علامہ مجلسی نقل کرتے ہیں:اہلِ بیت علیہمالسلام سے متعلق بعض کتابوں میں آیا ہے کہ ایک دن امیرالمؤمنین علی علیہالسلام شہر غری (نجف) میں ایک جماعت کے درمیان نماز میں مشغول تھے کہ اچانک دو آدمی ایک تابوت کو اونٹ پر لادے ہوئے ان کی طرف آئے، انہوں نے تابوت کو نیچے اتارا اور سلام کیا۔
حضرت نے پوچھا: کہاں سے آ رہے ہو؟
انہوں نے کہا: یمن سے۔
فرمایا: یہ تابوت کیسا ہے؟
انہوں نے کہا: ہمارے بوڑھے والد کا انتقال ہوگیا ہے اور انہوں نے وصیت کی تھی کہ انہیں اسی صحرا میں دفن کیا جائے!
ہم نے عرض کیا: اے پدر! یہ صحرا بہت وسیع اور ہمارے وطن سے دور ہے، آپ کیوں ایسا چاہتے ہیں؟
انہوں نے کہا: کیونکہ ایک مرد یہاں دفن ہوگا جس کی شفاعت سب کو شامل ہوگی۔
امیرالمؤمنین علی علیہالسلام نے فرمایا:
الله اکبر، الله اکبر! خدا کی قسم، وہ شخص میں ہی ہوں۔
پھر آپ نے اس کی نمازِ جنازہ پڑھائی، اسے دفن کیا اور وہ دونوں شخص وہاں سے رخصت ہوگئے[1]۔
کتاب ارشاد القلوب دیلمی میں یہ روایت اس طرح آئی ہے:
حضرت علی علیہالسلام ایک روز دوپہر کے وقت نجف کے قریب اپنی ایک خلوتگاہ میں تھے کہ اچانک ایک شخص سواری پر ایک جنازہ لے کر بیابان سے نمودار ہوا۔
جب اس نے حضرت علی علیہالسلام کو دیکھا تو سلام کیا اور حضرت نے بھی سلام کا جواب دیا۔
حضرت نے پوچھا: کہاں سے آ رہے ہو؟
اس نے کہا: یمن سے۔
فرمایا: یہ جنازہ کس کا ہے؟
اس نے کہا: یہ میرے والد کا جنازہ ہے جنہیں دفن کرنے کے لیے میں اس سرزمین پر لایا ہوں۔
حضرت نے فرمایا: انہیں اپنے وطن ہی میں کیوں دفن نہیں کیا؟
اس نے کہا: انہوں نے وصیت کی تھی کہ انہیں یہاں دفن کیا جائے اور کہا تھا کہ ایک مرد یہاں دفن ہوگا جس کی شفاعت سب لوگوں کو شامل ہوگی۔
حضرت نے فرمایا: کیا تم اس مرد کو جانتے ہو؟
اس نے کہا: نہیں۔
حضرت نے فرمایا: خدا کی قسم! وہ شخص میں ہی ہوں، اٹھو اور اپنے والد کو دفن کرو[2]۔
اور یہ مرد وہی صافی صفا ہے جسے زیادہ تر مؤرخین یمنی مرد قرار دیتے ہیں جس کی قبر بحرالنجف کے قریب اور امیرالمؤمنین علیہالسلام کی ضریحِ مقدس کے روبرو واقع ہے۔
مرقدِ صافی صفا یمانی، حرمِ مقدس امام علی علیہالسلام کے مغرب کی طرف تقریباً ۵۰۰ میٹر کے فاصلے پر، بحرالنجف کے کنارے واقع ہے اور اسے صفّة صافی صفا کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
یہ مقام در حقیقت امیرالمؤمنین علیہالسلام کی جائےمقام اور اثیب یمانی المعروف صافی صفا کا مزار ہے اور نجف اشرف کے تاریخی و معنوی آثار اور نشانیوں میں شمار ہوتا ہے جن کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔
[1] ۔ بحار الانوار ج ۴۲ ص ۳۳۳.
[2] ۔ إرشاد القلوب الديلمي ۲ / ۴۴۰، البحار ۴۲ /۳۳۴