سب سے زیادہ تلاش کیا گیا:

پیمبر اکرم ﷺ کے کلام میں امیرالمؤمنین علیہ السلام کا مقام و مرتبہ

امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام رسول اکرم ﷺ کے ہاں ایک خاص شان و منزلت کے حامل تھے۔ پیغمبراسلام ﷺ سے آپ کے بارے میں بہت سی احادیث اور فرمودات نقل ہوئے ہیں۔ ذیل میں ان میں سے چند اہم فرمودات پیش کئے جاتے ہیں۔
خداوند عالم کی مولائے متقیان کے بارے میں تاکید
رسول اللہ ﷺ سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا:”خداوند متعال نے مجھے علی (علیہ السلام) کے بارے میں سفارش فرمائی۔ میں نے عرض کیا: ‘خدایا! اسے میرے لئے واضح فرما۔’
ارشاد ہوا: ‘سنو!’ میں نے عرض کیا: ‘میں سن رہا ہوں۔’
فرمایا: ‘علی ہدایت کے علمبردار ہیں اور وہ میرے اولیاء کے امام ہیں اور ہر اس شخص کے لیے نور و روشنی ہیں جو میری اطاعت کرے۔ وہ وہی کلمہ ہیں جن کی میں نے متقین کو وصیت کی ہے۔ جو ان سے محبت کرے گا، اس نے مجھ سے محبت کی اور جو ان سے دشمنی رکھے گا، اس نے مجھ سے دشمنی کی۔”(۱)
خاتم الانبیاءﷺ کی زبان میں مولود کعبه کی انبیاء سے شباہت
رسول خدا ﷺ نے فرمایا:”علی آسمانِ ہفتم میں روشن دن کے سورج کے مانند ہیں اور آسمانِ دنیا میں چمکتے ہوئے چاند کی طرح ہیں۔ خداوند نے اپنے فضل سے علیؑ کو اتنا عطا کیا ہے کہ اس کا تھوڑا سا حصہ بھی تمام اہل دنیا کے لیے کافی ہے۔ خداوند نے انہیں اتنی عقل و دانائی عطا کی ہے کہ اگر وہ تمام دنیا والوں میں تقسیم ہو جائے تو سب کے لئے کافی ہو گی۔ ان کی مہربانی حضرت لوطؑ کی مہربانی جیسی ہے، ان کا اخلاق حضرت یحییٰ ؑکے اخلاق کے مانندہے، ان کا زهد حضرت ایوبؑ کے زهد سے مشابہ ہے، ان کی سخاوت حضرت ابراہیمؑ کی سخاوت جیسی ہے، ان کی شان و شوکت حضرت سلیمانؑ بن داود ؑکے مانند ہے اور ان کی طاقت حضرت داودؑ کی طاقت کے برابر ہے۔ ان کا ایک نام ہے جو جنت کے تمام دروازوں پر لکھا ہوا ہے۔”(۲)
صراط مستقیم اور حق وہیں ہے جہاں علیؑ ہیں
امام باقر علیہ السلام اپنے آبائے طاہرین کے واسطے سے رسول اللہ ﷺ سے نقل فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:”جو شخص پل صراط سے آسانی سے گزرنا چاہتا ہے اور بغیر حساب کے اعلیٰ جنت میں داخل ہونا چاہتا ہے، تو وہ میرے ولی و وصی، میرے جانشین اور میرے مددگار علی بن ابی طالب ؑکی ولایت پر ایمان لائے۔ اور جو شخص چاہتا ہے کہ جہنم کی آگ میں داخل ہو، تو وہ ان کی ولایت سے انکار کرے۔
خدا کی عزت و جلالت کی قسم! وہ (علی) ‘باب اللہ’ ہیں، ان کے بغیر کوئی خدا تک نہیں پہنچ سکتا۔ وہی صراط مستقیم ہیں اور قیامت کے دن خداوند ولایت کے بارے میں ہم سے انہی کے حوالے سے سوال کرے گا۔”(۳)
پیغمبر ﷺ کی زبانی جنت کا ایک اور زاویہ
مخدوج بن یزید ذہلی سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: "اہل جنت کون ہیں؟”
آپ نے فرمایا: "ہر وہ شخص جو میری اطاعت کرے اور میرے بعد علیؑ کی ولایت کو قبول کرے۔”پھر آپ ﷺ نے امیرالمؤمنین کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا: "علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں۔ جو ان سے دشمنی رکھے گا، اس نے مجھ سے دشمنی رکھی، اور جس نے مجھ سے دشمنی رکھی، اس نے خدا کی نافرمانی کی اور خدا سے دشمنی مول لی۔”پھر فرمایا: "اے علی! تمہاری جنگ اور صلح میرے ساتھ جنگ اور صلح ہے۔ تم میرے اور میری امت کے درمیان پرچم ہدایت ہو۔”(۴)
امام مظلوم کون ہیں؟
حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”اگر تم حضرت علیؑ کی ولایت کے پرچم تلے ہو تو تم ہرگز گمراہ نہیں ہو گے اور نہ ہی ہلاکت میں پڑو گے۔ لیکن اگر تم نے ان کی مخالفت کی تو سخت گمراہی میں پڑ جاؤ گے۔ پس تم خدا سے ڈرو، کیونکہ وہی امام مظلوم ہیں جو اپنے پروردگار سے متصل ہیں۔”(۵)
آخری لمحات میں پیغمبر کی امیرالمؤمنین کے بارے میں وصیت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:”اے لوگو! میری رحلت قریب ہے، خبردار ہو جاؤ کہ میں نے تمہارے سامنے حجت تمام کر دی ہے۔ میں تمہارے درمیان خدا کی کتاب اور اپنی عترت (اہل بیت) کو چھوڑے جا رہا ہوں۔”اس کے بعد آپ ﷺ نے حضرت علیؑ کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا:”علی قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن علی کے ساتھ ہے۔ یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس واپس آئیں گے۔ اور میں ان سے اس بارے میں سوال کروں گا جو تم نے میرے بعد (ان کے ساتھ) کیا۔”(۶)
"امیرالمؤمنین” کا لقب کب دیا گیا؟
حضرت حذیفہ سے روایت ہے کہ رسولﷺ نے فرمایا:”اگر لوگ جان لیتے کہ حضرت علیؑ کو کب ’’امیرالمؤمنین‘‘ کا لقب دیا گیا، تو وہ ہرگز ان کی فضیلت و کرامت کو نہ بھولتے۔امیرالمؤمنین اور آدم (علیہ السلام) دونوں کو یہ نام اس وقت دئے جب وہ (آدم) آب و گل کے درمیان تھے۔اس وقت جب خدائے متعال نے فرمایا: ‘کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟تو انہوں (سب ارواح) نے کہا: ‘کیوں نہیں ۔’ خدائے متعال نے فرمایا: ‘میں تمہارا رب ہوں، محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے نبی ہیں اور علی ؑ تمہارے ولی اور امیر ہیں۔”(۷)
پیغمبرﷺ کی شفاعت کسے نہیں ملے گی؟
حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کی زندگی اور موت میری زندگی اور موت جیسی ہو اور وہ خدا کی اعلیٰ جنت میں داخل ہو، تو اسے میرے بعد حضرت علی ؑکی ولایت کی پیروی کرنی چاہیے، ان کی ولایت کو تسلیم کرنا چاہیے اور میرے اہل بیتؑ کا اتباع کرنی چاہیے، جو میری عترت ہیں، میرے خون سے ہیں اور میرے علم و فہم سے سرفراز ہوئے ہیں۔ اور ہلاکت ہے میری امت کے ان بے ایمانوں اور جھٹلانے والوں کے لیے جو گمراہی کے عذاب میں گرفتار ہوں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن سے میرا کوئی تعلق اور رشتہ نہیں ہے اور میری شفاعت ہرگز ان تک نہیں پہنچے گی۔”(۸)
پیغمبرﷺ پر حقیقی ایمان کی شرط
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”خدایا! جو شخص مجھ پر ایمان لائے، تو اسے لازمی طور پر حضرت علی بن ابی طالب ؑ کی ولایت کو قبول کرنا ہوگا۔ کیونکہ ان کی ولایت میری ولایت ہے اور میری ولایت خدا کی ولایت ہے۔” (۹)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”جو شخص چاہتا ہے کہ اس کی زندگی اور موت میری زندگی اور موت جیسی ہو اور وہ اعلیٰ جنت میں داخل ہو، تو اسے حضرت علی (علیہ السلام) اور ان کے خاندان کی ولایت کو تسلیم کرنا ہوگا۔(۱۰)
پیغمبر ﷺ کے حضرت علی علیہ السلام کو دیکھ کر رونے کی وجہ
حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک جگہ تشریف فرما تھے۔ اسی دوران امیرالمؤمنین علیہ السلام تشریف لائے۔ پیغمبر ﷺ نے جب انہیں دیکھا تو رونے لگے اور فرمایا: "میرے پاس آؤ… آؤ اے میرے بھائی…”امیرالمؤمنینؑ آپ کے قریب گئے یہاں تک کہ پیغمبر ﷺکے دائیں جانب بیٹھ گئے۔ اس پر رسول خداﷺ نے فرمایا "یہ (امیرالمؤمنین علیہ السلام) میرا بھائی اور میرے جسم کا ٹکڑا ہے۔ وہ دنیا و آخرت میں میرے اختیارات کا مالک اور میرا علمبردار ہے۔ وہ حوض کوثر کا مالک اور میری شفاعت کا مستحق ہے۔ وہ ہر مسلمان کا ولی و مولا ہے۔ وہ ہر مومن کا امام اور ہر پاک طینت کا پیشوا ہے۔ وہ میرے بعد میرے اہل و عیال اور میری امت کا وصی اور خلیفہ ہے۔ اس سے محبت رکھنے والا مجھ سے محبت رکھتا ہے اور اس سے دشمنی رکھنے والا مجھ سے دشمنی رکھتا ہے۔ اسی کی ولایت کی وجہ سے میری امت پر رحمت نازل ہوئی اور اس کی مخالفت کی وجہ سے وہ خدا کی لعنت کا نشانہ بنیں گے۔
جب علی (علیہ السلام) آئے تو میں اس لیے روپڑا کہ میں نے اس امت کی اس کے ساتھ خیانت کو دیکھ لیا، یہاں تک کہ وہ اسے میری خلافت سے دور کر دیں گے۔
خداوند نے اسے میرا جانشین مقرر کیا ہے، وہ میرا خلیفہ ہو گا، یہاں تک کہ اس کے سر مبارک پر ایک ضربت لگے گی جو اس کے پاک چہرے اور داڑھی کو خون آلود کر دے گی، اور یہ واقعہ خدا کے بہترین مہینے یعنی ماہ مبارک رمضان میں پیش آئے گا، وہ مہینہ جس میں قرآن پوری انسانیت کی ہدایت، روشنی اور نجات کے لیے نازل ہوا۔”(۱۱)
معراج میں خداوند کی جانب سے پیغمبر اکرمﷺ کے لئے امیرالمؤمنین کے فضائل کا بیان
رسول خدا ﷺ نے فرمایا:”جب میں آسمانوں کی طرف اور سدرۃ المنتہیٰ تک معراج پر گیا، تو میں خداوند عزوجل کے حضور میں کھڑا ہوا۔ خداوند نے مجھ سے خطاب فرمایا: اے محمد!میں نے عرض کیا: لبیک یا اللہ۔فرمایا: ‘تو نے میرے تمام بندوں کو آزمایا ہے، کون زیادہ پرہیزگار اور تیرے نزدیک زیادہ مطیع ہے؟’ میں نے عرض کیا: ‘خدایا! علی (علیہ السلام)’۔
فرمایا: ‘تو نے سچ کہا اے محمد۔
کیا تو نے اپنے بعد کوئی جانشین منتخب کیا ہے جو تیری رسالت کو جاری رکھے اور میری کتاب کو میرے بندوں کو سکھائے؟’
میں نے عرض کیا: نہیں، خدایا تو ہی میرے لیے منتخب فرما، کیونکہ تیرا انتخاب سب سے بہتر ہے۔
فرمایا: ‘میں نے علی کو تیرے لیے منتخب کیا ہے، پس تو انہیں اپنا وصی اور خلیفہ مقرر کر، کیونکہ میں نے انہیں اپنے علم و حلم میں سے عطا کیا ہے۔ بیشک وہ "امیرالمؤمنین” ہیں، ان سے پہلے کوئی امیر نہیں تھا اور ان کے بعد بھی کوئی امیر نہیں ہوگا۔
اے محمد، علی ہدایت کے علمبردار ہیں۔ وہ میرے بندوں کے امام اور میرے اولیاء کا نور ہیں۔ وہی وہ کلمہ ہیں جس کی میں نے متقین کو وصیت کی ہے۔ جو ان سے محبت کرے گا، اس نے مجھ سے محبت کی اور جو ان سے دشمنی رکھے گا، اس نے مجھ سے دشمنی کی۔ پس انہیں اس کی بشارت دے دے، اے محمد۔”(۱۲)
اپنی آخری عمر کے ایام میں فتنے کے ظہور کے بارے میں پیغمبر ﷺ کی تنبیہ
پیغمبر ﷺ نے فرمایا:”میرے بعد ایک فتنہ برپا ہوگا۔ اس فتنے میں تم علی بن ابی طالبؑ کی پیروی کرنا۔ وہ پہلے شخص ہوں گے جو قیامت کے روز مجھ سے ملاقات کریں گے اور میرا ہاتھ تھامیں گے۔
وہی صدیق اکبر اور اس امت کے روشن چراغ ہیں جو حق کو باطل سے جدا کرنے والے ہیں۔ وہ یعسوب المؤمنین (مؤمنین کے سردار) ہیں۔”(۱۳)
مصادر و مآخذ
[1] الأمالي، شیخ الصدوق: ص565.
[2] الأمالي، شیخ الصدوق: ص57.
[3] بحار الأنوار، علامہ مجلسی: ج38، ص98.
[4] ينابيع المودة، حافظ قندوزی : ج1، ص65.
[5] ينابيع المودة، حافظ قندوزی : ج2، ص293.
[6] الأمالي،شیخ طوسی: ص478.
[7] إحقاق الحق وإزهاق الباطل، تستري: ج15، ص227.
[8] فرائد السمطين، حمويني شافعي: ج1، ص64.
[9] الأمالي، شیخ طوسی: ج1، ص812.
[10] المناقب، خوارزمي: ج1، ص76.
[11] فرائد السمطين، حمويني شافعي: ج2، ص25.
[12] فرائد السمطين، حمويني شافعي: ج1، ص244.
[13] ينابيع المودة، حافظ قندوزی ، ج1، ص154.