امیرالمؤمنین علیہالسلام کی یثرب یعنی مدینہ منورہ کی طرف ہجرت اسلامی تاریخ کے اہم ترین واقعات میں سے ایک ہے، تاریخ کے مطابق اگر آپ کی بہادری اور دلیری نہ ہوتی تو رسولِ خدا صلیاللہعلیہوآلہ کو بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا۔
ہجرت کے وقت امیرالمؤمنین علیہالسلام کی فداکاری اور دلیری کی ایک حسین مثال آپ کا رسول خدا صلیاللهعلیهوآله کے بستر پر سونا ہے
اربلی لکھتے ہیں(۱) کہ جب خدا نے اپنے حبیب صلیاللهعلیہوآلہ کو قریش کی چالوں سے آگاہ کیا تو جبرئیلؑ یہ آیۂ مبارکہ لے کر نازل ہوئے
وَإِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِيُثْبِتُوكَ أَوْ يَقْتُلُوكَ أَوْ يُخْرِجُوكَ وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللَّهُ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ(۲)
(اور پیغمبر آپ اس وقت کو یاد کریں جب کفار تدبیریں کرتے تھے کہ آپ کو قید کرلیں یا شہر بدر کردیں یا قتل کردیں اور ان کی تدبیروں کے ساتھ خدا بھی اس کے خلاف انتظام کررہا تھا اور وہ بہترین انتظام کرنے والا ہے۔)
اور رسول خدا صلیاللهعلیهوآله کو ہجرت کا حکم دیا گیا،اس موقع پر آپؐ نے امیرالمؤمنین علیہالسلام کو بھی بلایا اور انہیں وحی اور اللہ کے حکم کے بارے میں بتایا کہ خدا نے حکم دیا ہے کہ آپ میرے بستر پر سو جائیے تاکہ میری ہجرت پوشیدہ رہے، اب آپ کیا کہتے ہیں؟
امیرالمؤمنین علیہالسلام نے عرض کیا: یا رسول اللہؐ! کیا میرے بستر پر سونے سے آپ امان میں رہیں گے؟ آپ صلیاللهعلیہوآلہ نے کہا: جی ہاں۔ امیرالمؤمنین علیہالسلام نے تبسم فرمایا اور سجدۂ شکر بجا لائے کیونکہ رسولِ خدا صلیاللهعلیہوآلہ نے انہیں اپنی سلامتی کی خبر سُنا دی تھی۔ راوی کہتا ہے کہ امیرالمؤمنین علیہالسلام پہلے شخص تھے جنہوں نے سجدۂ شکر کیا اور سجدے کے بعد چہرہ زمین پر رکھا۔ جب سر اٹھایا تو رسولِ خدا صلیاللهعلیہوآلہ سے کہا: تشریف لے جائیے اور خدا کے حکم کے مطابق عمل کیجئے، میری جان قربان ہو آپ پر، جو چاہیں حکم کریں، جیسا آپ چائیں گے میں ویسا ہی کروں گا؛ میری کامیابی صرف خدا کی مدد سے ہے۔
رسولِ خدا صلیاللهعلیہوآلہ نے فرمایا : یا علیؑ! خدا اپنے اولیاء کو ان کے ایمان اور تقویٰ کے مطابق آزماتا ہے، اس لیے انبیاء پر آزمائشیں عام لوگوں سے زیادہ ہوتی ہیں، خود انبیاء بھی اپنے مقام و منزلت کے اعتبار سے آزمائیشوں میں مبتلا ہوتے ہیں، میرے بھائی! خدا نے آپ کو بھی آزمائش میں ڈالا ہے اور مجھے آپ کے ذریعہ آزمایا ہے جیسے جناب ابراہیم علیہالسلام کو جناب اسماعیل علیہالسلام کے ذبح کرنے کے ذریعہ آزمایا پس صبر اختیار کیجئے کیونکہ خدا کی رحمت نیک لوگوں کے قریب ہے۔ پھر رسولِ خدا صلیاللهعلیہوآلہ نے امیرالمؤمنین علیہالسلام کو اپنے سینے سے لگایا اور بہت روئے نیز امیرالمؤمنین علیہالسلام بھی رسولِ خدا صلیاللهعلیہوآلہ کی جدائی پر روئے۔
اسی طرح امیرالمؤمنین علیہالسلام وہ عظیم انسان تھے جنہوں نے رسولِ خدا صلیاللهعلیہوآلہ اور ان کی آسمانی رسالت کو ممکنہ خطرات سے محفوظ رکھا۔
جب رسولِ خدا صلیاللهعلیہوآلہ کا خط آپ کو ملا تو آپ ہجرت کے لیے تیار ہو گئے اور آپ کے ساتھ رہ جانے والے کمزور مومنین کو حکم دیا کہ رات کے اندھیرے میں خاموشی سے وادیوں کے راستے ذی طویٰ کی طرف روانہ ہوں،امیرالمؤمنین علیہالسلام نے رسولِ خدا صلیاللهعلیہوآلہ بیٹی فاطمہ زهرا سلاماللهعلیہا، اپنی والدہ فاطمہ بنت اسد بن ہاشم، فاطمہ بنت زبیر بن عبدالمطلب، اور غلامِ رسول خداؐ ایمن بن ام ایمن کو ساتھ لے کر روانہ ہوئے، ابو واقد اونٹوں کا ساربان تھا ، جب اس نے اونٹوں سختی کی تو امیرالمؤمنین علیہالسلام نے فرمایا: نرمی رکھو، جس پر ابو واقد شرمندگی سے معذرت کرنے لگا۔
امیرالمؤمنین علیہالسلام نے فرمایا: اپنی سواری تیز کرو کہ رسولِ خدا صلیاللهعلیہوآلہ نے مجھ سے فرمایا ہے: یا علی! وہ آپ کو نقصان نہیں پہنچا سکتے۔
ضجنان کے نزدیک آپ کا پیچھا کرنے والے کفار آن پہنچے جو سات نقابدار سوار ملے اور آٹھواں حارث بن امیہ کا غلام جناح تھا، امیرالمؤمنین علیہالسلام نے خواتین کو اُتارا اور خود تیز تلوار لیے آگے بڑھے، جب انہوں نے حکم دیا کہ واپس چلو، تو حضرت نے پوچھا: اگر نہیں جاؤں گا تو کیا ہوگا؟
انہوں نے کہا: ہم یا تو آپ کو زبردستی لے جائیں گے یا آپ کا سر لے جائیں گے، آپ کو قتل کرنا بہت آسان ہے۔
اس کے بعد نقاب پوش سوار اونٹوں کی جانب بڑھے تاکہ انہیں ہتھیالیں مگر امیرالمؤمنین علیہالسلام نے اپنے آپ کو ان کے اور انٹوں کے درمیان ڈھال بنا دیا، جب جناح نے تلوار نکالی تو حضرت پھرتی سے اس کے وار سے بچ نکلے اور پھر اس کے کندھے پر ایسا وار کیا کہ تلوار اس کے کندھے کو چیرتی ہوئی زین تک پہنچ گئی پھر حضرت اپنی تلوار سے اُن پر حملہ آور ہوئے اور فرما رہے تھے:
کھولو، راستہ جنگ کرنے والے کا
میں نے قسم کھائی ہے کہ اس واحد ذات کے سوا کسی کی عبادت نہیں کروں گا۔
یہ دیکھتے ہی وہ لوگ یہ کہتے ہوئے بھاگ گئے کہ اے ابو طالب کے بیٹے! ہم سے بچ کر رہنا، حضرت نے فرمایا: میں اپنے چچا زاد، رسولِ خدا صلیاللهعلیہوآلہ کے پاس یثرب جا رہا ہوں، جسے اپنےگوشت کے چتھڑےکروانا اور خون بہانا ہو وہ میرے پیچھے آئے یا میرے قریب آئے۔ پھر آپ نے اپنے دو ساتھیوں کی جانب رخ کیا اور فرمایا: اونٹوں کو ہانکو
پھر وہ ضجنان کے مقام پر قیام کیا اور وہاں ایک رات اور ایک دن ٹھہرے، کچھ معذور مؤمن حضرات جن میں رسول خدا صلیاللہعلیہوآلہ کی کنیز ام ایمن بھی شامل تھی، ان کے ساتھ مل گئے۔ انہوں نے پوری رات نماز و ذکر و عبادت میں مشغول رہے یہاں تک کہ فجر طلوع ہوئی امیرالمؤمنین علیہالسلام نے اُن کے ساتھ نمازِ فجر ادا کی اور پھر روانہ ہوئے۔
ہر منزل پر یہی حالت رہی حتیٰ کہ وہ مدینہ (یثرب) پہنچے،اس سے پہلے ہی اللہ نے امیرالمؤمنین علیہالسلام کی شأن میں وحی نازل فرمائی دی تھی:
إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَمَاتُوا وَهُمْ كُفَّارٌ فَلَن يُقْبَلَ مِنْ أَحَدِهِم مِّلْءُ الْأَرْضِ ذَهَبًا وَلَوِ افْتَدَىٰ بِهِ ۗ أُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ وَمَا لَهُم مِّن نَّاصِرِينَ ﴿٩١﴾لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ ۚ وَمَا تُنفِقُوا مِن شَيْءٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ ﴿٩٢﴾ ۞ كُلُّ الطَّعَامِ كَانَ حِلًّا لِّبَنِي إِسْرَائِيلَ إِلَّا مَا حَرَّمَ إِسْرَائِيلُ عَلَىٰ نَفْسِهِ مِن قَبْلِ أَن تُنَزَّلَ التَّوْرَاةُ ۗ قُلْ فَأْتُوا بِالتَّوْرَاةِ فَاتْلُوهَا إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ﴿٩٣﴾ فَمَنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ مِن بَعْدِ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ﴿٩٤﴾ قُلْ صَدَقَ اللَّهُ ۗ فَاتَّبِعُوا مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ﴿٩۵﴾(۳)
(جن لوگوں نے کفر اختیار کیا اور اسی کفر کی حالت میں مرگئے ان سے ساری زمین بھر کر سونا بھی بطور فدیہ قبول نہیں کیا جائے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے اور ان کا کوئی مددگار نہیں ہے۔
تم نیکی کی منزل تک نہیں پہنچ سکتے جب تک اپنی محبوب چیزوں میں سے راہِ خدا میں انفاق نہ کرو اور جو کچھ بھی انفاق کرو گے خدا اس سے بالکل باخبر ہے۔
بنی اسرائیل کے لئے تمام کھانے حلال تھے سوائے اس کے جسے توریت کے نازل ہونے سے پہلے اسرائیل نے اپنے اوپر ممنوع قرار دے لیا تھا، اب تم توریت کو پڑھو اگر تم اپنے دعوٰی میں سچےّ ہو۔
اس کے بعد جو بھی خدا پر بہتان باندھے گا اس کا شمار ظالمین میں ہوگا۔
پیغمبر آپ کہہ دیجئے کہ خدا سچاّ ہے، تم سب ملّت ابراہیم علیہالسلام کا اتباع کرو وہ باطل سے کنارہ کش تھے اور مشرکین میں سے نہیں تھے۔)
جب رسولِ خدا صلیاللہعلیہوآلہ کو حضرت امیرالمؤمنین علیہالسلام کے آنے کی خبر ملی تو آپؐ نے فرمایا: علی علیہالسلام سے کہو کہ میرے پاس آئیں، لوگوں نے عرض کیا: یا رسولَ اللہؐ! علی علیہالسلام چل نہیں سکتے چلنے ، آپ صلیاللہعلیہوآلہ خود ان کے پاس گئے، انہیں باپ کی طرح سینے سے لگایا اور جب آپؐ نے حضرت کے زخمی پیروں کو دیکھا جن سے خون ٹپک رہا تھا تو اشکبار ہوگئے۔
رسولِ خدا صلیاللہعلیہوآلہ نے حضرت امیرالمؤمنین علیہالسلام سے فرمایا: یا علی! آپ میری امت کے پہلے ہیں شخص ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور سب سے پہلے اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کی اور اپنے رسول کے ساتھ عہد کرنے سب سے آخری شخص بھی آپ ہیں، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، آپ سے وہی محبت کرتا ہے جو مومن ہے جس نے اپنے دل کو ایمان کے لیے آزمایا ہو اور سوائے منافق یا کافر کے کوئی آپ سے دشمنی نہیں کرتا۔(۴)
مأخذ:
[۱] كشف الغمه فی معرفه الائمه علیهمالسلام: ج۱، ص۳۸۷-۳۸۸.
[۲] سوره انفال: آیه ۳۰ .
[۳] سوره آل عمران: آیات ۱۹۱ – ۱۹۵.
[۴] امالی، شیخ طوسی: جلد۲ ، صفحه ۸۳ – ۸۶ ،
دار الثقافه: صفحه ۴۷۲،
مناقب آل ابیطالب: جلد ۱ صفحه ۱۸۳ و۱۸۴، ۵۳،
بحار الانوار: جلد ۱۹ صفحه ۶۴ – ۶۷ و۸۵ ،
کشف الغمه: جلد ۲ صفحه ۳۳.
