خوارج نے جنگ صفین کے آخری ایام میں حضرت امیرالمؤمنین علیہالسلام کی مخالفت کی اور آپ کو کافر قرار دے کر آپ کے ساتھ جنگ کو جائز سمجھا، نہروان یا خوارج کی جنگ امیرالمؤمنین علیہالسلام کی ایک اور بڑی لڑائی تھی، جو اگرچہ مسلمانوں کی فتح اور خوارج کی شکست پر ختم ہوئی، لیکن حضرت نے ان کے فتنہ و فساد کے خطرے سے سختی کے ساتھ آگاہ فرمایا۔
خوارج کی نفرت انگیز کاروائیاں، جنگ کی آگ بھڑکنے کی وجہ
جب خبر ملی کہ خوارج نے عبداللہ بن خباب بن ارت کو قتل کر دیا ہے، اعتراض کرنے والے عام لوگوں کو بھی ستایا ہے اور امیرالمؤمنین علیہالسلام کے قاصد کو شہید کر دیا ہے، تو حضرت کے اصحاب نے عرض کیا:
یا امیرالمؤمنین! ہم انہیں کیوں چھوٹ دے رہے ہیں؟ ہماری خاموشی سے یہ ہمارے اہل و عیال اور اموال پر قابض ہو جائیں گے، بہتر ہے کہ ان پر چڑھائی کریں، ان کے شر سے نجات پائیں اور پھر شام کے دشمنوں کی طرف روانہ ہوں۔
چنانچہ امیرالمؤمنین علیہالسلام اپنے ان سپاہیوں کے ساتھ جو اپنے گھروں پر خوارج کے حملے سے خوفزدہ تھے، ان کی طرح روانہ ہوئے، یوں دونوں لشکر نہروان میں آمنے سامنے ہوئے۔
امیرالمؤمنین علیہالسلام کی خوارج پر اتمام حجت
اس جنگ میں بھی حضرت نے ابتداء نہیں کی، بلکہ پہلے ان پر حجت تمام کی، آپ نے ابن عباس کو ان کی طرف روانہ کیا۔
اگرچہ دلیل و برہان سے ان سے گفتگو کی گئی، مگر وہ اپنی ہٹ دھرمی اور طغیان پر اصرار کرتے رہے پھر خود امیرالمؤمنین علیہالسلام آگے بڑھے اور انہیں حکمیت کے بارے میں اپنی مخالفت اور ان کے اصرار کی یاد دہانی کرائی تاکہ ان کے پاس کوئی عذر باقی نہ رہے۔ اکثریت نے توبہ کی اور پلٹ آئے، ان میں ان کا امامِ جماعت عبداللہ بن کوا بھی شامل تھا، لیکن کچھ لوگ صرف جنگ ہی چاہتے تھے۔
اس جنگ کے بارے حضرت کی پیشین گوئیوں کے عین مطابق ہونے سے امام علیہالسلام کی حقانیت میں اضافہ
جب دونوں لشکر آمنے سامنے ہوئے تو یہ خبر ملی کہ خوارج پل پار کر گئے ہیں، امیرالمؤمنین علیہالسلام نے فرمایا: خدا کی قسم، وہ پل پار نہیں کریں گے اور پل کو نہیں کاٹیں گے، بلکہ ان کی قتل گاہ پل کے کنارے ہی ہے۔
پھر دوبارہ کہا گیا کہ وہ پل پار کر گئے ہیں، لیکن حضرت نے قسم کھا کر فرمایا: خدا کی قسم! وہ ہرگز پل پار نہیں کریں گے۔ تم میں سے دس سے زیادہ قتل نہیں ہوں گے اور ان میں سے دس زندہ بچیں گے نہیں۔
بعد میں جب ایسا ہی ہوا جیسا آپ نے فرمایا تھا، تو سب نے صدائے تکبیر بلند کی، حضرت نے فرمایا: خدا کی قسم، میں نے نہ کبھی جھوٹ بولا ہے اور نہ سنا ہے۔
حضرت نے اپنے اصحاب کو پہلے ہی ہدایت دے دی تھی کہ جنگ کی ابتداء نہ کرنا جب تک وہ نہ کریں پھر خوارج نے نعرہ لگایا: بہشت کی طرف دوڑو! اور حملہ آور ہوئے۔
جنگ شروع ہو گئی اور اصحاب امیرالمؤمنین علیہالسلام نے بےمثال دلیری دکھائی، خوارج میں سے صرف آٹھ آدمی زندہ بچے جو ادھر اُدھر بھاگ نکلے، جبکہ حضرت کے لشکر میں نو آدمی شہید ہوئے، بعض منابع میں یہ تعداد سات بتائی گئی ہے۔
جنگ ختم ہوئی تو امیرالمؤمنین علیہالسلام نے فرمایا: ان میں ایک شخص ہے جس کے شانے پر موہاسہ ہے، اسے تلاش کرو۔ کچھ نے کہا نہیں ملا، کچھ نے کہا مقتولین میں نہیں ہے، حضرت نے فرمایا: خدا کی قسم! وہ انہیں میں ہے، میں نے نہ کبھی جھوٹ بولا ہے اور نہ ہی مجھ سے جھوٹ بولا گیا ہے، پھر تلاش کی گئی اور وہ ویسا ہی ملا جیسا آپ نے بیان فرمایا تھا۔
حضرت نے فرمایا: اللہ اکبر! میں نے نہ کبھی جھوٹ بولا ہے اور نہ ہی مجھ سے جھوٹ بولا گیا ہے، اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ تم اپنی سرگرمی چھوڑ دو گے تو میں تمہارے سامنے وہ واقعہ بھی بیان کرتا جو اللہ تعالی نے رسول اللہ صلیاللہعلیہوآلہ کی زبان پر جاری کیا ہے۔
جن لوگوں نے ان کے خلاف جنگ کی انہیں معلوم ہونا چاہیے انہیں مارنا بصیرت پر مبنی تھا اور ہم حق پر ہیں۔
خوارج کی نسل کی بقا اور ان کے عقیدے کے بارے میں امیرالمؤمنین علیہالسلام کی حیرت انگیز بات
جب امیرالمؤمنین علیہالسلام مقتولین کے درمیان سے گزرے تو فرمایا: افسوس تم پر! اس نے تمہیں نقصان پہنچا یا اور دھوکہ دیا۔
پوچھا گیا: یا امیرالمؤمنین! کس نے انہیں دھوکہ دیا؟
فرمایا: شیطان اور ان کے نفسِ امارہ نے انہیں دھوکہ دیا، جھوٹی امیدوں سے بہلایا، گناہ کو ان کی نظر میں خوشنما بنا دیا اور انہیں فتح کی جھوٹی آس دلائی۔
اصحاب نے کہا: خدا کا شکر ہے کہ آپ نے ان کی جڑ کاٹ دی۔
حضرت نے فرمایا: خدا کی قسم، ایسا نہیں ہے، یہ بیج کی مانند مردوں کی صلبوں اور عورتوں کے رحموں میں باقی ہیں۔
