سب سے زیادہ تلاش کیا گیا:

نفرت اور عناد کی آگ میں جل جانا

نفرت اور عناد کی آگ میں جل جانا

سلطانِ روم (سلطان سلیمان) جس نے دریائے فرات سے حرمِ امام حسین علیہ‌السلام تک نہر کھدوائی جسے نهرِ حسینی کہا جاتا ہے۔

سید نعمت‌الله جزائری (مشہور به محدث جزائری، گیارہویں بارہویں صدی کے شیعہ علماء میں سے) نے نقل کیا ہے کہ میں نے ایک معتبر شخص سے سنا:
سلطانِ روم (سلطان سلیمان) جس نے دریائے فرات سے حرمِ امام حسین علیہ‌السلام تک نہر کھدوائی جسے نهرِ حسینی کہا جاتا ہے جب وہ  امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی زیارت کے لیے آیا تو حرم مقدس کے نزدیک پہنچ کر گھوڑے سے اتر گیا اور پیدل حرم مقدس کی طرف چلنے لگا۔

 اس کے ساتھ ایک مفتی تھا بھی تھا جو لشکر کا قاضی بھی تھا اور سنی مذهب سے تعلق رکھتا تھا؛ وہ سلطان کے اس عمل پر سخت خفا ہوا اور کہنے لگا: تم زندہ بادشاہ ہو اور علی بن ابی طالب علیہ‌السلام ایک وفات پا چکے خلیفہ ہیں پھر بھی تم ان کی زیارت کرنے کے لیے پیدل چل رہے ہو سوار ہو کر کیوں نہیں جا رہے؟ اس پر ان دونوں کے درمیان تلخ کلامی ہو گئی۔
مفتی نے سلطان سے کہا کہ اگر تمیں میری بات پر شک ہو تو قرآنِ مجید سے دریافت کر لو تاکہ حقیقت واضح ہو جائے۔ جب سلطان نے قرآن مجید کھولا تو آیتِ مبارکہ "فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ إِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى[1]” سامنے آئی، سلطان نے یہ آیت پڑھی اور مفتی کو کہا کہ آپ کی باتوں کا مجھ پر بہت اثر ہوا تو میں نے قرآن کی طرف رجوع کیا پس اب لازم ہے کہ میں بھی اپنے جوتے اتار دوں اور پا پیادہ حرم جاؤں۔
سلطان زخمی پیروں کے ساتھ حرم پہنچا اور زیارت کی، زیارت کے بعد مفتی نے سلطان سے کہا کہ حرم میں ایک ایسے شیعہ عالِم کی قبر ہے جس نے مذهبِ شیعہ کو پھیلایا؛ اس کی ہڈیاں قبر سے نکال کر آگ میں جلا دو۔ سلطان نے پوچھا اس کا نام کیا ہے؟ مفتی نے جواب دیا کہ شیخ ابو جعفر محمد بن حسن طوسی، معروف به شیخِ طوسی ۔
سلطان نے کہا کہ یہ آدمی میری سلطنت میں نہیں؛ میری سلطنت زندوں تک محدود ہے، یہ تو خدا کی سلطنت میں ہے؛ اسے جو بھی جزا یا سزاء ملنی چاہیے، وہ خدا ہی دے گا۔
مفتی اپنے مؤقف پر اڑا رہا اور سلطان سے بحث کرنے لگا، سلطان نے مفتی سے کہا کہ شہر سے باہر جا کر لکڑیاں اکٹھا کرو اور آگ جلا دے اور میرے آنے کا انتظار کرو تاکہ میں اس رافضی کو جلا دوں۔ مفتی شہر سے نکل گیا، لکڑیاں جمع کیں، آگ روشن کیں اور سلطان کا انتظار کرنے لگا۔
جب سلطان نے زیارت کے اعمال مکمل کر لیے تو وہ شہر سے باہر نکلا اور دیکھا کہ آگ روشن ہے اور مفتی وہیں کھڑا ہے، سلطان نے کہا کہ کیا یہ سب دلیلیں تمہارے لیے کافی نہیں تھیں کہ تم نے مجھ سے کہا کہ ایسے شخص کی ہڈیاں جلا دوں جو اس دنیا سے جا چکا ہے؟ پھر سلطان نے حکم دیا کہ مفتی کو آگ میں ڈال دیا جائے، اس طرح وہ نفرت کی آگ میں جھلس گیا[2]۔

مزید مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے