قرآن کریم نے امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کا متعدد آیات میں براہ راست اور بالواسطہ طور پر ذکر فرمایا ہے
۱۔ آیہ ٔلایت:"تمہارا دوست اور رہنما صرف اللہ ہے اور اس کا رسول اور وہ ایمان والے جو نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں درحالیکہ وہ (نماز میں) رکوع کر رہے ہوں۔” (سورہ مائدہ، 55)
یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
۲۔ آیۂ تبلیغ:”اے رسول! جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے، اسے پہنچا دیجیے۔ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو گویا آپ نے اس کے پیغام ہی کو نہیں پہنچایا۔ اور اللہ آپ کو لوگوں (کے شر) سے بچائے گا۔ بے شک اللہ کافروں کو ہدایت نہیں دیتا۔” (سورہ مائدہ،67)
یہ آیت غدیر خم کے موقع پر نازل ہوئی اور اس کا مقصد رسول اللہ ﷺ کو حضرت علی علیہ السلام کی فضیلت اور ولایت کے اعلان کرنے کا حکم دینا تھا۔
۳۔ آیۂ تطہیر:”اے اہل بیت! اللہ تو یہی چاہتا ہے کہ آپ سے ہر قسم کی ناپاکی کو دور رکھے اور آپ کو پاک کرے پورے طور پر۔” (سورہ احزاب، 33)
یہ آیت اصحاب کساء کے پانچ افراد یعنی رسول اللہﷺ، حضرت علی علیہ السلام، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا، امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کے بارے میں نازل ہوئی۔
۴۔ آیۂ مودت:”(اے رسول! آپ کہہ دیجیے کہ میں تم سے اس (تبلیغ رسالت) پر کوئی اجرت نہیں مانگتا سوائے اس کے کہ (تم) میرے قرابت داروں سے محبت کرو۔” (سورہ شوریٰ، 23)
یہ آیت اہل بیت علیہم السلام یعنی حضرت علی علیہ السلام، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا، امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کے بارے میں نازل ہوئی۔
۵۔ آیہ لیلة المبیت: "اور لوگوں میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو اللہ کی رضامندی کے حصول کے لیے اپنی جانوں کو فروخت کر دیتے ہیں۔ اور اللہ اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے۔” (سورہ بقرہ، 207)
یہ آیت اس واقعہ کے بارے میں نازل ہوئی جب رسول اللہ ﷺ کی ہجرت کے موقع پر حضرت علی علیہ السلام نے آپ کے بستر پر سو کر جان کو خطرے میں ڈالا تھا۔
۶۔ آیۂ مباهلہ:
"آپ کہہ دیجیے کہ تم لوگ بھی اپنے بیٹوں کو اور ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں، تم اپنی عورتوں کو اور ہم اپنی عورتوں کو بلائیں، تم اپنے نفسوں کو اور ہم اپنے نفسوں کو بلائیں، پھر (دعا کے لیے) ہاتھ اٹھائیں اور جھوٹوں کے لیے خدا کی لعنت طلب کریں۔” (سورہ آل عمران،61)
اس واقعہ میں رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی علیہ السلام، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا، امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کو ساتھ لیا تھا۔
۷۔ آیۂ توبہ: "پھر آدم نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھے (اور انہیں پڑھ کر اس سے) توبہ کی، تو اس نے ان کی توبہ قبول کر لی۔ بیشک وہی توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔” (سورہ بقرہ، 37)
اس آیت کی تفسیر میں آیا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے رسول اللہ ﷺ، حضرت علی علیہ السلام، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا، امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کی وساطت سے توبہ قبول کرائی۔
۸۔ آیۂ ابتلائے ابراہیمؑ:”اللہ نے فرمایا: میں تمہیں لوگوں کا امام بنانے والا ہوں۔ ابراہیم نے عرض کی: اور میری اولاد سے بھی (امام بنا)۔ فرمایا: میرا عہدہ ظالموں کو نہیں ملے گا۔” (سورہ بقرہ،124)
رسول اللہ ﷺنے فرمایا: "یہ دعا مجھ تک اور میرے بھائی علی تک پہنچی جنہوں نے کبھی بت کی پرستش نہیں کی، اور اللہ نے مجھے نبی اور علی کو میرا جانشین بنایا۔”
۹۔آیۂ وُدّ:”بے شک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے، ان کے لیے خدائے رحمان (دلوں میں) محبت پیدا کر دے گا۔” (سورہ مریم،96)
اس آیت کی تفسیر میں آیا ہے کہ یہ محبت درحقیقت حضرت علی علیہ السلام کی ولایت اور محبت ہے۔
۱۰۔ آیۂ ہادی:”آپ تو صرف انذار کرنے والے ہیں اور ہر قوم کے لیے ایک ہدایت کرنے والا (بھی) ہے۔” (سورہ رعد، 7)
امام باقر علیہ السلام سے اس آیت کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: "رسول اللہ ﷺ منذر (ڈرانے والے) ہیں اور علی علیہ السلام ہادی (ہدایت کرنے والے) ہیں، اور ہر امام اپنے زمانے کا ہادی ہے۔”
مصادر و مآخذ
[1] سورہ مائدہ: 55
[2] الاقتصاد ، شیخ طوسی: ص198
[3] سورہ مائدہ: 67
[4] روضة المتقین: ج1، ص245
[5] سورہ احزاب: 33
[6] المعتبر: ج1، ص23
[7] سورہ شوری: 23
[8] الوافی: ج3، ص903
[9] سورہ بقرہ: 207
[10] روضة الواعظین: ص104
[11] سورہ آل عمران: 61
[12] مصباح المتهجد: ص759
[13] سورہ بقرہ: 37
[14] الکافی: ج8، ص305
[15] سورہ بقرہ: 124
[16] الأمالی: ص379
[17] سورہ مریم: 96
[18] الکافی: ج1، ص431
[19] سورہ رعد: 7
[20] ہدایة الامة: ج1، ص15