سب سے زیادہ تلاش کیا گیا:

جنگ احزاب میں مسلمانوں کو دشمن سے بچانے والا

جنگ احزاب میں مسلمانوں کو دشمن سے بچانے والا

آج "آیات علوی” کے سیکشن میں، ایک ویڈیو کے ذریعے "آیات علوی کی کتابت کی نمائش” کے ایک اور قرآنی نمونے کا افتتاح کیا گیا، جسے خطاطی کے ایک استاد نے امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ‌السلام کے عظیم مقام کی توصیف میں تحریر کیا ہے۔

اس مضمون میں زیر بحث آیت سورہ احزاب کی آیت نمبر 25 ہے۔

اس آیت میں خداوند متعال فرماتا ہے:

” وَ رَدَّ اللَّهُ الَّذينَ كَفَرُوا بِغَيْظِهِمْ لَمْ يَنالُوا خَيْراً وَ كَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنينَ الْقِتالَ وَ كانَ اللَّهُ قَوِيًّا عَزيزاً”

اور اللہ نے کافروں کو ان کے غیظ و غضب کے ساتھ لوٹا دیا، انہیں کوئی بھلائی حاصل نہ ہوئی، اور اللہ نے مومنوں کو جنگ (کی مشقت) سے بے نیاز کر دیا، اور اللہ بڑا طاقتور اور ناقابل غلبہ ہے۔”

امام حسن مجتبیٰ علیہ‌السلام: 

شعبی، ابو مخنف اور یزید بن ابی حبیب مصری سے منقول ہے:

امام حسن مجتبیٰ علیہ‌السلام نے فرمایا: "… میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں! کیا تم جانتے ہو کہ رسول اللہ صلی‌اللہ‌علیہ‌وآلہ نے سات مقامات پر ابوسفیان پر لعنت بھیجی؟ پہلی بار اس وقت جب آپ صلی‌اللہ‌علیہ‌وآلہ مکہ سے نکل کر مدینہ کی جانب تشریف لے جا رہے تھے اور ابوسفیان شام سے واپس آ رہا تھا۔”

ابوسفیان نے حضور رسول اکرم صلی‌اللہ‌علیہ‌وآلہ کی شان میں گستاخی کی اور نازیبا کلمات کہے، نیز انہیں قتل کی دھمکی دی اور رسول اعظم صلی‌اللہ‌علیہ‌وآلہ پر حملہ کرنا چاہا، مگر اللہ تعالیٰ نے اس کے شر کو اپنے رسول سے ٹال دیا۔ دوسری بار وہ واقعہ پیش آیا جب ابوسفیان نے قافلے کو راستہ بدلوا دیا تاکہ اسے رسول اللہ صلی‌اللہ‌علیہ‌وآلہ کے دستِ قدرت سے نکال سکے۔ تیسری بار جنگِ احد کے موقع پر تھی جب رسول ختم المرسلین صلی‌اللہ‌علیہ‌وآلہ نے فرمایا: "اللہ ہی ہمارا کارساز ہے اور تمہارا کوئی کارساز نہیں”۔ اس پر ابوسفیان نے کہا: "ہمارے پاس عزّٰی (نامی بت) ہے اور تمہارے پاس عزّٰی نہیں ہے”۔ یہی وہ لمحہ تھا جب اللہ تعالیٰ، فرشتوں، پیامبر خاتم صلی‌اللہ‌علیہ‌وآلہ اور تمام مومنین نے ابوسفیان پر لعنت بھیجی… پھر جنگِ حنین کے دن جب ابوسفیان، قریش اور ہوازن کے لشکر کو لایا اور عیینہ نے غطفان اور یہودیوں کے گروہ کو جمع کیا۔ تو قادرِ مطلق اللہ نے ان سب کو غصہ دلایا اور ناکام حالت میں واپس پلٹا دیا، اور وہ کوئی فائدہ حاصل نہ کر سکے۔

یعنی اللہ سبحان وتعالیٰ کا کلام (سورۃ الاحزاب اور سورۃ الفتح میں) ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں کو کافر قرار دیتا ہے، اور یہی حقیقت ہے۔ اے معاویہ! اس دن تو اپنے باپ (ابوسفیان) کے مشرکانہ نظریے پر مکہ میں تھا، جبکہ حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ‌السلام اس دن نبی اکرم صلی‌اللہ‌علیہ‌وآلہ کے نظریے اور دین پر تھے۔ [1]

آپ نے اس آیت کریمہ "وَ رَدَّ اللهُ الَّذینَ کَفَرُوا بِغَیْظِهِمْ لَمْ یَنالُوا خَیْراً وَ کَفَی اللهُ المُؤْمِنینَ الْقِتال" (سورہ الاحزاب:25) کی تفسیر میں فرمایا:"یعنی (یہ کام) حضرت علی بن ابی طالب علیہ‌السلام کی قوت (و طاقت) سے (سرزد ہوا)!” [2]

 امام حسن عسکری علیہ‌السلام:

امام عسکری علیہ‌السلام نے مولائے متقیان حضرت علی علیہ‌السلام کو سلام کرتے ہوئے سورہ احزاب کی آیت "وَ كَفَى اللهُ الْمُؤْمِنينَ الْقِتالَ وَ كانَ اللهُ قَوِيًّا عَزيزاً"  کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے فرمایا: "سلام ہو آپ پر اے امیرالمؤمنین! آپ کے لیے ایک نمایاں مقام، مشہور مراتب اور متعین ایام ہیں، اور وہ روزِ بدر اور روزِ احزاب (خندق) ہیں، جب آپ نے (مشرکِ عرب) عمرو بن عبدود کو قتل کیا اور دشمن کے لشکر کو منتشر کر دیا۔ اللہ نے کافروں کو سخت غصے کے ساتھ (میدانِ جنگ سے) واپس پلٹا دیا، اور وہ (اپنے مقصد میں) کوئی بھلائی حاصل نہ کر سکے، اور اللہ نے (اس جنگ میں) مؤمنوں کو (آپ کے ذریعے) لڑائی سے بے نیاز کر دیا، اور اللہ توانا اور غالب ہے۔" [3]

 امام جعفر صادق علیہ‌السلام:

امامِ صادق علیہ‌السلام نے روزِ غدیر حضرت امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی زیارت کرتے ہوئے یوں فرمایا:
"… سلام ہو آپ پر، اے وہ ہستی جس کے ذریعے اللہ نے روزِ احزاب مؤمنوں کو جنگ (کی مصیبت) سے محفوظ رکھا!” [4]

ابن عباس روایت کرتے ہیں:

جب امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ‌السلام نے (مشرکِ عرب) عمرو (بن عبدود) کو قتل کیا، اور آپ کی تلوار سے (اس کا) خون ٹپک رہا تھا، تو آپ حضور رسول خدا صلی‌اللہ‌علیہ‌وآلہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ جب رسول ختم المرسلین صلی‌اللہ‌علیہ‌وآلہ کی نظر مولا علی علیہ‌السلام پر پڑی تو آپ نے "اللہ اکبر” کہا، اور مسلمانوں نے بھی (یہی کلمہ) دہرایا۔ پھر رسول اکرم صلی‌اللہ‌علیہ‌وآلہ نے بارگاہِ الٰہی میں عرض کی: "اے اللہ! علی کو ایسی فضیلت عطا فرما جو تو نے نہ کسی کو ان سے پہلے دی ہو اور نہ ہی بعد میں دے گا”۔ [5]

  • اس موقع پر حضرت جبرائیل علیہ‌السلام ایک تُرَنْج(ایک ایسا پھل جو لیموں سے مشابہ ہوتا ہے) لے کر جنت سے نازل ہوئے اور عرض کیا: "اے رسول اللہ! اللہ عزوجل آپ پر درود بھیجتا ہے اور فرماتا ہے: اس پھل کے ذریعے علی بن ابی طالب کو (طويلة العمری) عطا کرو"۔
  • رسول خدا صلی‌اللہ‌علیہ‌وآلہ نے وہ پھل حضرت امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی نذر کیا۔ آپ کے دستِ مبارک میں وہ پھل درمیان سے پھٹ گیا اور اس میں سے سبز ریشم کا ایک ٹکڑا نکلا، جس پر سبز رنگ سے دو سطریں تحریر تھیں:
    "تحفہ از جانب خداوند بلند مرتبت اور غالب، بہ علی بن ابی طالب"

مزید مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے