سب سے زیادہ تلاش کیا گیا:

صحرا نشین نوجوان اور امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی کرامت

صحرا نشین نوجوان اور امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی کرامت

۲۸ شعبان ۱۳۴۸ ہجری قمری کو ایک صحرا نشین نوجوان جو بچپن ہی سے مفلوج تھا اور اس کا پیر ران سے چپکا ہوا تھا، اپنی ماں اور چند افراد کے ہمراہ عصا کے سہارے حرم مقدس امیرالمؤمنین علیہ‌السلام میں داخل ہوا،اس کی ماں نے اسے حرم مقدس کی جالی کے قریب بٹھا دیا اور بارگاہِ مولا میں عرض کی کہ یا تو میرے بیٹے کو شفا مل جائے یا پھر اس کی زندگی کا خاتمہ ہو جائے۔

شیخ عبدالعظیم الربیعیؒ[1] ادیب ، جلیل القدر عالم اور شاعر نے ایک واقعہ نقل کیا ہے جس میں ایک صحرا نشین نوجوان کو امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کے فیض سے شفا عطا ہوئی۔

وہ لکھتے ہیں:

۲۸ شعبان ۱۳۴۸ ہجری قمری کو ایک صحرا نشین نوجوان جو بچپن ہی سے مفلوج تھا اور اس کا پیر ران سے چپکا ہوا تھا، اپنی ماں اور چند افراد کے ہمراہ عصا کے سہارے حرم مقدس امیرالمؤمنین علیہ‌السلام میں داخل ہوا،اس کی ماں نے اسے حرم مقدس کی جالی کے قریب بٹھا دیا اور بارگاہِ مولا میں عرض کی کہ یا تو میرے بیٹے کو شفا مل جائے یا پھر اس کی زندگی کا خاتمہ ہو جائے۔

اسی لمحے ایک غیبی ہاتھ نمودار ہوا اور لڑکے کے پر پھِرا،فوراً اس کا پیر ران سے الگ ہو گیا،لوگوں نے ہڈی کے ٹوٹنے کی آواز صاف سنی، اسی دم وہ لڑکا خدا کے اذن اور ولیٔ خدا حضرت امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی کرامت سے اپنے پیروں پر کھڑا ہو گیا۔

یہ منظر دیکھتے ہی حرم مقدس صلوات کی آوازوں سے گونج اٹھا اور لوگ خوشی و مسرت میں جشن منانے لگے۔

مزید مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے