محمد کاظم خراسانی (1255-1329 ہجری قمری)، جو آخوند خراسانی کے نام سے شہرت رکھتے ہیں، فقہ و اصول کے ایک جلیل القدر فقیہ اور نامور اصولی تھے۔ آپ شہرۂ آفاق کتاب کفایة الأصول کے مؤلف ہیں۔
(شیعہ اصولیّون سے مراد عالمِ تشیع کے وہ اکابر علماء ہیں جو اصولِ فقہ میں مہارتِ کامل رکھتے ہوں، اس علم پر گہری بصیرت اور اجتہادی نظر رکھتے ہوں، اور جن کی آراء فقہی و اصولی دنیا میں مرجع و مستند مانی جاتی ہیں)
ولادت اور خاندان
عالمِ تشیع کے جلیل القدر مراجع، نامور سیاستدان اور ایران کی آئینی و مشروطہ تحریک کے اہم حامیوں میں سے ایک، جناب آخوند خراسانی سنہ 1255 ہجری قمری میں شہرِ مقدس مشہد کے ایک ممتاز اور علم و فضل میں معروف خانوادے میں پیدا ہوئے۔
آپ کے جدِّ امجد کا تعلق ہرات سے تھا، تاہم آپ کا خاندان کئی دہائیوں سے شہرِ مقدس مشہد میں سکونت پذیر تھا۔
تعلیم اور اساتذہ
حضرت آیت اللہ محمد کاظم خراسانی نے ابتدائی دینی تعلیم مشہد میں مکمل کی، اس کے بعد آپ سبزوار تشریف لے گئے، جہاں آپ نے حاجی ملا ہادی سبزواری (مصنّفِ کتاب اسرار) کے حلقۂ درس سے وافر علمی استفادہ کیا۔
چند برس بعد آپ نے تہران کا رخ کیا، جہاں آپ نے میرزا ابوالحسن جلوہ سے حکمت و فلسفہ کی تعلیم حاصل کی۔
نجف کی جانب ہجرت
حضرت آیت اللہ آخوند خراسانی نے 22 برس کی عمر میں، ماہِ رجب 1277 ہجری قمری میں، علومِ عقلیہ و نقلیہ کی تکمیل کے بعد مشہد سے نجف اشرف کی جانب ہجرت کا ارادہ فرمایا، تہران میں ایک مختصر قیام کے بعد آپ نجف اشرف روانہ ہوئے۔
نجف جانے کا مقصد یہ تھا کہ آپ حرمِ مقدس امیرالمؤمنین علی علیہالسلام کے جوار میں رہ کر مزید تعلیم حاصل کریں اور علمی فضیلت کے مدارج طے کریں۔
آپ کی غریبی، وطن سے دوری، علم کے حصول کا بے پناہ شوق اور سختیوں و مشکلات کے مقابلے میں غیر معمولی صبر و استقامت وہ اوصاف تھے جنہوں نے آپ کو زبانزدِ خاص و عام بنا دیا۔
بہت ہی کم مدت میں نجف کے علمی و حوزوی حلقوں میں ہر طرف آپ کی شہرت پھیل گئی اور آپ اپنے زمانے کے نوادرِ روزگار اور نابغۂ وقت میں شمار ہونے لگے۔
اساتذہ
نجف اشرف میں قیام کے دوران آپ نے کئی جلیل القدر اور بلند مرتبہ علما سے کسبِ فیض کیا، ان میں نمایاں شخصیات کے نام درج ذیل ہیں:
شیخ مرتضی انصاری
آیت اللہ شہابی
سید علی شوشترى
سید مہدی قزوینی
شیخ رازی
ملا عبدالرسول مازندرانی
میرزا شیرازی (وہی بزرگ جنہوں نے تمباکو کی حرمت کا تاریخی فتویٰ دیا)
حضرت آخوند خراسانی اس سلسلے میں خود ارشاد فرماتے ہیں:
میرے سب سے بڑے استاد، جلیل القدر عالم، زاہد اور بلند پایہ عارف، جناب شیخ مرتضی انصاری ہیں۔
تدریس
جب حضرت آیت اللہ حاج میرزا حسن شیرازی سامرا کی طرف روانہ ہوئے تو آخوند خراسانی نجف اشرف میں ہی مقیم رہے اور علمِ اصول کے درس کا آغاز کیا۔
آپ کے درس میں ایسی علمی گہرائی اور کشش تھی کہ اہلِ نظر علما نے جلد ہی آپ کو ممتاز اور منفرد مقام کا حامل تسلیم کر لیا، آپ کا حلقۂ درس علما، فضلا اور مجتہدین سے لبریز رہتا تھا اور یہ درسگاہ نجف کے علمی حلقوں میں مرکزیت اختیار کر گئی۔
آخوند خراسانی کا درس اُس زمانے میں غیر معمولی شہرت کا حامل ہوا اور علمی دنیا میں اسے والہانہ پذیرائی ملی۔
اسی علمی برتری اور مقبولیت کے نتیجے میں آپ، میرزا شیرازی اور آیت اللہ رشتی کی وفات کے بعد، مرجعیت کے عظیم منصب پر فائز ہوئے۔
آخوند کے مدارس
جناب آخوند خراسانی نے خود اگرچہ پرانے اور خستہ حال مدرسوں میں تعلیم حاصل کی، جن کے چھوٹے اور تاریک کمروں میں روشنی تک میسر نہ تھی، لیکن اس کے عوض آپ نے حوزۂ علمیہ نجف کے طلاب کے لیے شایانِ شان مدارس تعمیر کروائے۔
ان مدارس میں کئی نامور اور جلیل القدر فقہا و علما نے تعلیم و تربیت حاصل کی اور علمی دنیا میں درخشاں مقام پایا۔
ان مدارس کے نام اور تاریخِ تاسیس درج ذیل ہیں:
مدرسۂ بزرگ آخوند — صحنِ حرم امیرالمؤمنین علیہ السلام کے قبلہ کی سمت واقع، تاریخِ تاسیس: 1321 ہجری قمری
مدرسۂ الوسطی — تاریخِ تاسیس: 1326 ہجری قمری
مدرسۂ الصغریٰ — تاریخِ تاسیس: 1328 ہجری قمری
شاگرد اور تلامذہ
اگرچہ یہ بات قطعی طور پر بیان کرنا مشکل ہے کہ آخوند خراسانی نے کتنے علما اور مجتہدین کی تربیت فرمائی، لیکن سوانح نویسوں اور تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ آپ کے ہر درس میں ایک ہزار سے زائد تلامذہ شریک ہوتے تھے، جن میں سے بیشتر مجتہدین تھے اور اپنے زمانے کے نابغۂ روزگار، جید اور ممتاز علما میں شمار ہوتے تھے۔
آپ کے بعض نمایاں شاگرد یہ ہیں:
آیت اللہ شیخ ابراہیم اردبیلی
آیت اللہ سید ابوالحسن نقوی
آیت اللہ آقا مجتبی تویسرکانی
آیت اللہ میرزا مشکین فاضل، وغیرہ
مرحوم آیت اللہ آخوند خراسانی نے ایسے نامور اور افاضل شاگرد تیار کیے جن میں سے ہر ایک نے عالمِ اسلام کے کسی نہ کسی خطے میں اپنے علمی اور فقہی نقوش چھوڑے۔
مشہور کتاب الذریعہ کے مؤلف نے لکھا ہے:
ایک موقع پر آخوند خراسانی کے حالیہ دروس میں سے ایک رات کے طلاب کی تعداد شمار کی گئی تو وہ بارہ سو (1200) سے زائد نکلی۔
اسی طرح بعض سوانح نگاروں نے آپ کے 310 شاگردوں کے نام تفصیل کے ساتھ ذکر کیے ہیں،ان میں سے چند ممتاز شخصیات درج ذیل ہیں:
آیت اللہ سید ابوالحسن اصفہانی (1284-1365ق)
آیت اللہ جمال الدین گلپایگانی (1295-1377ق)
آیت اللہ شیخ محمد جواد بلاغی (1282-1352ق)
آیت اللہ سید محمد تقی خوانساری (1305-1371ق)
آیت اللہ شیخ محمد حسین اصفہانی (1296-1361ق)
آپ کی اخلاقی خصوصیات
جناب آخوند خراسانی اپنی ذاتی زندگی میں نہایت شفیق باپ، وفادار اور ایثار پیشہ شوہر تھے، ان کے فرزندوں کا بیان ہے کہ انہوں نے کبھی نہیں دیکھا کہ غصے اور طیش کا شیطان ان پر غالب آیا ہو، وہ خوش اخلاق، بردبار اور حلیم الطبع انسان تھے، جو اپنے اہلِ خانہ، خصوصاً زوجہ اور اولاد کے حالات اور ضروریات کا بھرپور خیال رکھتے تھے۔
آخوند خراسانی اپنے لباس، بدن کی پاکیزگی اور ظاہری وضع قطع کو بہت اہمیت دیتے تھے،ان کا باطن بھی پاکیزہ تھا اور ظاہر بھی نہایت صاف ستھرا اور مرتب رہتا تھا۔
ان کی شخصیت کی نمایاں ترین اخلاقی صفت سَعۂ صدر (وسعتِ قلب) تھی، وہ اپنی زندگی میں پیش آنے والی سختیوں اور آزمائشوں کے مقابلے میں حیرت انگیز صبر و استقامت کا مظاہرہ کرتے اور اپنے شاگردوں و معاصرین کے لیے عملی نمونہ بن جاتے تھے۔
آخوند خراسانی کی اولاد
آخوند خراسانی کے پانچ بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔
مرحوم کی اکلوتی بیٹی سنہ 1308 ہجری قمری میں نجف میں پیدا ہوئیں،ان کی شادی میرزا حبیب اللہ رشتی سے ہوئی اور بعد ازاں وہ تہران منتقل ہو گئیں،آخرکار وہیں ان کا انتقال ہوا، مرحومہ کی میت کو نجف منتقل کر کے اپنے بزرگوار والد کے جوار میں دفن کیا گیا۔
آقا میرزا مہدی (وفات: 1356 ہجری قمری)؛ آپ کا انتقال تہران میں ہوا اور مشہد میں دفن کیے گئے۔
آیت اللہ آقا میرزا محمد (وفات: 1356 ہجری قمری)؛ آپ کو حضرت شاہ عبدالعظیم کے حرم مطہر میں سپردِ خاک کیا گیا،آپ ایک بہادر مجاہد اور حوزۂ علمیہ مشہد کے جید اساتذہ میں سے تھے۔
آیت اللہ احمد کفائی خراسانی (وفات: 1391 ہجری قمری)؛ آپ کو حرم امام رضا علیہ السلام میں دفن کیا گیا۔ آپ کا درسِ خارج مسجد گوہرشاد میں منعقد ہوتا تھا۔
حاج حسین آقا (وفات: 1396 ہجری قمری)؛ آپ نے کئی برسوں تک تہران کی مساجد میں امام جماعت کے فرائض انجام دیے،وفات کے بعد آپ کو اپنے بزرگوار والد کے پہلو میں سپردِ لحد کیا گیا۔
حاج حسن کفائی (وفات: 1374 ہجری قمری)؛ آپ کو حضرت شاہ عبدالعظیم کے حرم میں دفن کیا گیا۔
آثار اور تألیفات
مرحوم آخوند خراسانی کی اہم ترین علمی و فقہی تصنیفات میں مندرجہ ذیل کتابیں نمایاں حیثیت رکھتی ہیں:
کفایة الأصول
رسالہ الفوائد
حاشیہ بر مکاسب شیخ انصاری
رسالۂ أعلام الشیعة
رسالۂ عدالت
حاشیہ بر رسائل
کتاب روح الہیّات
کتاب شرح التبصرة
کتاب فی الوقف
کتاب فی القضاء
ان میں سب سے اہم اور باعظمت کتاب کفایة الأصول ہے، جو آج بھی حوزۂ علمیہ کے اعلیٰ نصاب میں شامل ہے اور درسِ خارج اصولِ فقہ کی بنیادی اور مرکزی کتاب سمجھی جاتی ہے۔
مزید برآں، آپ کی کئی دیگر تالیفات بھی ہیں جو اشاعت تک نہ پہنچ سکیں، مگر ان کے خطی نسخے آج بھی رسائل اور مقالات کی شکل میں محفوظ ہیں۔
آخوند خراسانی قدس سرہ کی زندگی کے عجائبات کے کچھ گوشے
یہاں مناسب ہوگا کہ جناب آخوند خراسانی کی علمی عظمت، سماجی شہرت اور ان کی سادہ و زاہدانہ زندگی کے چند پہلوؤں پر روشنی ڈالی جائے، خصوصاً ایک ایسے شخص کی زبانی جس نے ان مناظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھا جبکہ وہ خود مسلمان بھی نہ تھا:
اس وقت نجف میں چار معروف مجتہد موجود ہیں:
آخوند ملا کاظم خراسانی، جو مشہد سے تعلق رکھتے ہیں اور پچاس برس سے زائد عرصے سے مقاماتِ مقدسہ کے جوار میں مقیم ہیں؛ حاجی میرزا حسین بن میرزا خلیل تهرانی؛ آقا سید کاظم یزدی؛ اور ایک عرب مجتہد، آقا سید محمد بحرالعلوم۔
ان میں سب پر بلا منازع برتری، جناب آخوند ملا کاظم خراسانی کو حاصل ہے، جنہیں حقیقتاً زعیمِ عالمِ تشیع اور پورے مشرقِ وسطیٰ کی سب سے عظیم مذہبی شخصیت مانا جاتا ہے۔
انہوں نے اپنے چھوٹے سے دولت کدے میں، جو روضۂ اقدس کے قریب واقع ہے، میری حاضری قبول فرمائی، وہ ضعیف العمر شخصیت تھے، سفید ریش، باریک اندام اور بڑے سفید عمامے سے مزین۔ انہوں نے قرآن کی اعلیٰ تعلیمات پر مجھ سے گفتگو کی اور خاص طور پر قرآن کی بشر دوستی اور احکامِ الٰہیہ کی جامعیت پر زور دیا، پھر انہوں نے میرے حق میں نہایت شفقت سے دعا کی کہ ان شاء اللہ ایک دن میری آنکھیں کھلیں اور اسلامی حقائق روشن ہوں۔
شیخ انصاری کا پیراہن جو شاگرد کو بخشا گیا
آخوند خراسانی نے اپنی زندگی کے بارے میں خود بیان کرتے ہوئے کہا:
اپنے طالب علمی کے دور میں میں نے نہایت ہی تنگدستی کی زندگی بسر کی ، ایک دن درس کی نشست ختم ہوئی تو شیخ مرتضی انصاری نے مجھ سے فرمایا: ‘آخوند! میں دیکھ رہا ہوں کہ تم بڑے مؤدب انداز میں بیٹھے ہو؟’
میں نے شرم کے مارے سر جھکا لیا اور اپنی عبا کو سینے پر کھینچ لیا، کیونکہ میرے بدن پر قمیص نہیں تھی۔
اس وقت میرے پاس لباس میں صرف ایک پرانی قبا، ایک بوسیدہ عبا اور پھٹے تلووں والے جوتے تھے۔ چلنے میں بڑی دقت ہوتی تھی کہ پیر زمین سے نہ لگیں اور نجس نہ ہوں،کبھی دن میں تین مرتبہ پیر دھونا پڑتے۔
میری حالت دیکھ کر ایک طالب علم نے مجھے پرانا جوتا دیا تو گویا مجھے پوری دنیا مل گئی۔
ایک دن شیخ انصاری نے میری یہ حالت دیکھ لی اور حکم دیا کہ مجھے قمیص لا کر دی جائے۔
وہ مرجع جس نے چالیس برس تک گوشت نہ کھایا
آخوند خراسانی اپنی زاہدانہ زندگی کے بارے میں فرماتے ہیں:
میں نے چالیس برس نہ گوشت کھایا نہ کبھی اس کی خواہش کی، میری خوراک صرف غور و فکر تھی اور میں اسی پر راضی و قانع تھا۔ مجھے شمع خریدنے کے لیے پیسے دیے جاتے مگر میں اندھیروں میں گزارا کرتا اور وہ پیسے اپنے سے زیادہ ضرورت مند کو دے دیتا۔
رات کو مدرسے میں عام چراغ کے نیچے بیٹھ کر مطالعہ کرتا،طلاب میری طرف توجہ نہیں کرتے تھے، بس چند غریب طالب علم میرے ساتھ ہوتے۔
میری نیند چھ گھنٹے سے زیادہ نہ تھی، کیونکہ بھوکا انسان گہری نیند نہیں سوسکتا، میں اکثر رات جاگتا اور ستاروں کو اپنا ہم محفل بناتا۔
ایسے اوقات میں مجھے یاد آتا کہ حضرت امیرالمؤمنین علی علیہالسلام بھی اکثر راتیں یوں ہی گزارتے تھے۔
اپنی تنگدستی اور بدحالی کے باوجود مجھے محسوس ہوتا تھا کہ میری فکر کسی اور عالم کی طرف پرواز کر رہی ہے، اور ایک قوت ہے جو میری روح کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔
تیس برس تک میری واحد خوراک صرف خشک روٹی رہی اور میں کبھی شکوہ نہیں کیا۔
آخوند خراسانی کی سیاسی زندگی
آخوند خراسانی کی شہرت ایک سیاسی رہنما کے طور پر اس وقت سامنے آئی جب انہوں نے ظالم و جابر حکومت کی مخالفت میں غیر معمولی ہمت و شجاعت کا مظاہرہ کیا اور ایران کی آئینی و مشروطہ تحریک کے لیے بے شمار کوششیں کیں۔
آپ اپنے دور کے دو جلیل القدر مجتہدین، حاج میرزا حسین خلیلی تهرانی اور حاج شیخ عبداللہ مازندرانی کے ساتھ مل کر، ایران کے مذہبی و سیاسی رہنماؤں کو خطوط اور ٹیلیگرام ارسال کرتے اور اعلانات کے ذریعے سیاسی و سماجی حالات پر مؤثر ردعمل ظاہر کرتے تھے۔
مشروطیت کے بارے میں آخوند خراسانی کا نظریہ
آخوند خراسانی اور ان کے ہمراہ علما، آئینی اور مشروطہ نظام کو ظلم کو محدود کرنے کا ایک مؤثر ذریعہ سمجھتے تھے،ان کے نزدیک تمام مسلمانوں پر مشروطیت کی تحریک میں شرکت واجب تھی۔
آپ نے میرزا نائینی کی شہرہ آفاق کتاب تنبیہ الامہ و تنزیہ الملہ پر تقریظ تحریر کی اور وضاحت فرمائی کہ مشروطیت کے اصول شریعتِ محقہ سے ماخوذ ہیں۔
مشروطہ تحریک میں قیادت اور کردار
اگرچہ مشروطیت کا فرمان جاری ہوچکا تھا اور اسمبلی کے انتخابات بھی ہو چکے تھے، مگر نیا بادشاہ محمد علی شاہ اسمبلی اور اس کے قوانین کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہ تھا، ایسے میں بعض علما اور آئین پسند رہنماؤں نے نجف کے مشروطہ پسند مراجع، خصوصاً آخوند خراسانی سے مدد طلب کی۔
جناب آخوند خراسانی نے بارہا اپنے استفتائات کے جوابات میں ایرانی حریت پسندوں کی پارلیمانی کمیٹی کے قیام اور اس کے تحفظ کی تائید کی۔
آپ کے ایک فتویٰ میں یہ الفاظ ملتے ہیں:
مذکورہ قانون ساز اسمبلی کی مخالفت میں کوئی قدم اٹھانا، دینِ حنیف اسلام کے احکام کی مخالفت کے مترادف ہے لہٰذا مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ ہر اس تحریک کی مخالفت کریں جو اس اسمبلی کے خلاف ہو۔
اسمبلی اور قوانین کی حمایت
آخوند خراسانی کی ایران کی اسمبلی اور آئینی حکومت کی حمایت، کسی خاص گروہ کے مفاد کے لیے نہ تھی بلکہ عدل قائم کرنے، مظلوم و محروم طبقات پر ظلم ختم کرنے اور معاشرتی انصاف کے قیام کے لیے تھی۔
انہوں نے اسمبلی کے آغاز پر ایک خط بھیجا جس میں اس عمل کی مبارکباد دی، آپ، حاج میرزا حسین خلیلی اور حاج شیخ عبداللہ مازندرانی کے ہمراہ، اسمبلی کے اراکین کو قوانین کے نفاذ اور ان کی منظوری کے سلسلے میں مسلسل ضروری احکامات اور ہدایات دیتے رہے۔
جن قوانین میں آپ کی خصوصی توجہ شامل رہی ان میں
فوج داری نظام اور مسلح افواج کی تشکیل
جدید علوم کی بنیاد پر نئے طرز کے اسکولوں کا قیام
قومی بینک (National Bank) کے قیام کا قانون
اسی طرح، 28 ذی الحجہ 1325 ہجری قمری کو آپ نے ایک خط کے ذریعے اسمبلی کے اراکین کو اسلامی قوانین کے نفاذ، ملک کے قرضوں کی ادائیگی اور غربت و مفلسی کے خاتمے کی تاکید فرمائی۔
ظلم و جور کے خلاف مزاحمت
نجف اشرف کے مشروطہ پسند مراجع جن کی قیادت آخوند خراسانی کر رہے تھے، کو محمد علی شاہ کی بدعہدیوں اور مخالفتوں پر گہری تشویش تھی، وہ پارلیمنٹ کی تحلیل کو ملتِ ایران کے لیے کاری ضرب تصور کرتے تھے اور حکومت کی قانونی حیثیت کے تحفظ اور اسمبلی کے بند کیے جانے کی ہر کوشش کے خلاف مزاحمت پر زور دیتے تھے۔
لہٰذا اپنے خطوط اور ٹیلیگرام میں وہ بارہا پارلیمنٹ کے قوانین کی پابندی اور اسمبلی کی حمایت کی ضرورت پر زور دیتے رہے اور عوام کو آئینی تحریک کے ساتھ وابستہ رہنے کی ہدایت فرماتے رہے۔
محمد علی شاہ قاجار کے خلاف مزاحمت کا فرمان
محمد علی شاہ قاجار نے جب اسمبلی کو تحلیل کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو آخوند خراسانی نے بادشاہ کو ایک دس نکاتی نصیحت نامہ ارسال کیا، اس میں انہوں نے انہیں کو اسلامی قوانین کی پابندی، اغیار سے دوری اور سامراجی طاقتوں کی مخالفت، عوامی فلاح و بہبود کی ترویج، عدل و انصاف کے قیام اور تاریخ سے عبرت حاصل کرنے کی نصیحت فرمائی۔
لیکن محمد علی شاہ نے روس کی حمایت سے 23 جمادی الاول 1326 ہجری قمری کو ایک گستاخانہ اقدام کرتے ہوئے اسمبلی پر گولہ باری کی اور نئے قائم شدہ مشروطہ نظام کا خاتمہ کردیا۔
آخوند خراسانی نے اس اقدام پر سخت ردعمل کا اظہار کیا، آپ نے ایک خط کے ذریعے شاہ کے عمل کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور اس کی خفیہ سازشوں کو بے نقاب کیا۔ نجف کے مشروطہ حامی علما کے نزدیک محمد علی شاہ کی یہ حرکت محض ظلم و جبر کی واپسی نہ تھی بلکہ ایک استعماری منصوبہ تھا جس کا مقصد اسلامی ممالک پر غیر ملکی تسلط کو مزید تقویت دینا تھا۔
لہٰذا آخوند خراسانی نے فتویٰ جاری کیا اور اعلان فرمایا کہ محمد علی شاہ کو نہ کسی قسم کا ٹیکس وصول کرنے کا حق ہے اور نہ ہی وہ غیر ملکی حکومتوں کے ساتھ کسی معاہدے کا مجاز ہے۔
اسی سلسلے میں آپ نے شیخ اسد اللہ ممقانی کو استنبول بھیجا تاکہ وہاں مقیم ایرانی حریت پسندوں سے گفت و شنید کریں اور انہیں استبداد کے خلاف جدوجہد کی ترغیب دیں۔
ستارخان اور تبریز کی جدوجہد کی حمایت
جب آذربائیجان کے عوام نے ستارخان کی قیادت میں مشروطہ نظام کی بحالی کے لیے قیام کیا تو آخوند خراسانی نے، جن کا باکو کے مسلمانوں میں گہرا اثر و رسوخ تھا، حاج شیخ عبداللہ مازندرانی کے ہمراہ 20 ذیقعدہ 1326 ہجری قمری کو روس کے مسلمانوں کے نام ایک خط ارسال کیاجس میں تبریز کے انقلابیوں کی مدد کی درخواست کی۔
مزید برآں، آپ نے متعدد خطوط، پیغامات اور احکامات جاری کرکے تبریز کے عوام کے قیام کی بھرپور حمایت کی اور ان سے کہا کہ وہ ظلم و استبداد کے خلاف اپنی جدوجہد کامیابی تک جاری رکھیں۔
مشکوک وفات
آخرکار آخوند خراسانی نے حالات کا قریب سے جائزہ لینے اور عوام کو گمراہیوں سے بچانے کی خاطر چند دیگر علما کے ہمراہ ایران جانے کا فیصلہ کیا، لیکن اچانک نجف میں ان کا انتقال ہوگیا۔
ان کی وفات کو عام طور پر قدرتی قرار نہیں دیا گیا بلکہ یہ امکان ظاہر کیا گیا کہ انہیں برطانوی ایجنٹوں نے زہر دیا تھا، اس واقعے سے چودہ ماہ قبل شیخ عبداللہ مازندرانی نے بھی اعلان کیا تھا کہ ان کی اور آخوند خراسانی کی جان کو خطرہ لاحق ہے۔
آخوند خراسانی نے بدھ کی رات، 21 ذی الحجہ 1329 ہجری قمری میں وفات پائی۔ آپ کو میرزا رشتی کے مقبرے میں، صحن امیرالمؤمنین علیہ السلام کے دالانِ سلطانی میں دفن کیا گیا۔
مأخذ : مجلہ پیام حوزه، شماره ۷ , صادقی، محسن