سنہ ۵۰۱ ہجری میں نجف شہر میں روٹی کی قیمت اس قدر بڑھ گئی کہ ایک ٹکڑے کی قمیت آدھے دانگ کے برابر ہو گئی۔ یہ مہنگائی چالیس دن تک جاری رہی جس کی وجہ سے بہت سارے لوگ بھوک کی شدت سے دیہاتوں کی طرف چلےگئے۔
ایک بوڑھا شخص جس کا نام ابوالبقاء تھا اور جو سویقہ (الجزائر کا ایک علاقہ) کا رہنے والا تھا، حرمِ مقدس امیرالمؤمنینؑ میں خدمت کیا کرتا تھا۔ وہ واحد شخص تھا جو حرمِ مقدس میں باقی رہ گیا تھا اور شدید فقر و تنگدستی میں مبتلا تھا۔
بوڑھے خادم نے فیصلہ کیا کہ وہ شہر چھوڑ دے، چنانچہ حضرت سے رخصت لینے کے لیے حرمِ مقدس گیا، زیارت اور نماز کے بعد حضرت علی علیہالسلام کے ضریحِ مطہر کے پاس بیٹھ گیا اور عرض کیا:
یا امیرالمؤمنین علیہالسلام! میں برسوں سے آپ کی خدمت کر رہا ہوں، اس عرصہ میں آپ سے جدا نہیں ہوا اور کبھی سختی نہیں دیکھی۔ لیکن اب بھوک اور تنگیٔ معیشت نے میرا اور میرے اہلِ خانہ کا بُرا حال کر دیا ہے، میں چاہتا ہوں کہ آپ سے جدا ہو جاؤں اور کسی اور شہر چلا جاؤں۔
پھر وہ حرمِ سے نکل آیا اور ایک قافلے کے ساتھ وقف اور سوراء کی طرف روانہ ہوا۔
ایک شخص جس کا نام وَهبان سلمی تھا اور اس کے ساتھ ابوکُردی اور دیگر چند افراد بھی تھے، وہ سب رات کے وقت شہر سے نکل گئے،جب وہ ابی هُبَیش نامی علاقے میں پہنچے تو ان میں سے ایک نے کہا:
رات ہو گئی ہے اور وقت کافی گزر چکا ہے، بہتر ہے کہ ہم ‘ابی هبیش’ ہی میں قیام کریں۔
چنانچہ ابوالبقاء قافلے والوں کے ساتھ وہیں رات کو آرام کرنے لگا۔ اسی دوران خواب میں اس نے حضرت علی علیہالسلام کو دیکھا۔ حضرت نے اس سے فرمایا:
اے ابوالبقاء! اتنے لمبے عرصے کے بعد تم مجھ سے جدا کیوں ہوئے ؟ واپس وہیں جاؤ جہاں تھے۔
وہ روتے ہوئے خواب سے بیدار ہوا اور اپنے ساتھیوں کو یہ واقعہ سنایا اور پھر واپس چلا گیا۔
جب وہ واپس نجف آیا اور اپنے گھر گیا تو اس کی بیٹیوں نے اسے دیکھ کر کہا:
کیا ہوا؟ آپ واپس کیوں آ گئے؟
اس نے انہیں اپنا خواب سنایا اور پھر حرمِ مقدس کی طرف گیا، وہاں خزانچی سے حرم کی کنجیاں لیں اور پہلے کی طرح خدمت کرنے لگا۔
تین دن بعد، ایک شخص احرام کی حالت میں حرم میں داخل ہوا اور زیارت کے بعد ابوالبقاء کو کچھ رقم دی اور کہا:
جاؤ اور ہمارے لیے کچھ کھانا خریدو۔
ابوالبقاء نے کچھ روٹی، دودھ اور کھجور خریدے اور اس شخص کو دیے، اُس نے کہا:
یہ کھانا میرا نہیں ہے، اسے اپنے بچوں کے لیے لے جاؤ اور باقی پیسوں سے مرغ اور روٹی خریدو۔
وہ زائر نمازِ ظہر کے بعد ابوالبقاء کے ساتھ اس کے گھر گیا اور دونوں نے مل کر کھانا کھایا،پھر اس نے ابوالبقاء سے کہا کہ سونے اور چاندی تولنے کے ترازو کے باٹ لے آؤ۔
ابوالبقاء ایک سنار کے پاس گیا اور چند باٹ لایا، اس زائر نے تمام باٹ ترازو کے ایک پلڑے میں رکھے اور دوسرے پلڑے میں سونے سے بھرا ہوا تھیلا رکھا اور وہ تھیلا ابوالبقاء کو دے دیا پھر وہ وہاں سے چلا گیا!
ابوالبقاء حیران و ششدر رہ گیا۔ حواس بحال ہونےکے بعد جب اُس زائر کے پیچھے گیا تو اسے نہ پایا۔
اسی رقم سے جو وہ زائر اس کے لیے چھوڑ گیا تھا، ابوالبقاء نے اپنے اور اپنے بچوں کے لیے ایک خوشحال زندگی کا انتظام کیا۔
مأخذ:
فرحة الغري ۱۷۰،
بحار الانوار ۳۲۲/۴۲،
الغارات ۸۷۶/۲.