سب سے زیادہ تلاش کیا گیا:

غزوۂ ذاتِ سلاسل میں امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی شجاعت، سُورۂ عادیات کے نزول کا سببغزوۂ ذاتِ سلاسل میں امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی شجاعت، سُورۂ عادیات کے نزول کا سبب

غزوۂ ذاتِ سلاسل میں امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی شجاعت، سُورۂ عادیات کے نزول کا سبب

غزوۂ ذاتِ سلاسل، جسے ’’غزوۂ وادی الرمل‘‘ بھی کہا جاتا ہے، ان معرکوں میں سے ہے جن میں امیرالمؤمنین علیہ‌السلام نے بے مثال شجاعت اور بے نظیر قیادت کا مظاہرہ فرمایا اور میدانِ کارزار کے فاتح قرار پائے۔

غزوۂ ذاتِ سلاسل، جسے ’’غزوۂ وادی الرمل‘‘ بھی کہا جاتا ہے، ان معرکوں میں سے ہے جن میں امیرالمؤمنین علیہ‌السلام نے بے مثال شجاعت اور بے نظیر قیادت کا مظاہرہ فرمایا اور میدانِ کارزار کے فاتح قرار پائے۔

بعض سیرت نگاروں کا بیان ہے کہ سورۂ عادیات اسی جنگ کے موقع پر رسول خدا صلی‌الله‌علیہ‌وآلہ پر نازل ہوا۔ یہ سورہ اس عظیم کارنامے کی تصویر کشی کرتا ہے جسے امیرالمؤمنین علیہ‌السلام نے تنِ تنہا، جانفشانی سے انجام دیا۔

آگے چل کر غزوۂ وادی الرمل کی تفصیل اور اس میں حضرت امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی بے مثال بہادری کا ذکر کیا جائے گا۔

غزوہ ذاتِ سلاسل کو غزوہ وادیِ رمل بھی کہا جاتا ہے، اس لیے کہ چند بادیہ نشین مدینہ (وادیِ رمل) پر حملے کے لیے جمع ہو ئے تھے، جبکہ أهلِ مدینہ ان کے ارادوں سے ناواقف تھے۔

ایک بادیہ نشین شخص رسولِ خدا صلی‌الله‌علیہ‌وآلہ کے پاس آیا اور انہیں اس واقعے سے آگاہ کیا، پیغمبرِ اکرم صلی‌الله‌علیہ‌وآلہ نے حکم دیا کہ امیرالمؤمنین علیہ‌السلام ’’پرچمِ رسول اللہؐ‘‘ کے ساتھ رات کے وقت ان لوگوں کی طرف روانہ ہوں۔

امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی آمد کا سن کر کفار میں خوف و ہراس

امیرالمؤمنین علیه‌السلام نے ویسا ہی کیا اور سحر کے وقت ان کے پاس پہنچے، آپ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ نمازِ صبح ادا کی اور پھر اپنے لشکر کو قطار میں کھڑا کیا، تلوار سے ٹیک لگائی اور فرمایا: اے لوگو! میں رسولِ خدا صلی‌الله‌علیہ‌وآلہ کا بھیجا ہوا ہوں: لا إِلٰہَ إِلّا اللہُ، مُحَمّدٌ رَسُولُ اللہِ؛ کہو ورنہ میں تمہیں تلوار سے ہلاک کر دوں گا۔

انہوں نے آپ سے کہا: جیسے آپ کے وہ دو دوست واپس لوٹے تھے، آپ بھی ویسے ہی لوٹ جائیے، امیرالمؤمنین علیہ‌السلام نے جواب دیا: میں لوٹ جاوں؟ اللہ کی قسم میں تمہیں تب تک نہیں چھوڑوں گا جب تک تم یا سرِ تسلیم نہ کر دو، یا میری تلوار سے مارے نہ جاؤ؛ میں علی بن ابی طالب بن عبدالمطلب ہوں[1]۔

جیسے ہی انہوں نے آپ کو پہچانا ، ڈر گئے؛ امیرالمؤمنین علیہ‌السلام نے کچھ کو ہلاک کیا اور بعض کو قید کیا، یہاں تک کہ وہ لوگ آپ کے سامنے تسلیم ہو گئے اور امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کے ہاتھوں فتح حاصل ہوئی۔

جب جبرائیل نے رسولِ خدا صلی‌الله‌علیہ‌وآلہ کو امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی فتح اور واپسی کی خبر دی

امِّ سلمہ بیان کرتی ہیں: رسولِ خدا صلی‌الله‌علیہ‌وآلہ میرے گھر میں آرام فرما رہے تھے کہ یکایک نیند سے بیدار ہو گئے، میں نے عرض کیا: اللہ آپ کی حفاظت فرمائے،آپ نے فرمایا: ہاں، اللہ میری حفاظت فرماتا ہے، لیکن یہ جبرائیل ہیں جو مجھے خبر دے رہے ہیں کہ امیرالمؤمنین علیہ‌السلام تشریف لا رہے ہیں پھر آپ لوگوں کی طرف تشریف لے گئے اور حکم دیا کہ امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کے استقبال کے لیے نکلیں۔

غزوۂ ذاتِ سلاسل میں امیرالمؤمنین علیه‌السلام کی فتح کے بعد سورۂ عادیات کا نزول

امِّ سلمہ مزید فرماتی ہیں: مسلمان بھی رسولِ خدا صلی‌الله‌علیہ‌وآلہ کے ساتھ دو صفوں میں علی علیہ‌السلام کے استقبال کو نکلے، جب امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی نگاہ رسول اکرم صلی‌الله‌علیه‌وآله پر پڑی، تو گھوڑے سے اتر آئے، آگے بڑھ کر رسولِ خدا صلی‌الله‌علیہ‌وآلہ کا بوسہ لیا،پیغمبر نے فرمایا: سوار ہو جائیے، بے شک خدا اور اس کا رسولؐ آپ سے راضی ہیں، یہ سن کر امیرالمؤمنین علیہ‌السلام خوشی سے رو پڑے اور اپنے گھر واپس تشریف لے گئے۔

اسی موقع پر رسولِ خدا صلی‌الله‌علیہ‌وآلہ پر سورۂ عادیات نازل ہوا۔

مزید مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے