سنہ ۲۷۳ ہجری میں عباسیوں میں سے داود نامی ایک شخص نے امیرالمؤمنین علیہ السلام کی قبر مطہر کی بے حرمتی (قبر کھودنے) کا ارادہ کیا۔ لیکن حضرت امامِ متقین کی جانب سے رونما ہونے والی حیرت انگیز کرامتوں کے باعث، یہ ظالم شخص اپنے ارادے سے باز آ گیا، اور اس نے قبر پر ایک لکڑی کا صندوق رکھ دیا، جو بعد میں "داود عباسی صندوق” کے نام سے مشہور ہوا۔
بعض دانشوروں نے، جن میں سید جعفر بحرالعلوم بھی شامل ہیں، اپنی کتاب تحفۃ العالم اور ان کے بعد کے دوسرے علماء نے بھی غلطی سے یہ سمجھا کہ یہ داود دراصل داود بن علی عباسی ہے، جس کی سنہ ۱۳۳ ہجری میں موت ہوچکی تھی اور وہ عباسی خلیفہ ابوالعباس سفاح کے دور میں کوفہ کا گورنر تھا۔
قابل ذکر ہے کہ ڈاکٹر صلاح فرطوسی نے اپنی کتاب «مرقد وضريح أمير المؤمنين عليه السلام» میں اس شک و تردید کو دور کیا ہے اور وہ اس صندوق کے مالک کے بارے میں اپنی صحیح رائے اور مؤقف پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "بظاہر بہت سے مصنفین امام علیہ السلام کے مرقد پر موجود داود عباسی صندوق کے حوالے سے شک و تردید میں مبتلا ہو گئے اور غلط فہمی کا شکار ہوئے ہیں۔
اس واقعہ کے حوالے سے مزہد توجہ کی ضرورت ہے، کیونکہ اس صندوق کا مالک وہ داود عباسی ہے جو سنہ ۲۷۳ ہجری / ۸۸۶ عیسوی میں کوفہ میں رہتا تھا، نہ کہ داود بن علی عباسی، جو سفاح اور منصور کا چچا تھا جس کی سنہ ۱۳۳ ہجری / ۷۵۱ عیسوی میں موت ہوئی ہے۔
داود بن علی نے نہ کبھی اس صندوق کے رکھوانے کا حکم دیا، اور نہ ہی کبھی مرقدِ مبارک کی بے حرمتی کا ارادہ کیا۔ بلکہ وہ شخص جس نے مرقدِ مطہر کو کھودنے کا ارادہ کیا، وہ تیسری صدی کا داود عباسی تھا، اور سنہ ۲۷۳ ہجری / ۸۸۶ عیسوی میں کوفہ میں مقیم تھا۔ [1]
یہ واقعہ شیخ طوسی کی کتاب تهذیب الأحکام، ج۶، ص۸۸ ،۸۹ میں ذکر ہوا ہے۔ سید عبدالکریم بن طاووس نے اس پوری روایت کو التهذیب سے نقل کیا ہے اور اپنی کتاب فرحة الغری کے پندرہویں باب میں اس کا ذکر کرتے ہوئے، اسے مرقدِ مطہر کی کرامت پر ایک دلیل کے طور پر پیش کیا ہے: "میرے چچا، سید رضی الدین علی بن موسی بن طاووس، نیز نجم الدین ابوالقاسم بن سعید فقیہ، اور نجیب الدین یحییٰ بن سعید فقیہ، سب نے یہ روایت محمد بن عبداللہ بن زہرہ حسینی سے، اور وہ اسے محمد بن الحسن علوی حسینی سے روایت کرتے ہیں، جو مشہد میں مقیم تھے، اور انہوں نے اسے قطب راوندی سے، انہوں نے محمد بن علی بن الحسن حلّی سے، اور انہوں نے شیخ طوسی سے روایت کیا ہے کہ میں (ابن طاووس) شیخ طوسی کی اپنی تحریر سے حرف بہ حرف نقل کر رہا ہوں، وہ مفید محمد بن نعمان سے، اور انہوں نے محمد بن احمد داود سے، اور انہوں نے ابوالحسین محمد بن تمام کوفی سے روایت کی، وہ کہتے ہیں: ابوالحسن علی بن الحسن بن الحجاج نے ہمیں یہ واقعہ اس طرح سنایا: ہم اپنے چچا زاد بھائی ابو عبد الله محمد بن عمران بن حجاج کی مجلس میں بیٹھے تھے۔ اس مجلس میں اہلِ کوفہ کے کچھ عمائدین بھی موجود تھے، جن میں عباس بن احمد عباسی بھی شامل تھے۔
یہ لوگ میرے چچا کی صحت و سلامتی کی مناسبت سے ان کے پاس جمع ہوئے تھے۔ وہ واقعۂ سقیفہ کے وقت، ذی الحجہ ۲۳۷ ہجری میں، حضرت ابو عبداللہ الحسین بن علی علیہما السلام کی خدمت میں حاضر تھے، جب یہ سب حضرات گفتگو میں مشغول تھے، تبھی اسماعیل بن عیسی عباسی مجلس میں داخل ہوا۔ اسے دیکھ کر مجلس میں موجود لوگوں پر خوف طاری ہوگیا، اسماعیل کچھ دیر خاموشی سے بیٹھا رہا، پھر حاضرین کی طرف متوجہ ہو کر بولا: میرے بھائیو! خدا تمہیں عزت دے۔ لگتا ہے کہ میری آمد نے تمہاری گفتگو کو منقطع کر دیا۔
اس پر اس مجمع کے بزرگ اور شیخ، جناب ابوالحسن علی بن یحیی سلیمانی نے کہا: نہیں، خدا کی قسم، اے ابا عبداللہ! ہرگز ایسی بات نہیں ہے۔ پھر وہ مخاطب ہو کر کہنے لگا: اے بھائیو! جان لو کہ میں اپنی اس بات کے بارے میں اللہ عزوجل کے حضور جواب دہ ہوں، اور جو کچھ کہہ رہا ہوں اس پر میرا پورا عقیدہ اور ایمان ہے۔ اس کے بعد اس نے اپنے عزیزوں کی قسم کھا کر کہا کہ وہ علی بن ابی طالب علیہ السلام اور اہل بیتِ اطہار علیہم السلام کی ولایت کے سوا کسی پر ایمان و اعتقاد نہیں رکھتا، اور اس نے ائمہ اطہار علیہم السلام کے نام ایک ایک کر کے گنائے۔
پھر سب اس کے ساتھ بیٹھ گئے اور اس سے بے شمار سوالات پوچھے۔ اس نے ان سے کہا: ہم جمعہ کے دن نماز کے بعد اپنے چچا داود کے ہمراہ مسجد سے واپس آ رہے تھے۔ اس سے پہلے کہ ہم اپنے گھروں تک پہنچتے، اور راستہ لوگوں سے خالی ہوگیا، انہوں نے ہماری طرف رخ کیا اور کہا: سورج ڈوبنے سے پہلے، تم جہاں کہیں بھی ہو، میرے پاس آ جانا۔ تم میں سے کوئی بھی دیر نہ کرے گا۔ اس وقت وہ بنی ہاشم پر دہکتی آگ کی طرح غضبناک تھے۔ لہذا ہم جلدی سے ان کے پاس پہنچے، جب کہ وہ ہمارے منتظر بیٹھے تھے۔ انہوں نے کہا: ‘فلاں فلاں لوگوں سے کہو کہ آجائیں۔ دو لوگ اپنی سواریوں کے ساتھ حاضر ہوئے۔
پھر انہوں نے ہماری طرف رخ کیا اور کہا: سب کے سب جمع ہو جاؤ، فوراً سوار ہو جاؤ اور چلو، جمل کو بھی اپنے ساتھ لے چلنا۔ جمل ایک سیاہ فام غلام کا نام تھا، جو اپنی طاقت و قوت کے لیے اس قدر مشہور تھا کہ کہا جاتا تھا اگر وہ دریائے دجلہ میں اتر جاتا تو اپنی طاقت کے زور سے اس کے بہاؤ کو روک دیتا تھا۔ پھر انہوں نے کہا: پھر اس قبر کی طرف چلو، جس کی کرامات کے سبھی لوگ دیوانے ہوگئے ہیں، اور کہتے ہیں کہ وہ حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی قبر ہے، اسے کھود ڈالو، اور جو کچھ بھی اس کے اندر ہے، سب میرے پاس لے آؤ۔
ہم اس مقام کی طرف چل پڑے، ہم نے کہا: جس کا حکم دیا گیا ہے اس پر عمل کرو۔ کھدائی کرنے والوں نے کھودنا شروع کردیا، وہ مسلسل "لا حول ولا قوۃ الا باللہ” کا ورد کرتے جا رہے تھے۔ ہم اس کے ایک طرف کھڑے تھے، یہاں تک کہ انہوں نے پانچ ہاتھ تک زمین کھود ڈالی۔ جب وہ ایک سخت و محکم سطح تک پہنچے تو کہنے لگے: ہم کسی سخت چیز تک پہونچ گئے ہیں، جس کا اپنے اوزاروں سے توڑنا ہمارے بس کی بات نہیں۔ پھر اس حبشی غلام (سیاہ فام، جمل) کو نیچے اتارا گیا۔ اس نے کدال اٹھائی اور پورے زور سے مارا، جس کی گونچ سے سارا بیابان لرز اٹھا۔
پھر اس نے دوسرا وار کیا، تو اس بار پچھلی بار سے بھی زیادہ زوردار آواز بیابان سے سنائی دی۔ جب اس نے تیسری کدال ماری، تو اس بار بھی بڑی سخت آواز سنائی دی، اس وقت غلام نے ایک چیخ ماری۔ ہم سب گھبرا کر اٹھ کھڑے ہوئے اور اس کی طرف دوڑے۔ دوسروں سے کہا: اس سے پوچھو کہ اسے کیا ہوا ہے؟
وہ کوئی جواب نہیں دے رہا تھا، بس چیختے ہوئے مدد مانگے جارہا تھا۔ تو اسے رسی کے ذریعے اوپر کھینچا گیا۔ اچانک ہم نے دیکھا کہ اس کا کہنی سے لے کر انگلی تک پورا ہاتھ خون میں لت پت ہے، اور وہ درد سے کراہ رہا تھا، اور کچھ بھی بول نہیں پا رہا تھا۔ ہم نے اسے ایک خچر پر سوار کیا اور فوراً وہاں سے بھاگ نکلے۔ اس کے داہنے ہاتھ کی کلائی سے مسلسل خون بہتا جا رہا تھا، یہاں تک کہ ہم اپنے چچا کے پاس پہنچے۔
انہوں نے پوچھا: تم واپس کیوں آ گئے؟ ہم نے کہا: کیا آپ نہیں دیکھ رہے ہیں؟ اس کے بعد ہم نے ان کے سامنے سارا واقعہ بیان کیا۔ انہوں نے فوراً قبلے کی طرف رخ کیا، اپنے کیے پر توبہ کی، اور اس غلط راستے کی طرف جانے پر اللہ سے طلب مغفرت کی۔ اسی رات وہ سوار ہوئے اور علی بن مصعب بن جابر کے پاس روانہ ہوگئے۔ اس سے بغیر کچھ بتائے کہا کہ ایک صندوق قبر پر رکھ دے، پھر انہوں نے ایک شخص کو حکم دیا کہ جائے، اس گڈھے کو بھر دے اور اس پر صندوق رکھ دے۔ لیکن وہ سیاہ فام غلام، اسی وقت دم توڑ گیا۔ [2]
اس کی مزید تشریح اور وضاحت اس قول سے کی جاسکتی ہے کہ ڈاکٹر عبدالخادی ابراهیمی اپنی کتاب "قطب الدائرۃ الامام علی بن أبی طالب علیہ السلام” میں لکھتے ہیں: جب ہم مزید تحقیق اور تدقیق کی غرض سے شیخ الطائفہ ابو جعفر طوسی کی اس روایت پر غور و خوض کرتے ہیں جسے علامہ ابن طاووس نے نقل کیا ہے، تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ وہ شخصیت جس کا اس واقعے میں ذکر ہے، وہ سفاح کے چچا، داود بن علی عباسی نہیں، بلکہ وہ اسماعیل بن عیسی عباسی کا چچا داود تھا۔
اس کے علاوہ، اس روایت میں مذکور تاریخ یعنی کہ (وہ شخص واقعۂ سقیفہ کے وقت، ذی الحجہ ۲۳۷ ہجری میں ابو عبداللہ الحسین بن علی علیہما السلام کے حضور موجود تھا) جو روایت کے آغاز میں بھی ذکر ہوئی ہے، ہمیں ایک نہایت قیمتی تاریخی معلومات کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ قبر کی بے حرمتی اور اس مقام پر صندوق رکھے جانے کا واقعہ، یہ سب سنہ ۲۷۳ ہجری، یعنی خلیفہ معتمد (۲۵۶–۲۷۹ھ) کے دور خلافت میں پیش آیا نہ کہ خلیفہ سفاح (۱۳۲–۱۳۶ھ) کے دور میں۔ اگر مؤرخین نے بھی اس روایت کا تھوڑا سا تحقیقی نظر کے ساتھ جائزہ لیا ہوتا، تو اتنی واضح غلطی کا شکار نہ ہوتے۔ [3]
یہ صندوق تقریباً دس سال تک اسی مقام پر رکھا رہا، یہاں تک کہ سید محمد بن زید داعی حسنی نے سنہ ۲۸۳ ہجری میں مرقدِ امیرالمؤمنین علیہ السلام کی دوبارہ تعمیر کا ارادہ کیا۔ انہوں نے اس صندوق کو اس کی جگہ سے نہیں ہٹایا، بلکہ اسی کے اوپر عمارت تعمیر کروائی۔
کتاب فرحة الغری میں بھی ابوالحسن بن الحجاج کے سے نقل کیا گیا ہے: (ہم نے اس صندوق اور اس کے حیرت انگیز واقعے کو اس وقت دیکھا اور سنا تھا، جب یہ دیوار، ابھی حسن بن زید کے حکم سے تعمیر نہیں ہوئی تھی۔” [4]
جو غلطی اس روایت کے نقل کرنے میں واقع ہوئی ہے، اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ اس روایت میں تعمیر شدہ دیوار کی نسبت حسن بن زید داعی کی طرف دی گئی ہے، حالانکہ یہ تعمیر دراصل اس کے بھائی محمد بن زید داعی کی جانب سے کی گئی تھی، جس کا ذکر علامہ ابن طاووس اور دیگر محدثین و مؤرخین کی متعدد روایات میں وضاحت کے ساتھ موجود ہے۔
[۱] مرقد وضريح أمير المؤمنين عليه السلام: ۱۵۴-۱۶۱..
[۲] فرحة الغري في تعيين قبر أمير المؤمنين علي عليه السلام: ۳۰۰-۳۰۴.
[۳] قطب الدائرة, الإمام علي بن أبي طالب عليه السلام: ۴۷-۴۸.
[۴] فرحة الغري في تعيين قبر أمير المؤمنين علي عليه السلام: ۳۰۴.
مأخذ:
– مرقد وضريح أميرالمؤمنين عليه السلام: صلاح مهدي الفرطوسي. قسم الشؤون الفكرية والثقافية/ العتبة العلوية المقدسة, النجف الأشرف, الطبعة الثانية, ۱۴۳۱هـ/۲۰۱۰م.
– تهذيب الأحكام, الشيخ الطوسي: دار التعارف, بيروت, لبنان, ۱۴۱۲هـ.
– فرحة الغري في تعيين قبر أمير المؤمنين علي عليه السلام: عبدالكريم بن طاووس: ۱۲۳-۱۲۴. دار التعارف, بيروت, لبنان, ۱۴۳۱هـ.
– قطب الدائرة, الإمام علي بن أبي طالب عليه السلام: عبدالهادي الابراهيمي, مطبعة النبراس, النجف الأشرف, ۱۴۳۴هـ/۲۰۱۳م.