سب سے زیادہ تلاش کیا گیا:

حرم مقدس امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی طلاکاری کی تاریخ

حرم مقدس امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی طلاکاری کی تاریخ

صفوی دور میں تعمیر کے اختتام پر حرم مقدس امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کو نیلگوں کاشی کاری سے ڈھانپا گیا تھا، تاہم، صفوی دور کے ختم ہونے اور نادر شاہ افشار کے ایران میں تخت سنبھالنے کے بعد، انہوں نے گنبد، دونوں میناروں اور بڑے مشرقی ایوان سے کاشیوں کو ہٹا کر ان کی جگہ خالص سونے سے ملمع کاری کی ہوئی تانبے کی چادریں لگانے کا حکم دیا۔ حرم کی طلاکاری کا عمل 1155 ہجری (1742 عیسوی) میں شروع ہوا اور 1156 ہجری (1743 عیسوی) میں مکمل ہوا۔
شیخ محمد حسین حرز الدین نے اپنی تاریخ میں کتاب "نادر نامہ”  سے صفحہ 473 پر یوں نقل کیا ہے: "جب سلطان نادر شاہ کی طرف سے متبرک گنبد کی طلاکاری کا حکم صادر ہوا تو شاہی خادموں نے بہترین طریقے سے کام کیا اور مبارک گنبد کی طلاکاری میں نہایت احتیاط برتی۔ اس کام پر ہونے والے تمام اخراجات کا حساب لگایا گیا جو پچاس ہزار تومان بنتا تھا اور نادر شاہ نے یہ رقم حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام کے حوالے کر دی (یعنی ان کے روضے پر خرچ کی)۔” (1)
شاید یہاں شیخ محمد کبہ کی کتاب "الدرار المنثورہ” سے براقی کے "الیتمہ الغرویہ”میں نقل کردہ بات کو یاد کرنا مناسب ہو:”حرم مقدس امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کے گنبد اور روضۂ مبارک کی طلا کاری 1150 ہجری میں مکمل ہوئی، جس کے لئے نادر شاہ نے یہ نذر مانی تھا کہ اگر خداوند اسے ہندوستان فتح کرنے میں کامیابی عطا کرے گا تو وہ یہ کام کرے گا۔ خدا نے اسے توفیق دی اور اس نے ہندوستان اور بہت سے دیگر ممالک فتح کیے اور اسی وجہ سے اسے ’’ابوالفتوح‘‘ کہا جاتا ہے۔ پس اس نے اپنے وعدے کو پورا کیا۔” (2)
اس سبب سے قطع نظر جو نادر شاہ کو حرم مقدس امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی طلاکاری پر آمادہ کرنے کا محرک بنا، حرم کی طلاکاری کے ان عظیم علامتی پہلوؤں کی اہمیت کسی بھی صاحب فکر پر پوشیدہ نہیں ہے۔ یہ سب اس بات کی واضح دلیل ہے کہ حضرت امیر علیہ السلام جنہوں نے اپنی پوری باعزت زندگی میں دنیا کے مال و دولت اور طاقت کے سامنے زہد اور بے نیازی کو اپنایا، اب سونا اور دولت خود عاجزی کے ساتھ آپ علیہ السلام کے مرقد پر نثار ہو رہے ہیں۔ حضرت علی علیہ السلام کے خطبات اور احادیث میں دنیوی مال کی مذمت کے بارے میں بہت کچھ ملتا ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ طلاکاری کے عمل میں نہایت خوبصورت آرائش اور تختیاں شامل تھیں جن پر قرآن کریم کی آیات، احادیث نبوی اور عربی، فارسی اور ترکی زبانوں میں اشعار کندہ تھے۔ حرم کی طلاکاری کے مکمل ہونے کے سال یعنی 1156 ہجری کو تاریخی اعداد کی صورت میں شعری انداز میں بیان کیا گیا تھا۔
کئی شعرا اور علماء نے گنبد علوی کی طلاکاری کا آغاز 1155 ہجری میں بتایا ہے، جن میں علامہ سید نصرالله حائری (متوفی 1168 ہجری) بھی شامل ہیں جنہوں نے اس سلسلے میں ایک طویل قصیدہ لکھا تھا، جس کے چند اشعار درج ذیل ہیں:
اذا ضامک الدهر یوماً وجارا *** فلذ بحمى أمنع الخلق جارا
(اگر زمانہ کبھی تم پر تنگ ہو اور ظلم کرے تو اس مخلوق کے سب سے مضبوط پناہ دہندہ کی پناہ لے لو)
و ما یبلغ التبر من قبة *** بها عالم الملک زاد افتخارا
(اور سونا اس گنبد تک کیسے پہنچ سکتا ہے جس پر ملک کی دنیا (یعنی بادشاہت) نے فخر میں اضافہ کیا ہے)
تبدی سناها عیاناً فأرخت *** آنست من جانب الطور نارا
(اس کی روشنی عیاں طور پر چمکتی ہے، پس میں نے تاریخ کہی: میں نے کوہ طور کی جانب ایک آگ دیکھی) (3)
گنبد کے سب سے اوپر والے حصے (گردن) کو نیلے مینا کاری والے ایک فیتے سے ڈھانپا گیا ہے جس پر سورہ فتح کی آیات سونے کے حروف میں کندہ ہیں اور آیات قرآن کے اوپر اور نیچے فارسی اور ترکی زبانوں میں منظوم اشعار نظر آتے ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ یہ فیتا 1156 ہجری میں اپنی جگہ نصب کیا گیا تھا، جیسا کہ اس فیتے کے آخری کتبے پر عربی میں لکھا تھا: "الحمد لله الذی شرّفنا بکتابة هذه النعمة العظمیٰ سنة 1156، تحریراً فی طهران، محمد حسین التبریزی” (تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں اس عظیم نعمت کو 1156 ہجری میں تحریر کرنے کی سعادت بخشی، تہران میں تحریر کیا، محمد حسین تبریزی نے) (4)۔
گنبد کے سنہری سر (چوٹی) کے اوپر ایک عقیدتی علامت کے طور پر ایک سنہری تاج نصب ہے جو اہل بیت علیہم السلام کی فکر سے ماخوذ ہے۔ اس میں ایک گول حلقہ ہے جس سے چودہ شعائیں نکلتی ہیں جو چودہ معصومین (حضرت محمدﷺ، حضرت علیؑ، حضرت فاطمہؑ، امام حسنؑ، امام حسینؑ اور امام حسین ؑ کی نسل سے نو دیگر ائمہ علیہم السلام) کی علامت ہیں۔ گول حلقے کے اوپر ایک ہاتھ کی شکل ہے جس پر سورہ فتح کی آیت نمبر 10 "وَیَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَیْدِیہِمْ” لکھی ہوئی ہے۔ یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ ہاتھ کی یہ علامت پنچتن آل عبا (علیہم افضل الصلوة واتم التسلیم) اور حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام کی بیعت (غدیر) کی طرف اشارہ ہے۔
میناروں کی بالکنی کے نیچے والے حصے میں ایک پٹی (فیتہ) نصب تھی جس پر نیلے مینا کاری والے پس منظر پر سورہ جمعہ کی آیات ملمع کاری شدہ حروف میں لکھی گئی تھیں اور آخر میں اس کتبے پر اس کے کاتب "مہر علی” کے نام کی مہر لگائی لگائی تھی۔
شمالی مینار کےنیچے کے حصے کی سنہری تختیوں کی آخری قطار میں، جو علامہ حلی کے مزار کے قریب ہے، پانچ فارسی اشعار نظر آتے ہیں جن کے آخر میں مصنف کا نام "محمد جعفر” آیا ہے۔ اور شعر ایک ایسے مصرعے پر ختم ہوتا ہے جس میں دونوں میناروں کی طلاکاری کے مکمل ہونے کی تاریخ 1156 ہجری شعری انداز میں بیان کی گئی ہے:
بگفت مقری طبع نواسنج *** (تعالى شأنه الله أكبر
(خوش فطرت قاری نے کہا: اس کی شان بلند ہے، اللہ اکبر) (5)
دوسری طرف، جنوبی مینار کے نیچے کے حصے کی سنہری آرائشی تختیوں کی آخری قطار پر، جو مقدس اردبیلی کے مزار کے قریب ہے، پانچ عربی اشعار نقش ہیں۔ اس شعر کا آخری مصرعہ بھی دونوں میناروں کی طلاکاری کے مکمل ہونے کے سال 1156 ہجری کی طرف اشارہ کرتا ہے اور کچھ یوں ہے:
و یعجب کل نور من سناه *** کما شمس الضحی بل صار أنور
(اور ہر نور اس کی روشنی پر حیران ہے، جیسے صبح کا سورج بلکہ وہ (یہاں کا نور) زیادہ روشن ہے)
تنور عسجداً بمنار عز *** یدوم بقاؤه واللیل أدبر
(سونا عزت کے ان میناروں سے منور ہوا، اس کی بقا دائمی رہے اور رات پیٹھ پھیر کر چلی گئی)
نهار مسرة الأمثال أضحی *** بذلك صبح أفق المصر أسفر
(خوشیوں کا دن روشن ہو گیا، اسی طرح شہر (نجف) کے افق کی صبح چمک اٹھی)
و فاز بذاک (نادر) کل عصر *** فسبح ثم هلل ثم کبر
(اور ہر دور کا (نادر) اس (کام) میں کامیاب ہو گیا، پس اس نے تسبیح کہی، پھر تکبیر کہی، پھر تہلیل انجام دی (یعنی اللہ کی پاکی بیان کی)
و قام مؤذن التاریخ فيه *** یکرر أربعاً (اللهُ أکبر
(اور تاریخ کے مؤذن نے اس پر اذان دی اور چار بار (اللهُ أکبر) کا تکرار کیا) (6)
قابل ذکر ہے کہ جملہ "اللهُ أکبر” کے حروف کا ابجدی حساب سے 289نمبر بنتی ہے، جسے چار سے ضرب دینے پر 1156 حاصل ہوتا ہے، جو میناروں کی طلاکاری کے مکمل ہونے کے سال کی نشاندہی کرتا ہے۔ مزید برآں، طلاکاری کی تاریخ کو جنوبی مینار کے نچلے حصے میں ایک چھوٹی سی کھڑکی پر، جو ایک سنہری تختی کے سائز کی ہے، عبارت "سعدا عظیما”کندہ کر کے درج کیا گیا ہے۔
بڑا سنہری ایوان یقیناً اسلامی معماری کا ایک شاہکار اور نفاست، خوبصورتی اور تعمیر میں باریک بینی کی علامت ہے جس پر عربی، فارسی اور ترکی زبانوں میں بے شمار آرائش، ڈیزائن، تحریریں اور اشعار ہیں۔ طلاکاری کے عمل کے اختتام کو خط ثلث  میں لکھ کر ایک چوڑے فیتے پر مرتّب کیا گیا اور سنہری ایوان کے اوپر نصب کیا گیا، جو اس طرح تھا:
"الحمد لله العلی الأعظم الذی شرف بتذهیب هذه القبة المنورة والروضة المطهرة، الخاقان الأعظم، سلطان السلاطین، الکبیر الظفر المؤید بالتأیید، السلطان نادر شاہ، أدام اللہ ملکه و سلطنته، و أجرى عدله و إحسانه على العالمین، و أبقاه و أبقى مملکته، سنة 1156”
(بلند و برتر خدا کے لیے تمام تعریفیں ہیں جس نے اس روشن گنبد اور پاک روضے کی طلاکاری کی سعادت عطا فرمائی، عظیم خاقان، سلاطین کے سلطان، عظیم فاتح، تائید الٰہی سے مؤید، سلطان نادر شاہ، اللہ ان کی بادشاہت اور سلطنت کو قائم رکھے، ان کے عدل و احسان کو جہاں والوں پر جاری کرے، اور انہیں اور ان کی مملکت کو ہمیشہ برقرار رکھے، سال 1156 ہجری)۔
گنبد اور میناروں کی مرمت
حرم کی پہلی طلاکاری کے بعد نادر شاہ کے زمانے میں گنبد اور میناروں پر کچھ اصلاحات کی گئیں، جن کا تذکرہ حرم علوی کی تاریخ پر لکھی گئی کتابوں میں ملتا ہے، خاص طور پر شیخ جعفر محبوبہ کی کتاب ‘ماضی النجف و حاضرها’ (نجف کا ماضی اور حال)، شیخ محمد حسین حرز الدین کی کتاب ‘تاریخ النجف الاشرف’ اور پروفیسر ڈاکٹر حسن الحکیم کی کتاب ‘المفصل فی تاریخ النجف الاشرف’ )میں۔
تاہم، سب سے اہم تعمیراتی کام ایک نجفی تاجر حاج محمد رشید میرزا نے انجام دیے۔ انہوں نے اس وقت کے شیعہ مرجع اعظم حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید محسن حکیم (رحمۃ اللہ علیہ) کی موافقت حاصل کرنے کے بعد، گنبد کے شگافوں کی مرمت اور اس کی دوبارہ طلاکاری کے لیے اپنی ذاتی دولت وقف کر دی۔ حرم کی طلا کاری ۱۳۸۸ ہجری (1968 عیسوی) میں شروع ہوئی اور ۱۳۹۱ ہجری (1971 عیسوی) میں مکمل ہوئی۔
گنبد علوی کے پیاز نما حصے، یعنی اوپری کمربند کے حصے کو دوبارہ سونے سے ملمع کیا گیا، جبکہ گنبد کے گردن والے حصے کی تختیوں کو اس میں شامل نہیں کیا گیا۔ استعمال ہونے والے سونے کی مقدار 50 کلوگرم سے تجاوز کر گئی اور کام کی لاگت ایک ملین عراقی دینار (اس وقت کے تقریباً تین ملین امریکی ڈالر کے برابر) تک پہنچ گئی۔ (7)
سونے کے ایک ورق کے پیچھے ایک تحریرنظر آئی جس پر طلا کاری کے اختتام کی تاریخ اس طرح درج تھی: "حاج محمد رشید میرزا نے گنبد کی طلا کاری سال ۱۳۹۱ ہجری میں وقف کی۔”
شاعر شیخ عبدالغفار الانصاری نے کام کے آغاز کے سال (۱۳۸۸ ہجری) کو اس طرح شعر کے ذریعے بیان کیا ہے:
قَدْ تَجَلَّت قُبَّةٌ بِالْمُرْتَضَى *** وَلَها اللَّهُ جَلالاً قَدْ وَهَبْ
(حضرت مرتضیٰ (علی) کے باعث وہ گنبد تجلی کرنے لگا، اور اللہ نے اسے عظمت و جلال عطا فرمائی)
بُورِكَ الْمُحْسِنُ فِي تَذْهِيبهَا *** فَبِها نالَ (الرَّشادَ) وَالإرَبْ
(اس کے سنہرا کرنے والے محسن پر رحمت ہو، اس (کام) کے ذریعے اس نے ہدایت اور مقصد پا لیا)
وَلَها مِنْ لُطْفِهِ أرِّخْ *** كَسَا مِنْ سَنَا نُورِ عَلِيٍّ بِالذَّهَبْ
(اور اس کے لطف و کرم کی تاریخ یوں بیان کرو: (اس نے علی (ع) کے نور کے جلال سے (گنبد کو) سونے میں ملبوس کر دیا) (8)
حرم امیرالمومنینؑ کی دوبارہ طلاکاری کا منصوبہ
پچھلی صدی کی اسی کی دہائی (1980)کے آغاز میں، بعثی حکومت نے گنبد کا حلقہ تباہ کر دیا، سنہری تاج کو نیچے اتار لیا، اور فرقہ وارانہ اور نسل پرستانہ مقاصدکے تحت ان علامات اور سنہری تختیوں کو ہٹا دیا جن پر حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام کی شان میں اشعار کندہ تھے، کیونکہ یہ کتبے فارسی اور ترکی زبان میں لکھے گئے تھے۔ اصل (ابتدائی) کتبوں کو چمکدار تختیوں سے بدل دیا گیا، جس کی وجہ سے سنہری ایوان کے ظاہری حسن میں واضح خرابی پیدا ہو گئی، جو حرم مقدس کے معماری کے خوبصورت ترین پہلوؤں میں سے ایک تھا۔
اصل سنہری تاج غائب ہو گیا، اور کافی عرصے بعد اس کی جگہ نام جلالہ (اللہ) سے مزین ایک دوسرا سنہری تاج لگایا گیا، جبکہ گنبد کا حلقہ خالی چھوڑ دیا گیا۔
مارچ 1991ء میں انتفاضہ شعبانیہ کے واقع ہونے کے بعد، شکست خوردہ بعثی حکومت نے شہر نجف پر راکٹوں اور توپوں کے گولوں سے بمباری کی۔ خاص طور پر گنبد شریف کو شمالی جانب (باب الطوسی کی سمت) سے شدید نقصان پہنچا، اسی طرح سنہری ایوان اور سنہری دروازے بھی گولوں اور گولے کے چھروں سے متاثر ہوئے۔
حرم امیرالمومنینؑ کی حرمت کو کافرانہ حکومت کی فوج نے پامال کیا، اور اس بغاوت کے دبائے جانے کے بعد، حرم کے نقصانات کو عجلت اور بے احتیاطی سے مرمت کیا گیا۔
2003ء میں بعثی حکومت کے خاتمے کے بعد، نجف میں دینی مرجعیت نے مقامات مقدسہ کی نگرانی کی ذمہ داری سنبھالی، اور حرم امیرالمومنینؑ کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے ایک قرارداد لکھ کر جاری کی جس میں طے پایا: "جو کچھ بھی ہٹایا گیا ہے اسے واپس لایا جائے، اور جو کچھ پچھلی حکومت کے دور میں لگایا گیا ہے اسے ہٹایا جائے۔” (9)
اسی بنیاد پر، ایران کی’’تعمیراتی کمیٹی برائے مقامات مقدسہ‘‘ کے تاریخی آثار اور کتبوں کی مرمت کے شعبے کے ماہرین، حرم امیرالمومنینؑ کے گوداموں میں سے ایک میں بعثی دور میں ہٹائے گئے یا نقصان پہنچائے گئے آثار کی مرمت اور بحالی پر مامور ہوئے۔
گنبد امیرالمومنینؑ کے حلقے کے لیے نیلگوں مینا کاری والی سنہری منقش تختیاں مرمت اور دوبارہ تیار کی گئیں، اور اس کام کا اختتام 13 رجب 1430 ہجری (6 جولائی 2009ء) کو اعلان کیا گیا۔ سنہری ایوان کے کتبوں کو بھی محفوظ کیا گیا، مرمت کی گئی اور رنگ کر کے 2013ء میں دوبارہ ان کی جگہ نصب کر دیا گیا۔ قابل ذکر ہے کہ حرم امیرالمومنین ؑکی انتظامیہ نے 1433 ہجری (2012ء) میں شمالی اور جنوبی میناروں کے حلقوں کی مرمت اور دیکھ بھال کی۔
حرم امیرالمومنین علیہ السلام کی انتظامیہ کے اس نقطہ نظر کے تسلسل میں کہ حرم مقدس کی مادی اور غیر مادی ثقافتی ورثے کی حفاظت اور اس مقدس مقام کی خدمت کے لیے تمام دستیاب وسائل اور صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لئے، آیت اللہ العظمیٰ سید علی حسینی سیستانی کی براہ راست نگرانی میں، حرم مطہر کی دوبارہ طلاکاری کے منصوبے کی بنیاد 10 ربیع الثانی 1434 ہجری (21 فروری 2013ء) جمعرات کی صبح کو رکھی گئی۔
اس منصوبے کی اہمیت گنبد کی بیرونی دیواروں کے شگافوں کی مرمت اور حرم مطہر کی زینتی سنہری تختیوں کی مرمت میں ہے، جو موسمی حالات اور فوجی حملوں کی وجہ سے متاثر ہوئی تھیں، اور موجودہ حرم کے تعمیراتی و ثقافتی ورثے اور تاریخی و معماری آثار کو محفوظ رکھنا سب سے اہم ترجیحات میں سے ایک ہے۔
یاد رہے کہ دوبارہ طلاکاری کا یہ منصوبہ اعلیٰ دینی مرجع کو تمام تفصیلات سے آگاہ کرنے، ضروری ہدایات حاصل ہونے، نیز ابتدائی سنہری تختیوں کے تحفظ اور دیکھ بھال، نیز انہیں محفوظ کرکے دوبارہ لگانے اور حرم مقدس کے ورثے اور تاریخی پہلوؤں کو برقرار رکھنے کے لیے انہیں ان کی اصل جگہ پر واپس لگانے کی تاکید کے بعد منظور کیا گیا۔
فیصلہ کیا گیا کہ حرم مطہر حضرت عباس علیہ السلام کے ماہر انجینئروں کا ایک جدید تجربہ اور مہارت رکھنے والا گروہ، حرم کی طلا کاری کے پہلے مرحلے یعنی گنبد کے اسطوانے (cylinder) کی دوبارہ طلاکاری کی ذمہ داری سنبھالے گا۔ گنبد کے اسطوانے کے لیے سنہری تختیوں کی تعداد 18 قطاروں میں 2525 تختیاں تھی، ہر تختی کا سائز 24*18 سینٹی میٹر تھا، اور استعمال ہونے والے سونے کی مقدار 45 کلوگرم تھی۔ یہ مرحلہ 2014ء میں مکمل ہوا۔
گنبد امیرالمومنینؑ کی طلا کاری کے منصوبے کے دوسرے مرحلے کی ذمہ داری ایران کی بنیاد کوثر کے تکنیکی اور انجینئرنگ عملے کو حرم امیرالمومنینؑ کے خصوصی تکنیکی عملے کے تعاون سے سونپی گئی۔ 2014ء میں گنبد کے اردگرد لوہے کے ستون نصب کیے گئے اور تمام سنہری تختیاں ہٹا دی گئیں۔ جنوری 2015ء میں سنہری تختیوں کی دوبارہ طلاکاری کے دو ورکشاپ کا افتتاح کیا گیا۔
طلا کاری کے عمل میں استعمال ہونے والے تمام ضروری آلات، اوزار اور خاص مواد، بشمول مواد کی نقل و حمل کے لیے ایک برقی لفٹ، تعمیراتی کام کے لیے تیار کیے گئے۔
اتوار 13 ربیع الثانی 1437 ہجری (24 جنوری 2016ء) کو، دینی و ثقافی طبقات، نیز علمی و سماجی شخصیات کی ایک بڑی تعداد کی موجودگی میں، گنبد کی دوبارہ طلا کاری کے دوسرے مرحلے کے آغاز کی افتتاحی تقریب منعقد ہوئی۔
گنبد کے بالائی حصے (حلقے/پٹی کے اوپر) میں سنہری رنگ والی تختیوں کی تعداد 9217 تھی، جو گنبد کے اردگرد 76 قطاروں یا حلقوں پر مشتمل تھیں۔ جب اسطوانے (پٹی کے نیچے) کی 2525 تختیوں کے ساتھ ملا کر کل شمار کیا جائے تو گنبد کی کل تختیوں کی تعداد 11742 بنتی ہے۔ نیز، گنبد کے بالائی حصے کی طلا کاری میں استعمال ہونے والے سونے کی مقدار تقریباً 131 کلوگرم تھی۔
کھوئے ہوئے اصل تاج کی قدیم اور علامتی قدر و قیمت کو مدنظر رکھتے ہوئے، ایران میں پرانی تصاویر کے آرکائیو کو استعمال کرتے ہوئے اس تاج کی ایک نقل (ماڈل) تیار کی گئی۔ تاج کی تیاری کے عمل میں، ڈاکٹر ہادی الانصاری کی کوششوں سے، خصوصیات اور پیمائش کے لحاظ سے انتہائی چھوٹی چھوٹی تفصیلات پر عمل کیا گیا۔
یہ تاج تہران کی بنیاد کوثر میں ماہرین آثار قدیمہ کی نگرانی میں تانبے کے (مرکب)  سے تیار کیا گیا اور نجف میں حرم مطہر کے ورکشاپ میں تقریباً ڈیڑھ کلوگرم خالص سونے سے چڑھایا گیا۔ نوٹ کیجئے کہ اس پر نصب سنہری دائرے سمیت تاج کی کل اونچائی 473.5 سینٹی میٹر بنتی ہے۔
بدھ کی شام 7 ربیع الاول 1438 ہجری (7 دسمبر 2016ء) کو، علماء، قبائلی رہنماؤں،حرم مطہر کے خدام اور زائرین کی موجودگی میں، سنہری تاج کے حامل قافلے کے استقبال کے لیے حرم امیرالمومنینؑ میں ایک شاندار تقریب منعقد ہوئی، اور تاج کو سید الاوصیاء علیہ السلام کے گنبد پر اس کی جگہ پر نصب کر دیا گیا۔
17 ربیع الاول 1438 ہجری (17 دسمبر 2016ء) کا دن ایک اہم تاریخی واقعہ سمجھا جاتا ہے، جب حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام کے مرقد مبارک کے گنبد کی دوبارہ طلا کاری کے بعد پردہ برداری کی گئی، جو رسول اکرم حضرت محمد ﷺ کی سعید ولادت کے موقع پر ہوئی۔
گنبد کی پردہ برداری کی تقریب مذہبی، سماجی، ثقافتی اور سرکاری شخصیات کی ایک بڑی تعداد کی موجودگی میں ہوئی، جس کی قیادت دینی مرجع آیت اللہ شیخ محمد اسحاق فیاض، شیعہ اوقاف بورڈ کے سربراہ سید علاء الدین موسوی، اور حرم امیرالمومنینؑ کے سیکرٹری سید نزار حبل المتین نے کی، نیز عتبات عالیات کے ٹرسٹییز اور نمائندوں اور حرم مطہر کے مہمانوں کے ساتھ ساتھ ہزاروں کی تعداد میں حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام کے شیعہ بھی موجود تھے جنہوں نے حرم امیرالمومنینؑ کے رواقوں کو پر کر رکھا تھا۔ پردہ اٹھائے جانے اور روشن گنبد سے سفید کپڑا ہٹائے جانے اور نئے سنہری لباس میں ملبوس گنبد کو دیکھنے کے بعد، ان کی آنکھیں (خوشی سے) چمک اٹھیں۔
گنبد مبارک کی دوبارہ طلا کاری (1438 ہجری) کی تاریخ کے سلسلے میں، کئی تخلیقی اور نئے انداز کے شاعروں نے اشعار کہے، جن میں نجفی شاعر استاد محمد علی الزہیری شامل ہیں:
صَدَحَ الحَقُّ بِصَوْتِ الشَّرَفِ *** وَزَهَا اللُّؤْلُؤُ بَيْنَ الصَّدَفِ
(حق نے شرافت کی آواز سے اعلان کیا اور موتی صدف میں چمک اٹھا)
فَهَنَا شَلَّالُ نُورٍ دَافِقٌ *** وَهَنَا المَجْدُ بِأَعْلَى الزُّلَفِ
(یہاں نور کی آبشار رواں ہے اور یہاں عظمت اپنے عروج پر ہے)
وَهَنَا تَاجُ الهُدَى مُؤتَلِقًا *** وَبِأَلْطَافِ المَعَالِي يَحْتَفِي
(اور یہاں ہدایت کا تاج چمک رہا ہے اور بلندیوں کے لطف کے ساتھ خوش ہے)
وَقُبَّةُ قُطْبِ رَحَى الكَوْنِ الَّذِي *** بِعَلِيِّ المُرْتَضَى سِرٌّ خَفِي
(اور یہ کائنات کے محور کا گنبد ہے جس میں علی مرتضیٰ علیہ السلام کا پوشیدہ راز ہے)
هِيَ شَمْسُ اللَّهِ فِي أَرْضِ الغَرِي *** بِشُعَاعٍ دَائِمٍ لَنْ يَخْتَفِي
(یہ الغری (نجف) کی زمین پر اللہ کا سورج ہے جس کی کرن دائمی ہے اور کبھی غائب نہیں ہوگی)
جَدَّدُوا القُبَّةَ تِبْرًا صَافِيًا *** وَهِيَ لِلأَرْوَاحِ أَسْمَى هَدَفِ
(انہوں نے گنبد کو خالص سونے سے نیا بنایا اور یہ روحوں کے لیے بلند ترین مقصد ہے)
وَبِتَارِيخٍ أَجِدُهُ قَدْ زَهَتْ *** قُبَّةُ الكَّرارِ فَوْقَ النَّجَفِ

اور اس تاریخ کے ساتھ (میں دیکھتا ہوں کہ حیدر کرار کا گنبد نجف کے اوپر چمک اٹھا ہے)
حرم مطہر سے وابستہ شاعر استاد ابراہیم الکعبی نے ایک شعر میں حرم کی طلا کاری کا سال درج کیا ہے، جس کا مطلع اس طرح ہے:
مَضَى عَهْدُ المُحَبَّةِ وَالتَّصَابِي *** وَهَذَا الشَّيْبُ يَمْحُو مِنْ شَبَابِي
(محبت اور جوانی کا دور گزر گیا، اور یہ سفیدی (بڑھاپا) میرے جوانی کے نشان مٹا رہی ہے)
وہ آگے کہتے ہیں:
وَهَذَا التِّبْرُ يُنْطِقُ كُلَّ يَوْمٍ *** بِتَفْضِيلِ الوَصِيِّ عَلَى الرِّقَابِ
(اور یہ سونا ہر روز انسانوں پر وصی (حضرت علی) کی فضیلت کی گواہی دیتا ہے)
أَقُولُ مُبَيِّنًا لِمُؤَرِّخِيهِ *** بِأَنَّ التِّبْرَ قَوْلُ أَبِي تُرَاب
(میں اس کے مؤرخین کے لیے واضح کرتے ہوئے کہتا ہوں: بے شک سونا خود ابوتراب کی بات ہے)
اسی طرح کربلائی شاعر استاد علی الصفار نے بھی حرم کی طلا کاری کی تاریخ کے بارے میں ایک نظم کہی ہے:
يَا قُبَّةً فِيكِ رُوحُ الرُّوحِ يَنْسَكِبُ *** حَيْثُ الوُجُودُ عَلَى وَهْمِ الفَنَا يَثِبُ
(اے گنبد! جس میں روح کی روح (حضرت علی) بہتی ہے، جہاں وجود فنا کے وہم کے باوجود (ثابت قدمی سے) کھڑا ہے)
وہ آگے کہتے ہیں:
قَدْ جَدَّدَ العَزْمُ وَالإخْلَاصُ عَسْجَدَهَا *** فَطَأْطَأَتْ عِنْدَهَا الأَعْيَانُ وَالرُّتَبُ
(عزم اور اخلاص نے اس کے سونے کو نیا بنایا، تو اس کے سامنے بزرگان اور بڑے مرتبے والے جھک گئے)
لِلدَّهْرِ أُرِّخْ عَلِيٌّ يَا أَبَا حَسَنٍ *** بِمَوْلِدِ المُصْطَفَى قَدْ جُدِّدَ الذَّهَبُ)
(دہر کے لیے تاریخ درج کرو اے ابو الحسن علی! مصطفیٰ کی ولادت کے دن سونے کی تجدید کی گئی)
(۱).تاريخ النجف الأشرف:۱/ ۴۰۴.
(۲). اليتيمة الغروية والتحفة النجفية:۴۰۷.
(۳). ديوان الحائري
(۴). دليل العتبة العلوية المقدسة: ۱۳۳.
(۵). ماضي النجف وحاضرها:۱/ ۶۶.
(۶). المصدر السابق:۱/۶۶.
(۷). يُنظر: طريق النور.. قصة الحاج محمد رشاد مرزه مع العتبات المقدسة:۲۱.
(۸). ذكريات الأحبة: ۱۰۴.
(۹). دليل العتبة العلوية المقدسة: ۱۳۴.
مآخذ
(۱).تاريخ النجف الأشرف:۱/ ۴۰۴.
(۲). اليتيمة الغروية والتحفة النجفية:۴۰۷.
(۳). ديوان الحائري:
(۴). دليل العتبة العلوية المقدسة: ۱۳۳.
(۵). ماضي النجف وحاضرها:۱/ ۶۶.
(۶). المصدر السابق:۱/۶۶.
(۷). يُنظر: طريق النور.. قصة الحاج محمد رشاد مرزه مع العتبات المقدسة:۲۱.
(۸). ذكريات الأحبة: ۱۰۴.
(۹). دليل العتبة العلوية المقدسة: ۱۳۴.

مزید مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے