سب سے زیادہ تلاش کیا گیا:

مولود کعبہ کے بارے میں اہلسنت علماء کے اقوال

مولود کعبہ کے بارے میں اہلسنت علماء کے اقوال

 امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی خانہ کعبہ میں ولادت ایسا کرامت آمیز واقعہ ہے جو نہ ان سے پہلے کسی کو نصیب ہوا اور نہ ان کے بعد کسی کو حاصل ہوا، یہ بات علمائے اہل سنت نے شیعوں سے پہلے تسلیم کی ہے۔

 امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی خانہ کعبہ میں ولادت ایسا کرامت آمیز واقعہ ہے جو نہ ان سے پہلے کسی کو نصیب ہوا اور نہ ان کے بعد کسی کو حاصل ہوا، یہ بات علمائے اہلسنت نے شیعوں سے پہلے تسلیم کی ہے۔

مندرجہ ذیل اقوال اہل سنت علماء کے اقوال کا ایک مختصر نمونہ ہیں جو امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی ولادت کو خانہ کعبہ میں ثابت کرتے ہیں اور ان کے خاص اور بے مثال فضائل کی نشاندہی کرتے ہیں:

فاكہي (وفات ۲۷۵ھ ق) نے اپنی کتاب ’’ أخبار مَكة ‘‘ میں لکھا ہے: پہلا شخص جو مولود کعبہ ہے، علی بن ابی‌طالب علیہ‌السلام ہیں جو بنی ہاشم اور مهاجرین سے ہیں۔(۱)

قفّال شاشی شافعی (وفات ۳۶۵ھ ق) نے اپنی کتاب ’’فضائل أميرالمؤمنین‘‘ میں فرمایا: کعبہ میں کسی اور کی ولادت نہیں ہوئی، صرف علی علیہ‌السلام کی ولادت ہوئی۔(۲)

حاکم نیشابوری (وفات ۴۰۵ھ ق)، جو اہل سنت کے معتبر عالم ہیں، اپنی مشہور کتاب ’’ المستدرک علی الصحیحین ‘‘ میں لکھتے ہیں: روایات متواتر ہیں کہ فاطمہ بنت اسد نے امیرالمؤمنین علی بن ابی‌طالب کرّم الله وجهہ کو کعبہ میں پیدا کیا۔(۳)

علامہ بستی معتزلی (وفات ۴۲۰ھ ق) نے اپنی کتاب ’’ المراتب ‘‘ میں لکھا ہے: وہ مسجد میں تمام نماز گزاروں کے درمیان ایک خصوصیت رکھتے ہیں جو کسی اور میں نہیں، اور وہ یہ ہے کہ وہ مولود کعبہ ہیں۔(۴)

ابن مغازلی مالکی (وفات ۴۸۳ھ ق) نے امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی ولادت کے خانۂ کعبہ میں ہونے کی تصدیق کی ہے اور اس پورے واقعے کو نقل کیا ہے۔(۵)

ابن شجاع موصلی شامی (وفات ۶۴۶ھ ق) نے اپنی کتاب ’’ نّعيمُ المُقيم ‘‘ میں کہا: وہ کعبہ معظمہ میں پیدا ہوئے جہاں اب تک کسی اور کی ولادت نہیں ہوئی۔(۶)

سبط ابن جوزی حنفی (وفات ۶۵۴ھ ق) نے اپنی کتاب ’’ تذكرة الخواص ‘‘ میں فرمایا: حضرت علی علیہ‌السلام کعبہ کے اندر پیدا ہوئے۔(۷)

علّامه جوینی شافعی (وفات ۷۳۰ھ ق) نے اپنی کتاب ’’ فرايد السمطين ‘‘ میں لکھا ہے: کعبہ میں صرف علی علیہ‌السلام کی ولادت ہوئی ہے۔(۸)

ذہبی (وفات ۸۴۸ھ ق) نے اس واقعہ کی تصدیق کی اور حاکم نیشابوری کی متواتر روایت کو نقل کیا۔(۹)

دیار بکری (وفات ۹۸۲ھ ق) نے اپنی کتاب ’’ تاریخ الخمیس ‘‘ میں لکھا: علی بن ابی‌طالب علیہ‌السلام رسول اکرم صلی‌الله‌علیه‌وآله کی ولادت کے تیس سال بعد کعبہ میں پیدا ہوئے۔(۱۰)

علی قاری حنفی (وفات ۱۰۱۴ھ ق) نے حکیم بن حزام کے دعوے کا ذکر کرتے ہوئے کہا: کسی کو مولود کعبہ نہیں مانا جاتا سوائے حضرت امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کے۔(۱۱)

برهان الدین حلبی شافعی (وفات ۱۰۴۴ھ ق) نے اپنی کتاب ’’ سیرت سيرة الحلبيه ‘‘ میں دو مقامات پر خانۂ کعبہ میں امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی ولادت کو ثابت کیا۔(۱۲)

شاه ولی اللہ دہلوی حنفی (وفات ۱۱۷۶ھ ق) نے اپنی کتاب ’’ إزالة الخفاء ‘‘ میں صاف لکھا ہے: متواتر اقوال و روایات کے مطابق فاطمہ بنت اسد نے حضرت امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کو کعبہ کے اندر پیدا کیا… اور نہ ان سے پہلے اور نہ بعد میں کسی کو اس مقام میں ولادت کا شرف حاصل ہوا۔(۱۳)

علامہ آلوسی، مفسر و ادیب شافعی، نے شاعر حنفی عبدالباقی عمری کے اس شعر کی تشریح کرتے ہوئے کہا:
تو وہ علی ہے جو بلند مرتبہ ہے،
جو کعبہ بیت اللہ میں پیدا ہوا۔

آلوسی کہتے ہیں: خانۂ کعبہ میں امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی ولادت ایک مشہور اور معروف حقیقت ہے جو تمام دنیا میں اہل سنت و شیعہ کی کتابوں میں بیان ہوئی ہے اور اس پر زور دیا گیا ہے، ان کی کرامات اور فضائل بے مثال ہیں اور ان کے مقام کی عظمت بیان سے باہر ہے۔ وہ امام اور تمام اماموں کے سرور ہیں اور ہر مؤمن کے لیے قبله ہیں، پاک و منزہ ہے وہ ذات جو تمام امور کو ان کی صحیح جگہ پر رکھتی ہے۔(۱۴)

ابن فتال نے ’’ روضہ الواعظین ‘‘ ، علامہ حلی نے ’’ کشف الیقین ‘‘ اور ’’ کشف الحق ‘‘ نیز ابومحمد حسن دیلمی نے ’’ بشارة المصطفی ‘‘ میں یہ واقعہ نقل کیا ہے۔(۱۵)

محمد صالح ترمذی نے اپنی کتاب ’’ مناقب مرتضوی ‘‘ میں اس کا مختصر ذکر کیا۔(۱۶)

شیخ صدوق (وفات ۳۸۱ھ ق) نے اس واقعہ کو ’’الأمالی، علل الشرائع اور معانی الأخبار‘‘ میں بیان کیا ہے۔(۱۷)

علامہ امینی نے بھی اپنی گرانقدر کتاب ’’الغدیر‘‘ میں اہل سنت و شیعہ کتابوں کا ذکر کیا ہے اور ان کی آراء کو نقل کیا نیز شاعروں کے اشعار لکھے ہیں جو اس واقعہ کی تصدیق کرتے ہیں۔

 

 

 

مأخذ

۱- «مروج الذهب ۲»، ص ۲، تأليف أبوالحسن المسعودي الهذلي.

۲-«الفصول المهمة»، ص ۱۴، تأليف إبن الصباغ المالكي.

۳-«السيرة النبوية ۱»، ص ۱۵۰، تأليف نورالدين علي الحنبلي الشافعي.

۴-«شرح الشفا ج ۱»، ص ،۱۵۱ تأليف الشيخ علی القارئ الحنفي.

۵-«مطالب السؤول»، ص ۱۱، تأليف أبي سالم محمد بن طلحة الشافعي.

۶-«محاضرة الأوائل»، ص ۱۲۰، تأليف الشيخ علاء الدين السكتواري.

۷-«مفتاح النجاة في مناقب آل العبا»، تأليف ميرزا محمد البدخشي.

۸-«المناقب»، تأليف الأمير محمد صالح الترمذي.

۹- «نزهة المجالس ۲ »، ص ۲۰۴، تأليف عبدالرحمن الصفوي الشافعي.

۱۰-«روائح المصطفی»، ص ۱۰، تأليف صدرالدين أحمد البردواني.

۱۱-«كتاب الحسين ۱»، ص ۱۶، السيد علی جلال‌الدين.

۱۲-«نور الأبصار»، ص ۷۶ ، تأليف السيد محمد مؤمن الشبلنجي.

۱۳-«كفاية الطالب»، ص ۳۷، تأليف الشيخ حبيب الله الشنقيطي.

مزید مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے