شہید سید عبدالحسین دستغیب روایت کرتے ہیں:
جب میں نجف اشرف میں مقیم تھا تو محرم الحرام سنہ ۱۳۵۸ ہجری قمری میں، اُس وقت کی عراقی حکومت (غازی بن فیصل ملقب بہ شاہ غازی اوّل) نے حکم دیا کہ محرم الحرام کے تمام پروگرام، مجالس عزا جلوس، زنجیر زنی، سینہ زنی وغیرہ، سب ممنوع ہیں۔
عاشور کے دن حکومتی لشکر نے حرم مقدس امیرالمؤمنین علیہالسلام کے تمام دروازے بند کر دیے تاکہ ہر سال حرم مقدس میں منعقد ہونے والا عاشورہ کا پروگرام منعقد نہ ہو سکے۔
جس آخری دروازے کو وہ لوگ بند کرنے والے وہ باب قبلہ تھا۔ اس کے مکمل بند ہونے سے پہلے ہی عزاداران اُس راہداری سے، جو ابھی تک بند نہیں ہوئی تھی، تیزی کے ساتھ حرم مقدس کے اندر داخل ہو گئے۔
لیکن جب اندرونی دروازوں تک پہنچے تو دیکھا کہ وہ بند ہیں چنانچہ انہوں نے دونوں دروازوں کے درمیان موجود ایوانِ مقدس عزاداری، سینہ زنی اور نوحہ خوانی شروع کر دی۔
اِسی اثنا میں عراقی پولیس کے افسران اپنے کمانڈر کے ہمراہ وہاں داخل ہوئے، کمانڈر فوجی جوتوں سمیت ایوان میں آیا اور عزاداروں کو زد و کوب اور گرفتار کرنے کا حکم دیا۔
عزاداروں نے جوش میں آکر اُس پر حملہ کیا، اُسے اُٹھا کر حرم مقدس کے صحن میں زمین پر پٹک دیا، کمانڈر سخت زخمی ہو گیا اور حرکت نہیں کر سکا۔
جب عزاداروں کو اندیشہ ہوا کہ پولیس ان کے خلاف انتقامی کاروائی نہ کرے اور عزاداری نہ روک دے تو وہ عاجزی اور توسل کے ساتھ حرم مقدس امیرالمؤمنین علیہالسلام کے بند دروازے کی طرف لپکے اور فریاد بلند کی:
یا علی! دروازہ کھول دیجئے، ہم آپ کے فرزند حسین علیہالسلام کے عزادار ہیں۔
اسی لمحے، سب دروازے ایک ساتھ کھل گئے۔
چند معتبر اشخاص، جو خود اس واقعہ کے عینی شاہد تھے، نے مجھ سے کہا کہ لوہے کے بھاری پَٹ جو دیوار سے جُڑے تھے اور دروازے کو مکمل طور پر ڈھانپتے تھے، اچانک دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوگئے اور عزادار حرم مقدس میں داخل ہو گئے۔
یہ خبر شہرِ نجف اشرف تک پہنچی اور لوگ فوج در فوج حرم مقدس کی طرف دوڑ پڑے۔
پولیس لوگوں سے گھبرا کر بھاگ کھڑے ہوئے اور بغداد میں اپنے کمانڈ کو رپورٹ بھیجی، کمانڈ کی طرف سے حکم آیا کہ عزاداروں سے کوئی لینا دینا نہ رکھو چنانچہ اُس سال نجف اور کربلا میں پہلے سے کہیں زیادہ جوش و خروش کے ساتھ عزاداری منعقد ہوئی۔
شعراء نے اس کرامت و معجزہ کے بارے میں قصائد و اشعار کہے جو بہت مشہور ہوئے، حتیٰ کہ ایک عالم نے ان میں سے چند اشعار کو لوح پر کندہ کر کے حرم مطہر کی دیوار پر آویزاں کر دیا۔
مأخذ: القصص العجیبة، ص 119
