پہلے حصے میں اسلامی فن تعمیر میں میناروں اور گلدستوں کی تعمیر کی تاریخ، بارگاه امیرالمؤمنین علیہ السلام کے میناروں کی منفرد خصوصیات، اور ان میناروں پر موجود تحریروں پر روشنی ڈالی گئی۔ اس سلسلے کے دوسرے حصے میں، یہ رپورٹ میناروں کے فن تعمیر اور ان پر کی گئی تجدید و مرمت پر بات کرتی ہے۔
حرم امیرالمومنینؑ کے میناروں کی تجدید و مرمت
"وقت گزرنے، موسمی حالات، اور اس کے علاوہ بعثی حکومت کے دور میں پیش آنے والے بعض فوجی حملوں کی وجہ سے، حرم امیرالمؤمنین علیہ السلام کے میناروں کو کچھ نقصان پہنچا، جس کی وجہ سے وقتاً فوقتاً جزوی اور کلی تجدید و مرمت کی گئی۔ ایک دور میں ہم دیکھتے ہیں کہ مینار جزوی طور پر تباہ ہو جاتا ہے، اور بعض اوقات یہ تباہی مکمل ہوتی ہے۔ لیکن تاریخ میں ہونے والی اہم ترین تجدید و مرمت کی کارروائیوں کو اس طرح بیان اور واضح کیا جا سکتا ہے:
قاجاریہ دور حکومت میں، ‘حاج محمد حسین اصفہانی’، فتح علی شاہ قاجار کے وزیر، نے ان سنہری چادروں کی مرمت کی جو میناروں سے گر گئی تھیں۔ یہ مرمت 1236 ہجری قمری میں کی گئی۔
اس کے بعد 1281 ہجری قمری میں، سلطان ‘عبدالعزیز عثمانی’ کے زمانے میں، حرم مطہر کے جنوبی طرف کے مینار پر تجدید و مرمت کی گئی۔ نیز، ‘عبدالحمید عثمانی’ کے دور حکومت میں شمالی جانب کے مینار کی مرمت کی گئی۔
عراق میں بادشاہت کے دور میں، 1352 ہجری قمری میں، ہم نے جنوبی طرف کے مینار کی تباہی اور اس کی تجدید و مرمت دیکھی۔ کی گئی جزوی اور کلی تباہی و تعمیر کے دوران، دونوں میناروں کی اونچائی میں تقریباً آدھے میٹر کا فرق پیدا ہو گیا۔
لیکن حرم امیرالمومنینؑ کی انتظامیہ کے ذریعے کی گئی حالیہ مرمت میں، میناروں کی اونچائی 28.5 میٹر رکھی گئی اور دونوں میناروں کو اس اونچائی کے ساتھ دوبارہ تعمیر کیا گیا۔
گنبد کی طلا کاری 2016 عیسوی میں مکمل ہونے کے فوراً بعد، 2017 عیسوی میں دونوں میناروں اور مشرقی جانب کے بڑے ایوان، جو ‘طلائی ایوان ‘ کے نام سے مشہور ہے، کی طلا کاری کا منصوبہ شروع کیا گیا۔
حرم امیرالمؤمنین علیہ السلام کے جنوبی طرف کے مینار کی طلا کاری پہلے والے ہی اندازوں کے مطابق 1440 ہجری (2019 عیسوی) میں مکمل ہوئی، اور اس کے فوراً بعد شمالی جانب کے مینار کی طلا کاری کا آغاز کیا گیا۔
لیکن حرم امیرالمؤمنین علیہ السلام کے میناروں کی پہلی طلا کاری کی تاریخ نادر شاہ افشار کے زمانے سے ملتی ہے۔ نادر شاہ افشار نے پہلی بار گنبد کی گردن، اس کے دونوں مینار، اور ایوان طلا کے حصوں کو سونے سے ملمع کروایا۔
1853 عیسوی میں، انگریز سیاح ‘لوٹس’ نے نجف اشرف کا سفر کیا اور اپنے نوٹس میں لکھا: "بارگاه کے تین ستونوں پر تین مینار تھے، جن میں سے سامنے والے 2 سنہری اینٹوں سے ڈھکے ہوئے تھے۔ ان میں سے ہر مینار کی طلا کاری کی لاگت 1 تومان تھی، جو 2 پاؤنڈ کے برابر تھی۔ مینار اس گنبد کے ساتھ مل کر ایک شاندار نظارہ پیش کرتے تھے اور ہم اس کی توصیف سے قاصر ہیں۔ بڑا سنہری گنبد سورج کی روشنی میں چمکتا ہے اور دور سے دیکھنے والے کے لیے ایسا لگتا ہے جیسے بیابان کے درمیان سونے کا ایک ٹیلا اُبھرا ہوا ہو۔ حلقے کے اوپر سنہری، اُبھرے ہوئے، اور زینہ دار مقرنس (stalactites) ہیں جن کی شکل انتہائی ہم آہنگی اور خوبصورتی کی حامل ہے۔ مؤذن کا بالکنی بھی تمام سمتوں میں کھلنے والی 12 کھڑکیوں کا حامل تھا۔ مؤذن کے بالکونی کے اوپر ایک پتلا اسطوانہ (cylinder) ہے جس کی موٹائی1 میٹر سے زیادہ ہے اور اس کی اونچائی 4 میٹر ہے، اور یہ ایک سنہری گنبد پر منتج ہوتا ہے جس پر اُبھار ہیں۔ اس گنبد کے اوپر ایک ستونی گلدستہ ہے جس میں سنہری کاری کیے گئے دو توپ کے گولے ہیں جو اپنے اوپر لفظ جلالہ ‘الله’ کو سہارا دئے ہوئے ہیں۔ ہر مینارنیچےسے لے کر سب سے اوپر کے نقطہ تک خالص سونے کے سنہری ٹکڑوں سے ڈھکا ہوا ہے۔”
میناروں کے سنگ مرمر سے ڈھکی ہوئی نچلی سطح کے اوپر، طلا کاری سب سے پہلے ایک ایسے حلقے سے شروع ہوتی ہے جس پر اشعار کندہ ہیں اور جو طلا کاری کے سال کو تاریخ کے طور پر درج کرتے ہیں۔ شمالی جانب کے مینار پر اور علامہ حلی کے مزار کے قریب فارسی اشعار کے ذریعے تاریخ درج کی گئی ہے، اس کے مصنف کا نام ‘محمد جعفر’ اور طلا کاری کا سال 1156 ہجری قمری درج ہے۔ جنوبی جانب کے مینار پر اور ‘مقدس اردبیلی’ کے مزار سے متصل، ‘علی بن ابی المعالی طباطبائی’ کے اشعار لکھے گئے ہیں اور میناروں کے مکمل ہونے کا سال، یعنی 1156 ہجری، تاریخ کے طور پر درج کیا گیا ہے۔
‘سعاد ماہر’ اپنی کتاب ‘مشهد نجف’ میں کہتی ہیں: "اگرچہ دونوں میناروں کی تعمیر کی تاریخ واضح طور پر متعین نہیں کی گئی ہے، لیکن بلاشبہ ان کا فن تعمیر صفوی دور سے متعلق ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ان کی تعمیر کی تاریخ شاہ عباس صفوی کے زمانے میں پلٹتی ہے، کیونکہ وہ دونوں بارگاه کی اصل تعمیراتی طرز کی مانند ہیں۔ نادر شاہ افشار کی تجدید و مرمت بھی 1155 ہجری قمری کی طرف پلٹتی ہے۔ اس نے دونوں میناروں اور بڑے ایوان کو ڈھانپنے والی کاشی کاری کو ہٹانے اور ان کی جگہ خالص سونے سے ملمع کاری کی ہوئی تانبے کی چادریں لگانے کا حکم دیا۔ اس نے اس کام کے لیے ماہرین بلائے اور اس اقدام کی لاگت ایک بڑی رقم تھی۔”
نادر شاہ کے ذریعے طلا کاری کے بعد دونوں میناروں کی مرمت و تجدید کے لیے متعدد اقدامات کیے گئے۔ ان مرمتوں میں سے پہلی حاج ‘محمد حسین خان اصفہانی’، فتحعلی شاہ قاجار کے وزیر، کے حکم سے 1236 ہجری میں کی گئی۔ یہ مرمت اس کے بعض پہلوؤں کے ٹوٹنے اور میناروں کی بعض سنہری چادروں کے گرنے کی وجہ سے کی گئی تھی۔
مقدس اردبیلی کے مزار سے متصل جنوبی طرف کے مینار کی مرمت بھی 1281 ہجری قمری میں سلطان ‘عبدالعزیز خان عثمانی’ کے حکم سے کی گئی۔ یہ کام اس سے سنہری چادریں ہٹانے، اسے مکمل طور پر تباہ کرنے، دوبارہ تعمیر کرنے، اور اس کی سنہری چادروں کو واپس لگانے کے بعد کیا گیا۔
علامہ حلی کے مزار سے متصل شمالی جانب کے مینار کی مرمت بھی 1315 ہجری قمری میں سلطان ‘عبدالحمید خان عثمانی’ کے حکم سے، سنہری چادریں ہٹانے، مینار کے بالائی حصے کو تباہ کرنے، دوبارہ تعمیر کرنے، اور سنہری چادروں کو واپس لگانے کے بعد کی گئی۔ اس مینار کی مرمت و تجدید 10 جمادی الثانی 1316 ہجری کو مکمل ہوئی۔
جنوبی طرف کے مینار کی ایک بار پھر جمادی الاول 1352 ہجری میں اس کے بالائی حصے کو تباہ کر کے اور عراقی شیعہ وقف کے انتظامیہ کے خرچ پر اسے دوبارہ تعمیر کر کے مرمت و تجدید کی گئی۔ یہ اس وقت ہوا جب شمالی جانب کے مینار کی ایک بار پھر شیعہ وقف کے انتظامیہ کی طرف سے 1366 ہجری میں اس کے بالائی حصے کو توڑ کر اور دوبارہ تعمیر کر کے مرمت کی گئی۔
‘شیخ جعفر محبوبہ’ کہتے ہیں: "1367 ہجری کے آغاز میں، بارگاه امیرالمؤمنین علیہ السلام کے شمالی جانب کے مینار کی سنہری چادریں مکمل طور پر ہٹا دی گئیں اور اس کا بالائی حصہ خراب کر کے اسے اپنی سابقہ حالت میں واپس لایا گیا۔ ان اقدامات کا اختتام اسی سال ماہ رجب میں ہوا۔”
آج کل،حرم امیرالمومنینؑ کی انتظامیہ بھی دونوں میناروں کی دوبارہ طلا کاری کر رہی ہے،جنوبی طرف کے مینار اور اس سے منسلک طلائی ایوان کے حصوں کی مرمت، تجدید اور دوبارہ طلا کاری 23 ذی الحجہ 1440 ہجری کو مکمل ہو چکی ہے۔