ایوان علماء یا مقام علماء حرم مقدس امیرالمؤمنین علیہالسلام کے تین بڑے اور مرکزی ایوانوں میں سے ایک ہے جو علمی اور تاریخی حیثیت کے اعتبار سے بے مثال مقام رکھتا ہے۔
درج ذیل تحریر میں اس ایوان کے مقام و منزلت پر روشنی ڈالی جائے گی۔
ایوان علماء کا ماجرا کیا ہے، اس کا یہ نام کیوں رکھا گیا اور اس میں کون لوگ دفن ہیں؟

پہلے ایوان علماء کو مقام علماء کہا جاتا تھا کیونکہ یہاں شیعہ علما کی ایک بڑی تعداد مدفون ہے
یہ ایوان دوسرے ایوانوں کے مقابلے میں زیادہ وسیع ہے، شمالی جانب سے حرم مقدس امیرالمؤمنین علیہالسلام پر مشرف ہے، اس کی چوڑائی تقریباً 6 میٹر، گہرائی 3 میٹر اور بلندترین قوس کی اونچائی 10 میٹر تک ہے۔ ایوان علماء ، ایوان شمالی بزرگ کے سامنے واقع ہے اور اس کے قریب ہی مرجع بزرگ، سید محمد کاظم یزدیؒ کا مقبرہ ہے۔

ایوان علماء کی معماری اہمیت
حرم مقدس امیرالمؤمنین علیہالسلام کے تاریخی و فنی امور کے ماہر عبدالہادی ابراہیمی کے مطابق، حرم مقدس امیرالمؤمنین علیہالسلام کے تین بڑے ایوان ہیں:
• مشرق کی جانب ایوان طلا (طلائی ایوان)
• شمالی جانب ایوان علماء
• اور جنوبی جانب ایوان ناودان طلا۔
اگر صفوی دور کی حرم مقدس کی عمارت کو دیکھیں گے تو معلوم ہوتا ہ ہے کہ ایوان علماء دراصل حرم مقدس امیرالمؤمنین علیہالسلام کا ایک دروازہ ہے جو شمالی صحن سے شمالی رواق کے راستے حرم تک جاتا ہے۔ اس کی گواہی وہ قدیم کاشی کاری ہے جو افشاری دور میں کی گئی ہے جس پر قرآن کریم کی آیت ’’ادخلوها الباب سجدا‘‘ درج ہے، اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ داخلی دروازہ تھا جو صفوی عہد میں کھلا رہتا تھا۔

ایوان علماء بڑے شمالی ایوان کے عین مقابل واقع ہے جہاں سید محمد کاظم یزدی مدفون ہیں، اصل میں صفوی عہد میں باب طوسی حرم مقدس کا اصلی دروازہ تھا، موجودہ باب الطوسی بعد میں سن 1953ء میں تعمیرنو اور توسیع کے دوران بنایا گیا، جس کا افتتاح عراق کے بادشاہ فیصل دوم کی تاجپوشی کے موقع پر ہوا۔
ایوان علماء کی فنی و انجینئرنگ خصوصیات
ایوان علماء کی فنی و انجینئرنگ خصوصیات کے بارے میں عبدالہادی ابراہیمی کہتے ہیں:
ایوان علماء کا طرزِ تعمیر اور اس کی کاشی کاری نیز اس میں حک کیے گئے گلدستے خوبصورتی کے اعتبار سے ایوان ناودان طلا (جنوبی ایوان) سے ہم آہنگ اور متوازن ہیں۔

اس ایوان کی کاشی کاری تاریخی اعتبار سے نہایت قیمتی ہے کیونکہ یہ حرم مقدس امیرالمؤمنین علیہالسلام میں موجود سب سے قدیم کاشیوں میں شمار ہوتی ہے، ان کی تعمیرنو گوہرشاد بیگم (نادر شاہ افشار کی اہلیہ) نے کروائی تھی جو حرم مقدس کی جنوبی سمت سے شروع ہوئی اور 1160 ہجری میں مکمل ہوئی۔
ایوان کے کناروں پر جالی دار نقش و نگار کے ساتھ قرآن کی آیات اور قصیدہ قوامالدین قزوینی کے اشعار تحریر ہیں، ان کے خطاط کمالالدین حسن گلستانہ تھے جن کا نام بھی کاشیوں پر درج ہے،یہ بات ایوان کی تاریخی اور فنّی حیثیت کو اور زیادہ نمایاں کرتی ہے اور ان کی تاریخ کو آسانی سے معلوم کیا جا سکتا ہے اسی وجہ سے ان کاشیوں کی حفاظت پر خاص توجہ دی جاتی ہے۔

اس ایوان کا نام ایوان علماء رکھنے کی وجہ
ابراہیمی اس ایوان کے ایوانِ علماء کے نام سے مشہور ہونے کی وجہ اور اس میں مدفون اہم اور معروف شخصیات کے بارے میں کہتے ہیں:
صحنِ مطہر امیرالمؤمنین علیہالسلام میں دفن ہونا بہت بڑی نعمت ہے، اسی لیے اس صحن کے احاطے، حجرے اور ہال ہزاروں افراد کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں جنہیں یہاں دفن ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ ان میں علما، فقہا، ادبا، شعرا اور اندیشمندوں کے ساتھ ساتھ وہ سلاطین اور بادشاہ بھی شامل ہیں جنہوں نے حرم مقدس امیرالمؤمنین علیہالسلام کی تعمیر میں حصہ لیا، جیسے عضدالدولہ دیلمی۔

یہ ایوان اس وجہ سے ایوانِ علماء کہلایا کہ اس میں بڑی تعداد میں علما اور فقہا دفن ہیں، ان میں سے مثال کے طور پر شیخ علامہ احمد الجزائری (مصنف دلائل الاحکام)،شیخ علامہ محمد مهدی نراقی (مشہور کتاب جامع السعادات کے مصنف) اور ان کے فرزند علامہ شیخ احمد نراقی (مصنف مستند الشیعہ فی تقی الشریعہ) کا نام لیا جا سکتا ہے۔ اس ایوان میں دفن ہونے والے دیگر مشہور علما میں سے ایک علامہ سید علی داماد بھی ہیں۔
ایوانِ علماء کی خصوصیات
ایوانِ علماء میں دو قریب قریب محراب نما قوسیں ہیں جن میں سے ایک بیرونی اور دوسری اندرونی ہے، ان دونوں قوسوں کو پیچیدہ بافت کی مانند نقش و نگار سے مزین کیا گیا ہے، جو آخر میں قاعدے پر ایک چھوٹے گلدان کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔

دو قوسوں کے درمیان کی جگہ منقش کربلائی کاشیوں سے پُر ہے، قوسوں کے درمیانی اور بالائی حصے میں سورہ مبارکہ الرحمن کی آیات لکھی گئی ہیں۔ ایوان کے نمایاں حصے کی زیادہ تر کاشی کاری خاص کربلائی کاشیوں سے کی گئی ہے، ایوان کے وسطی حصے میں قوس اور گنبد نما کاشی کاری کی گئی ہے جس پر گل و بوٹوں کے نقش کندہ ہیں اور اس قوس کے اطراف قوام الدین قزوینی کے اشعار درج ہیں۔
مزید برآں قوام الدین قزوینی کے اشعار ان قرآنی آیات کے اطراف بھی دیکھے جا سکتے ہیں جو اس ایوان میں درج ہیں، ان کی خطاطی کمال الدین حسین گلستانہ نے کی ہے اور ان کا تاریخی اندراج ایوان کی کاشیوں پر درج سنہ ۱۱۶۰ ہجری قمری سے تعلق رکھتا ہے۔

ایوانِ علماء بھی دیگر ایوانوں کی طرح ایک دروازے پر مشتمل ہے جس پر خاص اشکال، قوسیں اور چھوٹے چھوٹے ابھرتے ہوئے کمان نما نقش بنے ہیں جو قوس سے لٹک رہے ہیں اور ایوان کی زیب و زینت کو دو چندان کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ جو چیز اس ایوان کو دیگر ایوانوں سے ممتاز کرتی ہے وہ ایک بڑا سا جھروکہ (پنجرہ) ہے جس کے اوپر بڑے بڑے چاندی کے گولے جڑے ہوئے ہیں،یہ دروازہ ایوان کے وسط میں واقع ہے اور ایک چھوٹے کمرے کی طرف کھلتا ہے جو حرم مقدس امیرالمؤمنین علیہالسلام کے شمالی رواقوں میں سے ایک ہے۔

