امیرالمؤمنین علیہالسلام کی اخلاقی خصوصیات اتنی بلند و جامع ہیں کہ ان کا مکمل بیان کرنا مشکل ہے، حتیٰ اگر کئی کتابیں لکھ دی جائیں تب بھی حق مطلب ادا نہیں ہو سکتا۔ پیغمبر اکرم صلیاللہعلیہوآلہ کا داماد ہونا، مہربانی، امانت داری، عاجزی و تواضع، یہ سب محض ان بے پناہ خصوصیات کے چند قطرے ہیں جن سے ان کا وجود منور تھا۔ اس حصے میں امیرالمؤمنین علیہالسلام کی زندگی کے چند اہم اور نمایاں اخلاقی پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
1۔ داماد پیغمبر صلیاللہعلیہوآلہ
امیرالمؤمنین علیہالسلام اشرف الانبیاء اور خاتم الرسل حضرت محمد مصطفیٰ صلیاللہعلیہوآلہ کے داماد ہیں کیونکہ خداوند متعال نے آسمانوں میں حضرت فاطمہ زہرا سلاماللہعلیہا سے ان کا نکاح کر کے جوڑا۔
خباب بن ارت سے روایت ہے: خداوند متعال نے جببرئیلؑ پر وحی کی: نور کا نور کے ساتھ نکاح کر دیجئے، خداوندعالم ولی و سرپرست تھا، جببرئیلؑ خطیب، میکائیلؑ منادی، اسرافیلؑ داعی، عزرائیلؑ نچھاور کرنے والے اور آسمانوں و زمین کے فرشتے گواہ تھے، پھر شجرۂ طوبی پر وحی کی گئی کہ اپنے جواہر فرشتوں پر نچھاور کرے، جس پر اس نے سفید موتی، یا وہی درّ نجف، سرخ یاقوت، سبز زبرجد اور نم دار موتی نچھاور کیے اور حورالعین کو انہیں جمع کرنے کا حکم دیا گیا۔
2۔ امیرالمؤمنین علیہالسلام کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا تھا
امیرالمؤمنین علیہالسلام کی ایک اہم خصوصیت یہ تھی کہ ان کے گھر کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا تھا یہاں تک کہ جب مسجد النبی صلیاللہعلیہوآلہ میں کھلنے والے سب دروازے بند ہو گئے تب بھی ان کے گھر کا دروازہ کھلا رہا۔
رسول خدا صلیاللہعلیہوآلہ نے خطبہ ارشاد فرمایا جس میں حمد باری تعالی کے بعد فرمایا: اما بعد، مسجد میں کھلنے والے سب دروازے بند کردیں سوائے علی علیہالسلام کے گھر کے دروازے کے جب اس پر اعتراض ہوا تو رسول خدا صلیاللہعلیہوآلہ نے فرمایا: خدا کی قسم میں نے نہ کھولا اور نہ بند کیا، جو کچھ ہوا سب اللہ کے حکم سے ہوا اور میں نے اطاعت کی۔
3۔ امیرالمؤمنین علیہالسلام کے چہرے کو دیکھنا
همام بن منبه نے حجر سے روایت کی ہے کہ میں مکہ آیا، جب ابوذر جندب بن جنادہ وہاں موجود تھے، عمر بن خطاب بھی اس سال مہاجرین و انصار کے گروہ کے ساتھ حج کے لیے آئے تھے، جن میں علی بن ابی طالب علیہالسلام بھی شامل تھے، جب میں مسجد الحرام میں ابوذر کے ساتھ بیٹھا تھا، علی علیہالسلام ہمارے پاس سے گزرے اور نماز کے لیے کھڑے ہوئے، ابوذر ان پر نظریں جمائے ہوئے تھے،میں نے کہا: خدا کی رحمت ہو تم پر ابوذر! تم علی علیہالسلام کو دیکھے جا رہے ہو اور نظریں ہی نہیں ہٹا رہے، ابوذر نے کہا: جی ہاں، کیونکہ میں نے رسول خدا صلیاللہعلیہوآلہ سے سنا ہے کہ آپؐ نے فرمایا: علی علیہالسلام کا چہرہ دیکھنا عبادت ہے۔
4۔ امیرالمؤمنین علیہالسلام سے محبت ایمان کی علامت
امیرالمؤمنین علیہالسلام سے محبت ایمان کی نشانی ہے اور ان سے دشمنی نفاق کی علامت، رسول صلیاللہعلیہوآلہ کے زمانہ میں منافقین صرف امیرالمؤمنین علیہالسلام کی دشمنی کے ذریعے پہچانے جاتے تھے، رسول خدا صلیاللہعلیہوآلہ نے فرمایا: یا علی! تم سے محبت تقویٰ و ایمان کی نشانی ہے اور تم سے دشمنی کفر و نفاق کی علامت ہے۔
ام سلمه سے بھی روایت ہے کہ رسول خدا صلیاللہعلیہوآلہ نے امیرالمؤمنین علیہالسلام سے فرمایا: منافق کبھی آپ کا دوست نہیں ہو گا اور مومن کبھی آپ کا دشمن نہیں ہو سکتا۔
5۔ اپنے آپ کو کچھ نہ سمجھنا
امیرالمؤمنین علیہالسلام دوسروں کی خوشیوں اور لذتوں میں رکاوٹ نہیں ڈالتے تھے، حالانکہ خود ان سے دور رہتے تھے،آپ ہمیشہ دوسروں کو خود پر مقدم رکھتے تھے، امام محمد باقر علیہالسلام نے آپؑ کی اس اخلاقی صفت کے بارے میں فرمایا: علی بن ابیطالب علیہالسلام لوگوں کو گندم کی روٹی اور گوشت کھانے کے لیے دیتے اور خود گھر آ کر جو کی روٹی اور تیل کھاتے۔
تاریخ میں امیرالمؤمنین علیہالسلام کی اس خصوصیت کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں:
امیرالمؤمنین علیہالسلام فرماتے ہیں: میں ایمان و تقویٰ کے ساتھ اپنے نفس کو ریاضت دیتا ہوں تاکہ قیامت کے دن یعنی بڑے خوف کے دن محفوظ رہوں اور کھائیوں کے کنارے پر ثابت قدم اور مستحکم رہوں،اگر میں چاہتا تو صاف شہد، گندم کا بہترین مغز حاصل کر سکتا تھا اور ریشمی کپڑوں تک پہنچ سکتا تھا لیکن افسوس کہ نفس کی خواہشات اور حرص مجھے خوراک کے انتخاب پر قابو نہ پانے دے جبکہ ہوسکتا ہے کہ حجاز یا یمامه میں کوئی ایسا ہو جس کے پاس ایک بھی روٹی نہ ہو اور اسے نہ معلوم ہو کہ پیٹ بھر کر کھانا کیا ہوتا ہے، یا میں بھرے پیٹ کے ساتھ سو جاؤں جبکہ میرے اردگرد بھوکے اور پریشان دل موجود ہوں، یا ایسا ہوجاؤں جیسا کہا گیا ہے:
ایسا نہ ہو کہ تم رات پیٹ بھر کر گزارو
اور تمہارے اردگرد دلوں میں حسرت کی آہیں نکلیں
کا یہ صحیح یہ ہے کہ میں راضی رہوں کہ مجھے امیرالمؤمنین کہا جائے، جبکہ میں زمانے کی سختیوں میں ان کا شریک نہ بنوں یا زندگی کی تلخیوں میں ان کے لیے مثال نہ بنوں۔
ایک اور واقعہ: امیرالمؤمنین علیہالسلام کپڑوں کے بازار گئے اور ایک طاقتور مرد سے ملے اور فرمایا: جناب، کیا آپ کے پاس پانچ درہم کی دو قمیضیں ہیں؟ مرد بولا: جی ہاں، یا امیرالمؤمنین! جیسے ہی اس نے حضرت کو پہچانا، امیرالمؤمنین علیہالسلام وہاں سے چلے گئے اور ایک نوجوان کے پاس کھڑے ہوئے اور فرمایا: کیا تمہارے پاس دو قمیضیں پانچ درہم میں ہیں؟” نوجوان بولا: جی ہاں، میرے پاس دو قمیضیں ہیں، ایک تین درہم کی اور دوسری دو درہم کی۔ امیرالمؤمنین علیہالسلام نے جناب قنبر سے فرمایا: تین درہم والی قمیض آپ لیجئے، جناب قنبر نے یہ دیکھ کر کہا: یا امیرالمؤمنینؑ، یہ مناسب نہیں آپ منبر پر جاتے ہیں اور لوگوں کو خطبہ دیتے ہیں، آپ پہنیں، امیرالمؤمنین علیہالسلام نے فرمایا: قنبر، آپ جوان ہیں اور میں اپنے رب سے دعا کرتا ہوں کہ وہ مجھے آپ سے بہتر لباس عطا فرمائے۔
6۔ لوگوں کے مال کی حفاظت
امیرالمؤمنین علیہالسلام ہمیشہ مسلمانوں کے مال کے محافظ تھے، اس کے استعمال میں احتیاط کرتے اور کبھی بھی اس میں سے خود کے لیے کچھ نہیں لیتے تھے، مؤرخین نے اس بارے میں متعدد واقعات نقل کیے ہیں:
ہارون بن عنترہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں: میں خورنق میں علی بن ابیطالب علیہالسلام کے پاس گیا، آپ اون کا بنا پرانا سا لباس پہنے ہوئے تھے جو سردی سے بچانے کے لیے ناکافی تھا،میں نے کہا: یا امیرالمؤمنین، اللہ نے آپ اور آپ کے اہل بیت علیہم السلام کے لیے اس مال میں رزق مقرر کیا ہے، پھر آپ اس حال میں کیوں ہیں؟’ امیرالمؤمنین علیہالسلام نے فرمایا: اللہ کی قسم، میں تمہارے مال میں سے اپنی روزی کے لیے کچھ نہیں لیتا، یہ اون کا لباس میں باہر جانے یا شہر سے نکلنے کے وقت پہنتا ہوں
امیرالمؤمنین علیہالسلام فرماتے ہیں: میں اسی پرانے لباس میں آپ کے شہر میں داخل ہوا، میرا سامان یہی ہے، اور جب میں اس شہر سے نکلوں گا تو اپنے ساتھ وہی چیزیں لے جاؤں گا جو ساتھ لایا تھا، اگر اس کے علاوہ کچھ لے جاؤں، تو جان لو میں نے تم سے خیانت کی ہے۔
مؤرخین نے نقل کیا ہے کہ امیرالمؤمنین علیہالسلام کے پاس اپنی خلافت کے دوران تین درہم بھی نہیں ہوتے تھے کہ اس سے لباس خریدیں یا اپنی ضرورت پوری کریں، لیکن بیت المال جاتے اور اس میں موجود سب کچھ لوگوں میں تقسیم کرتے، پھر نماز کے لیے کھڑے ہوتے اور فرماتے: تمام تعریفیں اللہ کی جس نے مجھے اسی حالت میں باہر نکالا جس میں میں داخل ہوا تھا۔
7۔ بدی کے جواب میں نیکی
امیرالمؤمنین علیہالسلام کی عظمتِ حلم اور گذشت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب معاویہ آپ کے مقابلے کے لیے لشکر لے کر آیا اور فرات کے پانی پر قبضہ کر لیا، تو اسے یقین ہوا کہ وہ فتح یاب ہو گیا ہے، جب امیرالمؤمنین علیہالسلام اپنی فوج کے ساتھ آئے اور فرات کے پانی پر معاویہ کے فوجیوں کا قبضہ دیکھا تو آپ نے ان سے درخواست کی کہ پانی استعمال کرنے کی اجازت دیں، معاویہ کے سپاہیوں نے کہا: اللہ کی قسم، ہم ایک قطرہ بھی پانی نہیں دیں گے تاکہ تم پیاسے مر جاؤ، جیسے ابنِ عفان مارا گیا۔
امیرالمؤمنین علیہالسلام نے یہ دیکھ کر اپنی فوج کو فرات کو محاصرہ کرنے کا حکم دیا، فوج نے ایسا ہی کیا اور فرات پر قبضہ کر لیا جبکہ معاویہ کے ساتھی اس وسیع صحرا میں پانی سے محروم ہو گئے۔
امیرالمؤمنین علیہالسلام کے ساتھیوں نے کہا: یا امیرالمؤمنین، ان پر پانی بند کر دیں، ایک قطرہ بھی نہ دیں، انہیں پیاسا رہنے دیں، تلوار کے وار سے ہلاک کریں اور شریعیہ پر قبضہ کر لیں تاکہ جنگ کی ضرورت ہی نہ پڑے۔
امیرالمؤمنین علیہالسلام نے فرمایا: نہیں، اللہ کی قسم، میں ان سے ان کے اعمال کا بدلہ نہیں لوں گا،شریعیہ کا ایک حصہ چھوڑ دو کہ تلوار کی دھار کو اس کی ضرورت نہیں۔
8۔ فروتنی اور تواضع
فقرا، محتاجوں اور کمزوروں کے سامنے تواضع امیرالمؤمنین علیہالسلام کی سب سے اہم اخلاقی خصوصیات میں سے تھی، اسی لیے ان کی محبت اور نیکی کا دامن ہمیشہ ان کے لیے کھلا رہتا اور اس معاملے میں وہ اپنے بھائی اور رسول اللہ صلیاللهعلیهوآله کی طرح برتاؤ کرتے، آپؑ مؤمنین کے لیے والد اور فقرا کے لیے بھائی تھے۔
