سب سے زیادہ تلاش کیا گیا:

امیرالمومنین کے روضۂ مبارکہ کا سنہری ایوان؛ اسلامی فن تعمیر کا عظیم شاہکار

امیرالمومنین کے روضۂ مبارکہ کا سنہری ایوان؛ اسلامی فن تعمیر کا عظیم شاہکار

امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کے حرم مطہر کا ایک اہم فنّی اور تاریخی شاہکار "سنہری ایوان” ہے جو روضہ مبارکہ کے مرکزی داخلی دروازے کے طور پر جانا جاتا ہے۔

یہ مضمون "سنہری ایوان” (یعنی حرم امیرالمومنینؑ کا مرکزی داخلی دروازہ) کی تاریخ، اس ایوان کی معماری کی اہمیت، اس کے نقش و نگار اور کندہ کاری کی داستان اور بعثی حکومت کی جانب سے اسے پہنچائی گئی تخریب کاری سے متعلق ہے۔

 سنہری ایوان کی محل وقوع اور خصوصیات

یہ عظیم سنہری ایوان حرم مقدس کے مشرقی جانب واقع ہے۔ یہ ایوان دقیق کاری کا معجزہ اور اسلامی معماری کا ایک شاہکار ہے جو منفرد نقش و نگار اور کندہ کاریوں سے مزین ہے۔

سنہری ایوان کی چوڑائی تقریباً آٹھ میٹر جبکہ محراب کے اوپری حصے تک اس کی بلندی تیرہ میٹر ہے۔ ایوان کو اعلیٰ قسم کے خالص سونے سے تعمیر کیا گیا ہے اور اس کے بالائی حصے پر بڑے پیمانے پر سنہری مقرنص کاری (stalactite work) کی گئی ہے جو تقریباً اوپری تہائی حصے تک پھیلی ہوئی ہے۔ یہ حرم مقدس کی معماری کی بے مثال اور شاندار خوبصورتیوں میں سے ایک ہے جو ہر دیکھنے والے کی توجہ اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔

ایوان کے پہلوؤں میں محرابی کھڑکیاں بنی ہوئی ہیں جو میناکاری کے کمربند پر ابھری ہوئی کندہ کاریوں سے مزین ہیں۔ ہر طرف دو دو کھڑکیاں موجود ہیں۔ ایوان کے سامنے والے بالائی حصے میں طلا کاری کی تاریخ کو ابھرے ہوئے حروف میں کندہ کیا گیا ہے اور یہ اب بارگاہ  امیرالمومنین علیہ السلام کے اہم تاریخی آثار میں شمار ہوتا ہے۔

جمالیاتی، انجینئری اور تاریخی نقطہ نظر سے اس ایوان کی اہمیت

بارگاہ  امیرالمومنینؑ کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے رکن اور بارگاہ کے ماہر تعمیرات "عبدالہادی ابراہیمی” نے سنہری ایوان کی جمالیاتی، انجینئری اور تاریخی اہمیت کے بارے میں بتایا:

"سنہری ایوان حرم مطہر کے مشرقی جانب واقع ہے اور یہ اسلامی فن کا ایک شاہکار اور کندہ کاری کی صنعت و فن کا بے مثال نمونہ ہے۔ اس ایوان کی کندہ کاریاں اور نقوش ہر دیکھنے والے کے لیے نہایت متاثر کن اور حیرت انگیز ہیں۔ میرے خیال میں عالم اسلام میں اس درجہ کی خوبصورتی اور جمالیاتی علامتوں والا کوئی دوسرا ایوان موجود نہیں ہے۔”

سنہری ایوان کا مقام دیگر ایوانوں کے مقابلے میں منفرد ہے۔ ائمہ معصومین علیہم السلام کے حرم میں عظیم ایوان قبلہ رخ ہوتا ہے، لیکن شیخ بہائی (رہ)،  جو اس عظیم الشان عمارت کے معمار تھے، نے عظیم ایوان کا مقام امیرالمومنین علیہ السلام کے مقدس قدموں کے نیچے رکھا۔

جب صحن حیدری کی چھت بنانے کا منصوبہ پیش کیا گیا، تو حرم  مقدس  نے دو وجوہات کی بنا پر اسے مسترد کر دیا گیا:

حرم مطہر کی اصل تعمیراتی ورثے کو مدنظر رکھتے ہوئے: کیونکہ صحن کو ڈھانپنے کا منصوبہ سنہری ایوان کی خوبصورتی اور حرم مطہر کی دیگر تعمیراتی ڈھانچے یعنی گنبد اور میناروں کے ساتھ اس کے ہم آہنگی کو نقصان پہنچاتا۔

شیخ بہائی کی اصل ایجاد کو محفوظ رکھنا: شیخ بہائی نے صحن کو اس طرح تعمیر کیا تھا کہ نصف النہار کی بنیادی خط (Prime Meridian) کا زاویہ حرم میں متعین کیا جا سکے۔ صحن کو ڈھانپنے سے صحن میں موجود یہ فلکیاتی معجزہ متاثر ہوتا اور ختم ہو جاتا۔

یہ دونوں نکات سنہری ایوان کی جمالیاتی اہمیت کو واضح طور پر ظاہر کرتے ہیں۔

انجینئری کے نقطہ نظر سے: ایوان کے طول و عرض اور بلندی سنہری تناسب (Golden Ratio) 16:1 کی بنیاد پر تعمیر کیے گئے ہیں۔ نیز، تنقیدی انجینئری (Critical Engineering) کے تحت، مختلف مقامات پر متعدد مخمس (پنج ضلعی) اشکال بنائی گئی ہیں، جن میں دو مینار اور مقدس گنبد شامل ہیں۔

طلائی ایوان کی تاریخی اہمیت

عبدالہادی ابراہیمی سنہری ایوان کی تاریخی اہمیت کے بارے میں بتاتے ہیں: مشہور ہے کہ جب شاہ عباس اول نے سن 1023 ہجری (1614 عیسوی) میں موجودہ عمارت بنوائی تو انہوں نے حرم کے گنبد، ایوان اور دونوں میناروں کو میناکاری والےٹائلز سے آراستہ کیا۔ صفوی خاندان کے خاتمے کے بعد، جب نادر شاہ افشار برسراقتدار آیا، تو اس نے حرم مطہر کی پچھلی پتھر کی چادر کو ہٹا کر خالص سونے سے ملمع کاری کی گئی تانبے کی چادروں سے بدل دیا اور ضریح کو سونے سے مزین کیا۔ سن 1155 ہجری (1742 عیسوی) میں حرم کی سونے کی پالش کا کام شروع ہوا اور سن 1156 ہجری (1743 عیسوی) میں مکمل ہوا۔

ان دستاویزات کو حرم کی تعمیراتی کے کئی حصوں بشمول طلائی ایوان کی کندہ کاریوں اور نقوش میں دیکھا جا سکتا ہے، نیز تحریروں، نظموں اور اعداد و شمار میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے۔ جیسا کہ ایوان کے سامنے والے حصے میں اوپر عربی زبان میں خط ثلث میں بڑے حروف میں ایک متن لکھا ہوا ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ نادر شاہ نے سن 1156 ہجری میں ضریح کی سونے کی پالش کا کام مکمل کروایا تھا۔

اس دستاویز میں "خلده الله ودولته” (خدا اس کی سلطنت کو دائمی بنائے) کا جملہ موجود ہے، اور اگر ان حروف کی عددی قیمت (حساب ابجد) کا حساب لگایا جائے تو کل عدد 1156 بنتا ہے، جو مقدس ضریح کی سونے کی پالش مکمل ہونے کی تاریخ ہے۔

اسی طرح ایک تحریری دستاویز بھی موجود ہے جو "میرزا عبدالرزاق تبریزی” کی فارسی نظم کے آخر میں موجود ہے، جس میں مصنف کہتا ہے: "سونے کی پالش بادشاہ کے حکم سے انجام پائی اور اس کام کی نگرانی مہدی قالی، محمد علی قزوینی اور محمد ابراہیم زرگر باشی نے کی۔”

اس کے علاوہ، ایوان میں موجود "میرزا عبدالرزاق تبریزی” اور "محمد زکی ندیم مشہدی” کی وہ نظمیں بھی ہیں جو سن 1156 ہجری کی ہیں۔

مزید برآں، کندہ کیے گئے مہروں پر بھی عدد 1156 کندہ ہے، یعنی وہ سال جب حرم مطہر بالخصوص ایوان اور مینار کی سونے کی پالش مکمل ہوئی۔ حرم مطہر کا گنبد ایک سال قبل یعنی سن 1155 ہجری میں مکمل ہوا تھا۔ مثال کے طور پر "منظومہ منادا” کے آخر پر ایسا ہی مہر لگی ہوئی ہے، نیز میرزائے تبریزی کی نظم اور عرفی شیرازی کے قصیدہ کے آخر میں بھی اعداد کندہ ہیں۔

ایک اور اہم نکتہ نادری سنہری زنجیر ہے جو ایوان کے اوپر نصب ہے اور تاریخی اعتبار سے بہت اہمیت کی حامل ہے۔ روایت ہے کہ جب حرم شریف کی سونے کی پالش مکمل ہوئی تو نادر شاہ افشار سن 1156 ہجری میں نجف اشرف میں حاضر ہوا اور اس زنجیر کو بنوایا۔ جب وہ نجف کے دروازے پر پہنچا، تو اس نے حکم دیا کہ زنجیر اس کے گلے میں ڈال دی جائے اور اسے ذلیل و خوار ہوکر ایک تنگ گلی سے ہوتے ہوئے امیرالمومنین علیہ السلام کے مرقد مطہر تک گھسیٹا جائے۔ یہ تنگ گلی آج تک "عگد الزنجیل” یا "زنجیر والی گلی” کے نام سے مشہور ہے۔ کہا جاتا ہے کہ نادر شاہ کے کسی وزیر یا بزرگ میں اس کی اس خواہش کو پورا کرنے کی جرات نہیں ہوئی، یہاں تک کہ ایک نامعلوم شخص، جسے اس سے پہلے کسی نے نہیں دیکھا تھا، نے یہ کام کیا۔

کہا جاتا ہے کہ بعثی حکومت نے اس زنجیر کو کچھ عرصے کے لیے ضبط کر لیا تھا۔ ایک اور روایت "ہادی انصاری” اپنے شہید والد کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ یہ زنجیر جب ایک چھوٹے فانوس سے لٹک رہی تھی، تو سخت ہوا کے جھونکے سے گر گئی۔ اس کے بعد اس زنجیر کو ایک شیشے کے خانے میں رکھا گیا۔ لیکن اب یہ حرم مطہر کے ایک فانوس کے گرد بنے شیشے کے خانے میں لپیٹی گئی ہے۔

کتبوں کی زبان کے بارے میں

ابراہیمی کے مطابق، سنہری ایوان پر موجود متعدد کتبوں اور نقوش کے حوالے سے، وہ بتاتے ہیں کہ اگر مراد منظوم قصائد ہیں، تو طلائی ایوان پر ثقافتی اور لسانی تنوع پایا جاتا ہے۔ اس پر فارسی ادب، ترکی-عثمانی ادب اور عربی ادب کی نظمیں نظر آتی ہیں۔

سنہری ایوان پر موجود عربی نظموں میں "قصیدہ منادا” شامل ہے، جس کے اشعار درج ذیل ہیں:

نَادِ عَلِياً مُظهِرَ العَجَائِب

تَجِدهُ عَونَاً لَكَ في النَّوَائِب

 كُلُّ هَمٍّ وَغَمٍّ سَيَنجَلي

بولايتك يا عليُّ يا عليُّ يا علي

("علی (علیہ السلام) کو پکارو، جو عجائبات کو ظاہر کرنے والے ہیں۔ تم پاؤ گے کہ وہ مصیبتوں میں تمہاری مددگار ہیں۔ ہر غم اور پریشانی ان کی ولایت کے ذریعے دور ہو جائے گی، اے علی، اے علی، اے علی)”

ایوان کے اوپر ایک نہایت خوبصورت سنہری گلدان کے گرد بھی عربی میں ایک نظم لکھی گئی ہے، جو اس شعر سے شروع ہوتی ہے:

بِنَبِيٍّ عَرَبِيٍّ وَرَسُولٍ مَدَنِيٍّ

 وَأَخِيهِ أَسَدِ اللَّهِ الْمُسَمَّى بِعَلِيٍّ

( "ایک عربی نبی اور مدنی رسول (ص) اور ان کے بھائی علی (ع) جو اللہ کے شیر ہیں۔”)

 یہ قصیدہ تمام معصومین (علیہم السلام) کے ذکر اور مدح پر مشتمل ہے۔

فارسی نظموں میں "عرفی شیرازی” کا شعر سنہری ایوان کے مرکزی دروازے کے بارے میں شامل ہے، جو ایوان کے دونوں طرف فارسی میں لکھا گیا ہے۔ نیز، ایوان کے دائیں اور بائیں جانب "حسن کاشی” کے چار فارسی اشعار بھی موجود ہیں۔

اس کے علاوہ، حرم کے میناکاری والے کاشی کاری کے حصے پر ترکی زبان میں دو نظمیں لکھی گئی ہیں، جن میں سے ایک طویل نظم میرزا عبدالرزاق تبریزی کی ہے جن کا تخلص نشئہ تھا، جو قدیم عثمانی ادب کی ترکی زبان میں لکھی گئی ہے۔

بڑے ایوان کے اندر واقع چھوٹے ایوان کے دونوں طرف چار اشعار لکھے گئے ہیں، جو ایرانی شاعر "محمد زکی ندیم مشہدی ندیم”  سے منسوب ہیں۔ ندیم مشہدی کے امیرالمؤمنین علیہ السلام کی مدح میں دیگر اشعار بھی موجود ہیں۔ وہ اہل سنت تھے اور سلطان نادر شاہ افشار کے درباری شاعروں میں سے تھے۔

سنہری ایوان کے دروازے اور ان کی نصب کی تاریخ

جیسا کہ آپ جانتے ہیں، سنہری ایوان کے مختلف دروازے ہیں۔ ان دروازوں کے نصب کیے جانے کی تاریخ اور ان کے پس منظر کے بارے میں عبدالہادی ابراہیمی بتاتے ہیں: سب سے پرانا دروازہ، حرم کی پہلی عمارت کا لکڑی کا دروازہ ہے، جس کی تاریخ سن 1023 ہجری (حرم مطہر کی تعمیر کا سال) ہے۔ یہ قیمتی دروازہ اس وقت حرم مطہر کے گوداموں میں محفوظ طریقے سے رکھا ہوا ہے۔

اس کے بعد چاندی کے دروازے استعمال ہوئے۔ یہاں تک کہ سن 1373 ہجری (1954 عیسوی) میں حجت الاسلام والمسلمین سید محمد کلانتر، حاج مہدی مقدم، ان کے بھائی حاج کاظم اور میرزا عبداللہ (بڑے ایرانی تاجروں) نے حرم مطہر کے لیے سونے کے دروازے پیش کیے، اور اس طرح نئے دروازے نصب کیے گئے جو مکمل طور پر سونے کے بنے ہوئے اور نہایت شاندار تھے۔

عراقی عالم کاشف الغطاء (رہ) نے طلائی ایوان کے دروازوں کے ناموں پر ایک کتاب تالیف کی ہے، جس میں وہ دروازوں کی تعمیر، ان کی تہران سے عراق منتقلی، اس کی تقریبات اور ان دروازوں پر لکھی گئی نظموں کے بارے میں تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔

اس سلسلے میں سونے کے دروازوں کی نصب کے موقع پر لکھی گئی دو نظمیں قابل ذکر ہیں، جو "محمد جمال ہاشمی” اور "شیخ عبدالحمید سماوی” سے منسوب ہیں۔ ایک اور نظم "شیخ محمد علی یعقوبی” کی بھی ہے، جو دروازے کی نصب  ہونےکے سال (سن 1373 ہجری) سے متعلق ہے۔ اس نظم میں ایک تاریخی حوالہ قوسین میں درج ہے، جو کچھ یوں ہے:

وَلَا يَبْقَى فِي التَّارِيخِ إِلَّا عَلِيُّ

الدُّرُّ وَالذَّهَبُ الْمُصَفَّى

( "اور تاریخ میں علی (ع) کے سوا کچھ باقی نہیں رہے گا، (سوائے) موتیوں اور خالص سونے کے۔”)

درورازوں کے نصب ہونے کے دن لکھی گئی ایک اور قابل ذکر نظم "شیخ عبدالمہدی مطر (رہ)” کی تھی، جس کے ابتدائی اشعار درج ذیل ہیں:

اُرصُفْ بِبَابِ عَلِيٍّ أَيُّهَا الذَّهَبُ

 وَأَخْطِفِ الْأَبْصَارَ مَنْ سَرَّوُا وَمَنْ غَضِبُوا

 وَقُلْ لِمَنْ كَانَ قَدْ أَقْصَاكَ عَنْ يَدِهِ

 عَفْواً إِذَا جِئْتَ مِنْكَ الْيَوْمَ أَقْتَرِبُ

 لَعَلَّ بَادِرَةً تَبْدُو لِحَيْدَرَةٍ

 أَنْ تَرْتَضِيكَ لَهَا الْأَبْوَابُ وَالْعُتُبُ

( "اے سونے! علی (ع) کے دروازے پر صف بستہ ہو جا، اور خوش ہونے والوں اور ناراض ہونے والوں سب کی نگاہیں اپنی طرف کھینچ لے۔ اور اس شخص سے کہہ جس نے تجھے اپنے ہاتھ سے دور کر دیا تھا: معاف کرنا، آج میں تیرے ذریعے اس کے قریب ہو رہا ہوں۔ شاید حیدر (ع) کی طرف سے کوئی اشارہ ملے کہ وہ تجھے اپنے دروازوں اور چوکھٹوں کے لیے پسند کر لیں۔”)

یہ ایک علامتی نظم ہے، جو اس بات کی علامت ہے کہ امیرالمومنین (ع) دنیا میں زاہد تھے اور انہوں نے دنیا اور اس کی متعلقات کو مکمل طور پر ترک کر دیا تھا۔ لیکن آپ (ع) کی رحلت کے بعد، سونا کامل عاجزی اور انکساری کے ساتھ آپ کی بارگاہ کی زیبائش کے لیے حاضر ہوا ہے۔ "عباس ترجمان” نے اس تصور کو اپنی کتاب "الارجوزہ النجفیہ” میں بہت خوبی سے بیان کیا ہے:

مَا غَرَّتِ الصُّفْرَاءُ وَالْبَيْضَاءُ

 نَفْسَ عَلِيٍّ وَهِيَ الْإِبَاءُ

 رَاحَ عَلِيٌّ أَعْتَابَهُ يَحْوِي الذَّهَبَ

مُؤَمِّلًا أَنْ يَرْتَقِيَ بَعْضَ الرُّتَبِ

( "نہ سونے (الصفراء) نے اور نہ چاندی (البیضاء) نے علیؑ کے نفس کو فریفتہ کیا، حالانکہ وہ بے نیاز تھے۔ (لیکن اب) علیؑ کے دروازے پر سونا حاضر ہے، اس امید پر کہ وہ کچھ درجات حاصل کر لے۔”

اس کے علاوہ، حرم مقدس میں منارے کے شمالی جانب علامہ حلی کے مزار کا دروازہ اور منارے کے جنوبی جانب مقدس اردبیلی کے مزار کا دروازہ موجود ہے۔ یہ دونوں سنہری دروازے بھی سید محمد کلانتر (رہ) کی کوششوں سے نصب کیے گئے تھے۔ ان کا عطیہ پیش کرنے والے حاج عبدالرسول عجینہ تھے۔ یہ دروازے سن 1397 ہجری (1976 عیسوی) میں نصب کیے گئے۔

بعثی حکومت کے دور میں ایوان کو پہنچنے والے نقصانات

بعثی حکومت کے دور میں، اس حکومت نے اس ایوان کو کافی نقصان پہنچایا۔ عبدالہادی ابراہیمی ان نقصانات اور حرم امیرالمومنینؑ اور اس کے متولی کے ذریعہ ان نقصانات کی تلافی میں کردار کے بارے میں بتاتے ہیں: "بعثی حکومت کے زوال اور حرم مطہر کی تعمیر نو پر عالی قدر مرجعیت کی نگرانی کے بعد، بارگاہ امیرالمومنینؑ کے متولی نے ان نقصانات کی مرمت اور تعمیر نو کی۔”

اس کے علاوہ، ایوان کا جنوبی جانب کا حصہ، جو جنوبی مینار کے قریب واقع ہے، سن 1440 ہجری (2019 عیسوی) میں دوبارہ سونے سے ملمع کیا گیا۔ اس کے بعد، شمالی جانب شمالی مینار پر سونے کی پالش کی گئی ہے، اور آخری مرحلہ یعنی عظیم ایوان کی سونے کی پالش کا کام جاری ہے۔

طلائی ایوان کی دیگر خصوصیات

مرکزی دروازہ، سنہری ایوان کے وسط اور ایک چھوٹے ایوان کے اندر واقع ہے۔ دروازے کی سطح پر نہایت حیرت انگیز طلائی مقرنص کاری (Stalactite work) کی گئی ہے اور اس کے نچلے حصے پر بڑے حروف میں رسول اللہ ﷺ  کا یہ فرمان درج ہے: "أَنَا مَدِينَةُ الْعِلْمِ وَعَلِيٌّ بَابُهَا” (میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں) اور اسے قرآن کریم کی آیات سے گھیرا گیا ہے۔

دروازے کے سامنے والا حصہ، جو ایوان کی شکل میں ہے، شیشے سے مزین ہے اور اس پر رسول اکرم ﷺ کا یہ فرمان کندہ ہے: "عَلِيٌّ مَعَ الْحَقِّ وَالْحَقُّ مَعَ عَلِيٍّ وَلَنْ يَفْتَرِقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ” (علی حق کے ساتھ ہیں اور حق علی کے ساتھ ہے اور وہ قیامت کے روز حوض کوثر پر مجھ سے ملنے تک جدا نہیں ہوں گے)۔

ایوان کے دونوں طرف کے نمائشی حصوں پر امیرالمومنین علیہ السلام کی مدح میں اقوال اور اشعار سنہری ابھرے ہوئے حروف میں میناکاری والے کاشیوں پر کندہ ہیں۔ یہ تحریریں ترکی زبان میں ہیں اور میرزا عبدالرزاق تبریزی سے منسوب ہیں۔

اس کے علاوہ، ایوان کی تعمیر میں پھولوں کے نہایت خوبصورت اور ہم آہنگ نقوش بڑی مہارت کے ساتھ اور دقیق طریقے سے بنائے گئے ہیں۔ سنہری ایوان کی تعمیر میں استعمال ہونے والی نفاستیں اتنی زیادہ ہیں کہ ان کا شمار ممکن نہیں ہے۔ سنہری ایوان اور اس کے اردگرد کی عمارتیں حرم مطہر کی خوبصورت اور اہم ترین حیرت انگیز خصوصیات میں شمار ہوتی ہیں۔

بعثی حکومت کے دور میں بہت سی اہم تاریخی عمارتوں کو نقصان پہنچا، لیکن سنہری ایوان کے سامنے موجود نہایت خوبصورت پھول دار کندہ کاریاں اور تاریخی کتبے مکمل طور پر محفوظ رہے، جو نادر شاہ کے دور میں ایوان کی تعمیر اور سونے کی پالش کے زمانے سے تعلق رکھتے ہیں۔

سنہری ایوان کے سامنے بائیں جانب یہ عبارت درج ہے: "كُلُّ هَمٍّ وَغَمٍّ سَيَنْجَلِي بِوَلَايَتِكَ يَا عَلِيُّ يَا عَلِيُّ يَا عَلِيُّ” (ہر غم اور پریشانی تیری ولایت کے ذریعے دور ہو جائے گی، اے علی، اے علی، اے علی)۔ اس جملے کے نیچے یہ بھی درج ہے: "محمدعلی نقاش سال 1156هـ”۔

ایوان کے اوپر ایک نیلے رنگ کی پٹی پر نادر شاہ افشار کے حکم سے گنبد، دو میناروں اور سنہری ایوان کی سونے کی پالش کی تاریخ خط ثلث میں نہایت خوبصورتی سے کندہ کی گئی ہے۔ اس ایوان میں بہت سے علماء اور بزرگان دفن ہیں۔ ان کے نام ایوان کی دیواروں پر کندہ تھے، لیکن ایوان کی سونے کی پالش کے عمل کے دوران وہ مٹ گئے۔

اس کے علاوہ، سنہری ایوان کا نمایاں حصہ اور داخلی دروازے سنہ 1991ء میں انتفاضہ شعبانیہ کے دوران فوجی کارروائیوں اور وحشیانہ بمباری سے متاثر ہوئے، لیکن بعثی حکومت کے زوال کے بعد، بارگاہ امیرالمومنینؑ کے متولی نے ان نقصانات کی مرمت اور تعمیر نو کی۔

عبدالہادی ابراہیمی کی تالیف کردہ کتاب "تاریخ تذهیب المرقد العلوی المطهر” میں درج ہے: "سنہ 2003ء میں بعثی حکومت کے زوال کے بعد، نجف میں مرجعیت نے حرم امیرالمومنینؑ کے امورکی نگرانی کی ذمہ داری سنبھالی۔ حرم مقدس کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے بھی ایک حکم نامہ جاری کیا کہ بعث پارٹی کے دور حکومت میں حرم سے لے جایا گیا ہر سامان واپس لایا جائے اور حرم مطہر کی تقدیس اور تاریخ سے ہٹ کر سیاسی مقاصد کے تحت جو کچھ بھی اضافہ کیا گیا تھا، اسے ہٹا دیا جائے۔ اسی مقصد کے تحت تاریخی آثار اور کتبوں کی مرمت کے ماہرین نے بعثی دور میں حذف یا تباہ کیے گئے آثار کی دوبارہ مرمت اور تعمیر نو کی۔”

اس سلسلے میں، حرم کے بالائی گنبد کے میناکاری والے سنہری پٹی کے کتبے اور تختیاں دوبارہ تعمیر کی گئیں اور 13 رجب 1430 ہجری (6 جولائی 2009ء) کو مرمت کا کام مکمل ہوا۔ سنہری ایوان کے کتبوں کی مرمت، تعمیر نو، سونے کی پالش اور انہیں ان کی اصل جگہ پر واپس لوٹانے کا کام سنہ 2013ء سے جاری ہے۔

مزید مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے