آپ قرآن مجید میں عَلِیٌّ عَظِیْم ہیں، اور مؤمنوں کے لیے سراپا رحمت و شفقت ہیں۔
  • ابن عباس: علم کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، ان میں سے چار حصے علی علیہ‌السلام کے پاس ہیں، باقی ایک حصہ تمام لوگوں کے درمیان تقسیم کیا ہے،حتیٰ پانچویں حصے میں بھی علی علیہ‌السلام شریک ہیں اور سب سے افضل اور سب سے زیادہ عالم ہیں۔
  • ام سلمہ: خدا کی قسم! علی علیہ‌السلام کل بھی حق پر تھے، آج بھی حق پر ہیں اور ہمیشہ حق علی علیہ‌السلام کے ساتھ رہے گا، یہ حق، خدا کی طرف سے ان کے لیے لکھا اور مقرر کیا گیا ہے۔
  • ابوبکر: ابوبکر کچھ دوسرے صحابہ کے ساتھ بیٹھے تھے کہ علی علیہ‌السلام دور سے آتے دکھائی دیے، ابوبکر نے کہا: جو سب سے برگزیدہ، پاکیزہ، مقرب اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ سے نزدیک ترین ہستی کو دیکھنا چاہتا ہے، وہ اس چہرے (چہرۂ علی علیہ‌السلام) کو دیکھ لے۔
  • عائشہ: جمیع بن عمر سے منقول ہے کہ ان کی والدہ اور دو خالائیں عائشہ کے پاس گئی اور ان سے پوچھا: اے ام المؤمنین ہمیں علی علیہ‌السلام کے بارے بتائیے، انہوں نے کہا: اس شخصیت  کے بارے میں کیا جاننا چاہو گی جس نے رسول اکرم صلی‌الله‌علیه‌وآله کا ہاتھ تھاما، اپنی جان کو حضورؐ پر فدا کیا، اور تبرک حاصل کرنے کے لیے ان کے دست مبارک کو اپنے چہرے پر مس کیا ۔

                 انہوں نے سوال کیا: پھر آپ ان کے مقابلہ میں میدان میں کیوں آئیں؟

                  عائشہ نے جواب دیا: بس ہو گیا ورنہ میرا تو دل چاہتا تھا پوری زمین ان کے قدموں پر نچھاور کر دوں۔

  • عمر بن خطاب : عمرو بن میمون نقل کرتے ہیں کہ جب خلیفہ دوم کو ضرب لگی تو انہیں ’’شورا‘‘ کا واقعہ یاد آ گیا، جب لوگ ان کے پاس سے جانے لگے تو عمر نے کہا کہ علی ان کے امام بن جائیں تو تمہیں صراط مستقیم پر لے آئیں گے،
  •  ایک اور موقع پر  عمر نے کہا: یا علی! آپ کچھ کہیں کہ آپ ہی سب سے زیادہ عالم اور افضل ہیں۔
  • ابن ابی الحدید معتزلی: میں کس طرح اس ہستی کی تعریف کروں کہ یہود و نصاریٰ اور دیگر ادیان کے ماننے والے بھی ان سے محبت کرتے ہیں چاہے وہ پیغبر صلی‌الله‌علیه‌وآله کی نبوت کو نہ بھی مانتے ہوں، فلاسفہ ان کی تعظیم کرتے ہیں چاہے وہ شریعت کا انکار ہی کیوں نہ کرتے ہوں، حتیٰ روم و یورپ کے سلاطین ان کی تصویر اپنے معابد اور دستاویزات میں محفوظ رکھتے ہیں،
  • ایک اور جگہ پر ابن ابی الحدید کہتے ہیں: زہد اور پرہیزگاری میں وہ یکتا تھے، عرفان کی اعلی ترین منازل پر فائز تھے،اسی طرح سب کی نظر میں قابل اعتماد ہیں، دنیا کے مال و متاع سے بے نیاز، کبھی پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھاتے تھے ، ان کا لباس و خوراک نہایت سادہ تھی۔
  • ابوالحسن علیُّ المسعودی(وفات 346 هـ): امیرالمؤمنین علیہ‌السلام نے  اپنی خلافت کے زمانے میں کبھی نیا لباس نہیں پہنا، جو خریدتے اس میں سے ایک حصہ صدقہ دے دیتے، آپ نے 480 خطبات دیے ہیں جو سب کے سب اسی وقت دیے(پہلے سے تیاری نہیں کی) اور لوگوں نے انہیں یاد کرکے آگے منتقل کیا۔
  • عمر بن عبدالعزیز: اس امت میں رسول اکرم صلی‌الله‌علیه‌وآله کے بعد کوئی علی علیہ‌السلام کی مانند زاہد اور پرہیزگار نہیں ہوا۔
  • العقاد (مصنف): خلفاء میں سے کوئی بھی دنیاوی مناصب اور لذتوں کے مقابلے میں علی علیہ‌السلام کی مانند زاہد و پرہیزگار نہیں تھا،وہ جو کی روٹی کھاتے اور حضرت فاطمہ سلام‌الله‌علیها خود گندم پیستی تھیں، علی علیہ‌السلام آٹے کی بوری کو باندھ دیتے تاکہ کوئی حرام چیز اس میں شامل نہ ہونے پائے، آپ فرمایا کرتے تھے: میں نہیں چاہتا کہ میرے پیٹ میں کوئی ایسی چیز داخل ہو جس کا مجھے علم نہ ہو۔

مزید مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے