حرم مقدس امیرالمؤمنین علیہالسلام کا ایوان طلائی سب سے عظیم تاریخی اور فنّی شاہکاروں میں شمار ہوتا ہے اور یہ حرم مقدس کے رواق کا مرکزی دروازہ ہے۔
یہ تحریر ایوانِ طلا کی تاریخ، اس کی فنّی اور معمارانہ اہمیت، اس کے نقش و نگار اور حکاکیوں کی کہانی اور اُن نقصانوں پر روشنی ڈالتی ہے جو بعثی حکومت کے دور میں کیے گئے۔
ایوان طلائی کا مقام اور اس کے کم و کیف
ایوانِ طلا حرم مقدس کی مشرقی جانب واقع ہے اور اسلامی معماروں کے ذوق و فن کا ایسا معجزہ ہے جو اپنی باریک کاریگری، بی مثال طلاکاری اور حکاکیوں سے ہر دیکھنے والے کو حیرت زدہ کر دیتا ہے، اس کا عرض تقریباً آٹھ میٹر اور بلندی تیرہ میٹر تک ہے، یہ ایوان خالص سونے سے مزین ہے اور اس کے بالائی حصے میں بڑے بڑے مقرنس کام کیے گئے ہیں جو ایوان کے ایک تہائی حصے تک بلند ہیں، یہ منظر اپنی شان و شوکت کے ساتھ حرم مقدس کی معمارانہ خوبصورتی کو دوبالا کرتا ہے۔

ایوان کے دونوں اطراف قوسی نما کھڑکیاں ہیں جنہیں میناکاری اور برجستہ حکاکیوں سے مزین کیا گیا ہے، ہر جانب بھی دو کھڑکیاں ہیں اور ایوان کے روبرو حصے کے اوپر سنہری کتبہ کندہ ہے جو آج بھی حرم کے تاریخی آثار میں شمار ہوتا ہے۔
خوبصورتی، انجینئرنگ اور تاریخی لحاظ سے ایوان طلائی کی اہمیت
حرم مقدس امیرالمؤمنین علیہالسلام کی منیجمنٹ کمیٹی کے رکن حرم مقدس کی معماری کے ماہر عبدالهادی ابراهیمی ایوان طلائی کی خوبصورتی، انجینئرنگ اور تاریخی لحاظ سے اہمیت کے بارے میں کہتے ہیں:

ایوان طلائی حرم مقدس کے مشرقی حصے میں واقع ہے اور اسلامی فن کا نایاب نمونہ اور حکاکی و طلاکاری کی صنعت کا شاہکار ہے، ان کا کہنا ہے کہ شاید ہی اسلامی دنیا میں کوئی دوسرا ایوان اس قدر فنّی نزاکت، حسن اور فنی شاہکاروں کا حامل ہو۔
ایوان طلا دیگر ایوانوں سے ممتاز ہے،عموماً معصومین علیہمالسلام کے حرموں میں بڑا ایوان قبلہ کی سمت واقع ہوتا ہے، لیکن اس عظیم اور حیرت انگیز عمارت کے معمار شیخ بهاییؒ نے اپنی معمارانہ حکمت کے مطابق اس عظیم ایوان کو مشرقی جانب امیرالمؤمنین علیہالسلام کی مرقدِ مطہر کے پائنتی کے قریب تعمیر کیا۔

جب صحنِ مطہر پر چھت ڈالنے کا منصوبہ پیش کیا گیا تو حرم مقدس نے اسے دو بڑی وجوہات کی بنا پر مسترد کر دیا:
– یہ منصوبہ ایوانِ طلائی اور اس کے ہم آہنگ ڈھانچوں یعنی گنبد اور مناروں کی تاریخی اور جمالیاتی اہمیت کو مجروح کرتا۔
– شیخ بهاییؒ کی اُس معمارانہ کرامت کو نقصان پہنچاتا جس کے مطابق صحنِ حیدری میں نصف النہار (Meridian) کی تعیین ممکن ہے۔ اگر صحن پر چھت ڈالا جاتا تو یہ نجومی معجزہ ضائع ہو جاتا۔

اسی لیے ایوان طلا نہ صرف جمالیاتی حیثیت سے بلکہ معمارانہ اور نجومی نقطۂ نظر سے بھی غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے، اس کے طول و عرض اور بلندی کا تناسب مشہور "نسبتِ طلائی” (Golden Ratio) یعنی ۱۶:۱ کے مطابق رکھا گیا ہے اور اس کے ساتھ مناروں اور گنبد میں بھی پنج ضلعی اشکال کی حیرت انگیز ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔
عبدالهادی ابراہیمی ایوان طلا کی تاریخی اہمیت کے بارے میں کہتے ہیں: مشہور ہے کہ جب شاہ عباس اول نے سنہ ۱۰۲۳ ہجری / ۱۶۱۴ عیسوی میں موجودہ عمارت تعمیر کی تو انہوں نے گنبد، ایوان اور حرم کے دو میناروں کو کاشی کے میناکاری والے کام سے آراستہ کیا، صفوی سلسلے کے خاتمے کے بعد جب نادر شاہ افشار برسراقتدار آیا تو اس نے روضہ مطہر کی سابقہ سنگی بناوٹ کو ہٹا کر اس کی جگہ کانسے کی تختیاں لگائیں جنہیں خالص سونے سے ڈھکا گیا اور ضریح کو بھی سونے سے مزین کیا۔ سنہ ۱۱۵۵ ہجری / ۱۷۴۲ عیسوی میں حرم مقدس کی طلاکاری کا کام شروع ہوا اور سنہ ۱۱۵۶ ہجری / ۱۷۴۳ عیسوی میں مکمل ہوا۔

یہ شواہد حرم مقدس کے متعدد معماری حصوں میں نمایاں ہیں، خصوصاً ایوان طلا کی حکاکیوں اور نقش و نگاروں میں اور تحریروں، اشعار اور اعداد و شمار کی صورت میں بھی موجود ہیں، مثلاً ایوان کے مقابل حصے اور بالائی جانب عربی زبان میں خط ثلث سے ایک عبارت بڑے حروف میں کندہ ہے جو ظاہر کرتی ہے کہ نادر شاہ نے سنہ ۱۱۵۶ ہجری میں ضریح کے طلاکاری کا شرف حاصل کیا۔

اس عبارت میں "خلده الله ودولته” کے الفاظ بھی درج ہیں، اگر ان حروف کی عددی قدر پر غور کیا جائے تو ۱۱۵۶ کا عدد بنتا ہے، جو ضریح مبارک کی طلا کاری کے اختتام کی تاریخ ہے۔
اسی طرح ایک مکتوب سند بھی موجود ہے جو میرزا عبدالرزاق تبریزی کے فارسی شعر کے آخر میں ملتی ہے، جس میں لکھا ہے: طلاکاری سلطان کے حکم سے انجام پائی اور اس کام کی نگرانی مہدی قالی، محمدعلی قزوینی اور محمدابراہیم زرگرباشی نے کی۔

مزید برآں، سنہ ۱۱۵۶ ہجری کے منظوم اشعار جیسے میرزا عبدالرزاق تبریزی اور محمد زکی ندیم مشهدی کے کلام بھی ایوان کے چھوٹے حصے میں ملتے ہیں،متعدد مہروں پر بھی ۱۱۵۶ کندہ ہے جو ایوان اور میناروں کی طلا کاری کی تکمیل کی تاریخ ہے، گنبد کی طلا کاری اس سے ایک سال پہلے یعنی ۱۱۵۵ ہجری میں مکمل ہوئی،مثال کے طور پر ’’منادا‘‘ نظم کے آخر میں بھی اسی طرح کی مہر لگی ہوئی ہے نیز میرزا تبریزی کے شعر اور عرفی شیرازی کے قصیدے کے آخر میں عدد حک کیے گئے ہیں۔

ایک اور اہم نکتہ نادری طلائی زنجیر ہے جو ایوان کے اوپر نصب ہے اور تاریخی اعتبار سے بے حد اہم ہے، نقل ہوا ہے کہ جب حرم کی طلاکاری مکمل ہوئی تو نادر شاہ افشار ۱۱۵۶ ہجری میں نجف آئے اور یہ زنجیر تیاری کی اور حکم دیا کہ اس زنجیر کو ان کے گلے میں ڈال کر ذلت کے ساتھ ایک تنگ گلی سے گھسیٹتے ہوئے بارگاہ امیرالمؤمنین علیہالسلام لے جائیں، اس گلی کو اس کے بعد سے آج تک عگد الزنجیل یا زنجیر گلی کہا جاتا ہے، بتایا جاتا ہے کہ نادر شاہ کے کسی وزیر یا عہدیدار کو اس حکم پر عمل کرنے کی ہمت نہ ہوئی یہاں تک کہ ایک اجنبی شخص، جسے اس سے پہلے کسی نے نہ دیکھا تھا، نے یہ کام کیا۔

کہا جاتا ہے کہ بعثی حکومت نے ایک مدت تک اس زنجیر کو ضبط کر رکھا تھا۔ ایک اور روایت هادی انصاری نے اپنے والد شہید سے نقل کی ہے کہ یہ زنجیر ایک چھوٹے فانوس سے لٹکی ہوئی تھی، مگر تیز ہوا سے گر گئی، اس کے بعد اسے شیشے کے ایک صندوق میں رکھا گیا، آج بھی یہ زنجیر ایک شفاف صندوق میں محفوظ ہے اور حرم مقدس کے ایک فانوس کے گرد لپٹی ہوئی ہے۔

کتیبے کس زبان میں لکھے ہوئے ہیں
ابراہیمی نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ ایوانِ طلائی پر بہت سے کتیبے اور نقوش کندہ ہیں، اس بارے میں کہ یہ کتبے کس زبان میں لکھے گئے ہیں کہا: اگر اس سے مراد قصائدِ ہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ ایوانِ طلا میں ثقافتی اور لسانی تنوع بہت زیادہ ہے، یہاں فارسی ادب، ترکی – عثمانی ادب اور عربی اشعار دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ان عربی اشعار میں سے ایک معروف قصیدہ "قصیدہ منادا” ہے جس کے کچھ اشعار ایوان پر درج ہیں۔
نَادِ عَلِياً مُظهِرَ العَجَائِب تَجِدهُ عَونَاً لَكَ في النَّوَائِب
كُلُّ هَمٍّ وَغَمٍّ سَيَنجَلي بولايتك يا عليُّ يا عليُّ يا علي

اسی طرح ایک اور عربی شعر نہایت خوبصورت سنہری گلدان کے گرد، جو ایوان کے اوپر واقع ہے، لکھا ہوا ہے جو اس بیت سے شروع ہوتا ہے:
بنبی عربی ورسول مدنی وأخیه اسدالله المسمی بعلی
یہ قصیدہ تمام معصومین علیہم السلام کی مدح و ثنا پر مشتمل ہے۔
فارسی اشعار کے حوالے سے، عرفی شیرازی کا شعر دروازۂ اصلی ایوانِ طلائی کے بارے میں ہے جو ایوان کے دونوں طرف فارسی زبان میں لکھا گیا ہے۔ اسی طرح حسن کاشی کے چار فارسی اشعار ایوان کے دائیں اور بائیں جانب درج ہیں۔

اس کے علاوہ، دو ترکی اشعار بھی میناکاری والے کاشی کے پٹّے پر لکھے گئے ہیں جن میں سے ایک طویل نظم میرزا عبدالرزاق تبریزی کی ہے جو تخلص نشئہ سے مشہور تھے ، یہ شعر عثمانی دور کے قدیم ترکی ادب میں لکھا گیا ہے۔
بڑے ایوان کے اندر موجود چھوٹے ایوان کے دونوں طرف چار اشعار لکھے ہوئے ہیں جو محمد زکی ندیم مشہدی سے منسوب ہیں، ندیم مشہدی ایرانی شاعر تھے جنہوں نے امیرالمؤمنین علیہالسلام کی مدح میں دیگر اشعار بھی کہے ہیں،یہ اہل سنت سے تعلق رکھتے تھے اور سلطان نادر شاہ افشار کے اصحاب میں شمار ہوتے تھے اور ندیم کے تخلص سے مشہور تھے۔

ایوانِ طلا کے دروازوں اور ان کی تنصیب کی تاریخ
جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ایوانِ طلائی کے کئی دروازے ہیں، یہ دروازے کب لگائے گئے ہیں اور ان کی تاریخ کیا ہے؟ اس سلسلہ میں عبدالہادی ابراہیمی کہتے ہیں: سب سے پرانا دروازہ حرم مقدس کی ابتدائی عمارت کا لکڑی کا دروازہ ہے جس کی تاریخ ۱۰۲۳ ہجری میں تعمیر حرم سے ملتی ہے، یہ قیمتی دروازہ آج بھی حرم کے گوداموں میں محفوظ ہے۔
اس کے بعد چاندی کے دروازے استعمال ہوئے، یہاں تک کہ سن ۱۳۷۳ھ/۱۹۵۴ء میں حجۃ الاسلام والمسلمین سید محمد کلانتر، الحاج مهدی مقدم، ان کے بھائی الحاج کاظم اور میرزا عبدالله، جو ایران کے بڑے تاجروں میں سے تھے، نے خالص سونے کے دروازے حرم مقدس کو ہدیہ کیے اور اس طرح نئے دروازے نصب ہوئے جو سب کے سب سونے کے اور نہایت شاندار تھے۔

شیخ عراقی کاشف الغطاء (رح) نے ایوانِ طلائی کے دروازوں کے اسماء کے بارے میں ایک کتاب لکھی ہے جس میں تفصیل کے ساتھ ان دروازوں کی ساخت، انہیں تہران سے عراق لانے کا احوال، جشنوں کا ذکر اور ان دروازوں پر کہے گئے اشعار بیان کیے ہیں۔
اس سلسلے میں دو قصائد کا ذکر کیا جا سکتا ہے جو دروازۂ طلائی کی تنصیب کے وقت کہے گئے اور محمد جمال ہاشمی اور شیخ عبدالحمید سماوی سے منسوب ہیں، ایک اور شعر شیخ محمد علی یعقوبی کا ہے جو سال ۱۳۷۳ھ یعنی تنصیب کے سال سے متعلق ہے۔ اس شعر میں تاریخ بھی درج ہے جو اس طرح لکھی گئی ہے:
ولایبقی فی التاریخ إلا علىّ
الدّر و الذّهب المصفّى
انہیں دنوں ایک اور بے مثال شعر شیخ عبدالمهدی مطرؒ نے کہا تھا جس کے ابتدائی اشعار یہ ہیں۔
ارصف بباب علي ايها الذهب وأخطفِ بأبصارِمن سَروا ومَن غضِبوا
وقـل لمن كان قد أقصاكَ عن يدهِ عفواً إذاجئت منك اليوم اقتربُ
لعـل بـادرةً تبدوا لحيـدرةٍ أن ترتضيك لهاالأبواب والعُتبُ

یہ شعر علامتی ہے اور اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ امیرالمؤمنین علیہالسلام دنیا میں زاہد تھے اور دنیا و اس کے متعلقات کو بالکل ترک کر دیا تھا، مگر آپؑ کی شہادت کے بعد، سونا خود خشوع و خضوع کے ساتھ آپ کی چوکھٹ کو زینت بخشنے کے لیے حاضر ہوا، عباس ترجمان نے اس تصور کو اپنی کتاب الأرجوزه النجفیه میں نہایت عمدہ انداز میں بیان کیا ہے۔
اس کے علاوہ حرم مقدس امیرالمؤمنین علیہالسلام میں علامہ حلی کے مرقد کا دروازہ منارے کے شمالی حصے میں اور مقدس اردبیلی کی مرقد کا دروازہ منارے کے جنوبی حصے میں واقع ہے،یہ دونوں سنہری دروازے بھی سید محمد کلانترؒ کی کوششوں سے نصب ہوئے اور ان کے ہدیہ کنندہ حاج عبدالرسول عجینه تھے، یہ دروازے سن ۱۳۹۷ھ/۱۹۷۶ء میں نصب کیے گئے۔

بعثی حکومت کے دور میں ایوان کو پہنچنے والے نقصان
بعثی حکومت کے اقتدار کے دوران اس ایوان کو نقصان پہنچا، عبدالہادی ابراہیمی اس نقصان اور حرم مقدس امیرالمؤمنین علیہالسلام متولی کی طرف سے نقصان کی تلافی کے بارے میں کہتے ہیں: بعثی حکومت کے خاتمے اور مراجع عظام کی نگرانی میں حرم کی تعمیر نو کے بعد، حرم مقدس کے متولی نے اس نقصان کی مرمت اور دوبارہ تعمیر کی۔
اس کے علاوہ، ایوان کے جنوب کی جانب، جو جنوبی منارہ کے قریب واقع ہے، 1440ھ/2019ء میں دوبارہ سونے سے مزین کیا گیا، بعد ازاں، شمالی ضلع اور شمالی منارہ بھی طلا کاری کے عمل سے گزارا گیا اور آخری مرحلہ بڑے ایوان کی طلا کاری ہے جو اس وقت جاری ہے۔

ایوان طلا کی دیگر خصوصیات
مرکزی دروازہ ایوان طلائی کے وسط میں ایک چھوٹے ایوان کے اندر واقع ہے، دروازے پر شاندار سنہری مقرنس کاری موجود ہے اور اس کے نچلے حصے پر بڑے حروف میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کا فرمان لکھا ہوا ہے: "أنا مدینۃ العلم و علی بابہا” جو قرآن پاک کی مقدس آیات سے گھرا ہوا ہے۔
دروازے کے سامنے جو حصہ ایوان نما ہے، شیشے سے مزین ہے اور اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کا یہ فرمان کندہ ہے: "علی مع الحق والحق مع علی ولن یفترقا حتی یردا علی الحوض یوم القیامة"۔

ایوان طلا کے دونوں طرف میناکاری کاشی کے اوپر امیرالمؤمنین علیہالسلام کی مدح میں سنہری حروف میں برجستہ تحریر حک کی گئی ہے،یہ تحریر ترکی زبان میں ہے اور میرزا عبدالرزاق تبریزی سے منسوب ہے۔
اس کے علاوہ، ایوان کی معماری میں خوبصورت گلدار نقش و نگار مہارت اور توازن کے ساتھ بنایا گیا ہے، ایوان طلا کی فنکاری میں استعمال ہونے والی نفاست اتنی زیادہ ہے کہ اس کا شمار ممکن نہیں، ایوان طلا ئی اور اس کے ارد گرد کی عمارتیں حرم مقدس امیرالمؤمنین علیہالسلام کی سب سے خوبصورت اور حیرت انگیز خصوصیات میں شمار ہوتی ہیں۔

بعثی حکومت کے دور میں بہت سی تاریخی عمارتیں متاثر ہوئیں، لیکن ایوان طلا کے سامنے موجود خوبصورت گل اور تاریخی کتیبے مکمل طور پر محفوظ رہے، جو ایوان کی تعمیر اور نادر شاہ کے زمانے میں سنہری کاری سے تعلق رکھتے ہیں۔
ایوان طلا ئیکے بائیں جانب لکھا گیا: "كُلُّ هَمٍّ وَغَمٍّ سَيَنجَلي بولايتك ياعليُّ ياعليُّ ياعلي"، اس جملے کے نیچے لکھا ہے: محمدعلی نقاش سال 1156هـ۔

ایوان کے اوپر نیلے رنگ کی پٹی میں گنبد، دو مناروں اور ایوان طلا کی سنہری کاری کی تاریخ نادر شاہ افشار کے حکم سے خط ثلث میں خوبصورتی کے ساتھ کندہ کی گئی ہے۔
اس ایوان میں بہت سے علما اور بزرگ دفن ہیں جن کے نام دیواروں پر لکھے ہوئے تھے لیکن ایوان کی سنہری کاری کے دوران مٹ گئے۔
اس کے علاوہ، ایوان طلا کی نمایاں سطح اور داخلہ دروازے 1991ء کی شَعْبانیہ انتفاضہ کے دوران فوجی کارروائی اور شدید بمباری سے متاثر ہوئے، لیکن بعثی حکومت کے خاتمے کے بعد، حرم مقدس کے متولی نے ان نقصانوں کی مرمت اور دوبارہ تعمیر کی۔

کتاب تاريخ تذهيب المرقد العلوي المطهر میں عبدالہادی ابراہیمی لکھتے ہیں: 2003ء میں بعثی حکومت کے خاتمے کے بعد نجف میں علمائے دین نے حرم مقدس امیرالمؤمنین علیہالسلام کی نگرانی کی ذمہ داری سنبھالی۔
حرم مقدس کے اگزیکیٹو بورڈ نے حکم جاری کیا کہ بعثی حکومت کے دوران حرم سے جو کچھ بھی لے جایا گیا ہے واپس لایا جائے اور جو کچھ سیاسی مقاصد کے لیے اور حرم کی تقدس و تاریخی اہمیت کے برخلاف اضافہ کیا گیا، اسے ہٹا دیا جائے،اس مقصد کے لیے آثار اور تاریخی کتب کاری کے ماہرین نے بعثی دور میں مٹائے گئے اور نقصان پہنچائے گئے آثار کو دوبارہ مرمت اور تعمیر کیا۔
اسی سلسلے میں، حرم کے گنبد کی اوپری پٹی کے سونے سے مزین کتیبے اور صفحات کی مرمت کی گئی اور 13 رجب 1430هـ/6 جولائی 2009ء کو مرمت کا کام مکمل ہوا، ایوان طلا کے کتیبے بھی 2013ء کو مرمت، دوبارہ تعمیر، سنہری کاری اور اصل مقام پر واپس لگائے گئے۔
