سب سے زیادہ تلاش کیا گیا:

امیرالمؤمنین علیہ‌السلام علم و دانش کا دروازہ

علم و دانش سے بہرہ‌مند ہونا ، امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی شخصیت کے نمایاں ترین اوصاف میں سے ایک ہے، جس کی طرف رسولِ خدا صلی‌الله‌علیه‌وآله نے بارہا اپنے کلام میں اشارہ فرمایا ہے۔
امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی ایک خاص صفت اپنے زمانے کے حالات سے آگاہی تھی؛ یعنی اس بات کا علم رکھنا کہ کیا گزر چکا ہے اور کیا ہونے والا ہے۔

آگے چل کر آپ ایسی حیرت انگیز روایات و احادیث ملاحظہ فرمائیں گے جو حضرت امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کے علم و آگاہی کی گہرائی اور وسعت کو بیان کرتی ہیں۔

حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ‌السلام توحید، کتابِ خدا (قرآن مجید) اور اس کی آیات کے عالم تھے، فرشتوں اور انبیاء علیہم‌السلام، ان کی رسالت اور مرنے کے بعد کے عوالم کے حالات سے بھی باخبر تھے۔

اس کے علاوہ، امیرالمؤمنین علیہ‌السلام تمام آراء، نظریات، نزاعات اور مجادلات سے آگاہ تھے۔

ان آیات اور احادیثِ شریف میں، حضرت کے مقام کے بارے میں اس طرح آیا ہے:
– رسولِ خدا صلی‌ اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
أنَا مَدینَهُ العِلمِ وعَلِیٌّ بابُها[1]
میں علم کا شہر ہوں اور علی اس شہر کا دروازہ ہیں۔

– رسولِ خدا صلی‌ اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
أنا ميزانُ العلمِ و عليٌّ كفّتاه[2]
میں علم کا میزان اور ترازو ہوں اور علی اس کے دونوں پلڑے ہیں۔

– رسولِ خدا صلی‌ اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

علی علم کا دروازہ ہیں اور وہ میری امت کے لیے میرے بعد ہر اُس چیز کو واضح کرنے والے ہیں جس کے لیے مجھے مبعوث کیا گیا ہے[3]۔

– تفسیر قرطبی میں عبد الله بن عطا سے نقل ہوا ہے:

میں نے ابو جعفر بن علی بن حسین بن علی بن ابی‌طالب علیہ‌السلام (امام محمد باقر علیہ‌السلام) سے کہا: لوگ گمان کرتے ہیں کہ علمِ کتاب سے مراد عبد الله بن سلام ہیں!

فرمایا: یقیناً وہ (علمِ کتاب کا مصداق) علی بن ابی‌طالب علیہ‌السلام ہیں[4]۔

– شواهد التنزيل میں حسکانی نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ خداوند تعالی کے اس فرمان:

أَفَمَن كَانَ عَلَى بَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّهِ[5]

کے بارے میں آیا ہے کہ رسول خدا صلی‌ اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

وَيَتْلُوهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ[6] سے مراد علی بن ابی‌طالب ہیں[7]۔

لوگوں کی اخروی سرنوشت سے متعلق امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کے علمِ غیب پر ایک عجیب روایت

– صاحبِ تذکره خواص نے زادان سے روایت کی ہے:

میں نے امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کو یہ فرماتے ہوئے سنا:

قسم ہے اُس ذات کی جس نے دانہ شکافتہ کیا اور مخلوقات کو پیدا کیا! اگر حکومت کی مسند مجھے دی جائے تو میں اہلِ تورات کے درمیان تورات کے مطابق فیصلہ کروں گا، اہلِ انجیل کے درمیان انجیل کے مطابق فیصلہ کروں گا، اہلِ زبور کے درمیان زبور کے مطابق فیصلہ کروں گا، اور اہلِ فرقان کے درمیان فرقان (قرآن) کے مطابق فیصلہ کروں گا۔

قسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! قریش میں کوئی ایسا شخص نہیں ہے جس پر مصائب نازل ہوئے ہوں، مگر یہ کہ میں جانتا ہوں کہ وہ کس آیت کے سبب جنت میں جائے گا یا جہنم میں جائے گا۔

اسی دوران ایک شخص نے حضرت سے پوچھا:

یا امیرالمؤمنین! آپ کے بارے میں کون سی آیت نازل ہوئی ہے؟

آپ نے فرمایا:

أَفَمَن كَانَ عَلَىٰ بَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّهِ وَيَتْلُوهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ[8]
کیا جو شخص اپنے رب کی طرف سے کھلی دلیل رکھتا ہے اور اس کے پیچھے اس کا گواہ بھی ہے؟

پس رسول اللہ صلی‌ اللہ علیہ و آلہ وسلم دلیل ہیں اور میں ان کا گواہ ہوں۔

– امام صادق علیہ‌السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:

یقیناً خداوند تبارک و تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ‌السلام سے فرمایا:
وَكَتَبْنَا لَهُ فِي الْأَلْوَاحِ مِن كُلِّ شَيْءٍ مَّوْعِظَةً وَتَفْصِيلًا لِّكُلِّ شَيْءٍ[9]
اور ہم نے توریت کی تختیوں میں ہر شے میں سے نصیحت کاحصہ اور ہر چیز کی تفصیل لکھ دی ہے۔
یہ نہیں فرمایا: تمام نصیحتیں!

اور حضرت عیسیٰ علیہ‌السلام سے فرمایا:
وَلِأُبَيِّنَ لَكُم بَعْضَ الَّذِي تَخْتَلِفُونَ فِيهِ[10]

اور اس لئے کہ بعض ان مسائل کی وضاحت کردوں جن میں تمہارے درمیان اختلاف ہے۔

لیکن یہ نہیں فرمایا: ہر چیز!

لیکن امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کے بارے میں فرمایا:
قُلْ كَفَىٰ بِاللَّهِ شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ وَمَنْ عِندَهُ عِلْمُ الْكِتَابِ[11]

کہہ دیجئے کہ ہمارے اور تمہارے درمیان رسالت کی گواہی کے لئے خدا کافی ہے اور وہ شخص کافی ہے جس کے پاس پوری کتاب کا علم ہے۔

اسی طرح خداوند عزوجل نے فرمایا:
وَلَا رَطْبٍ وَلَا يَابِسٍ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ[12]
کوئی خشک و تر ایسا نہیں ہے جو کتاب مبین کے اندر محفوظ نہ ہو
اور یہ بھی فرمایا:
وَكُلَّ شَيْءٍ أَحْصَيْنَاهُ فِي إِمَامٍ مُّبِينٍ [13]
اور ہم نے ہر شے کو ایک روشن امام میں جمع کردیا ہے۔

اور اس کتاب کا علم امام علی، امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کے پاس ہے[14]۔

 

[1] ۔ صحیح ترمذی ،ج۲، ص: ۲۱۴.

[2] ۔ مصابيح السنه، ص ۷۷۰.

[3] ۔ كنز الاعمال: ج۶، ص ۱۵۶.

[4] ۔ تفسير قرطبی: ج۹، ص۳۳۶.

[5] ۔ سوره هود آیه ۱۷

[6] ۔ سوره هود آیه ۱۷

[7] ۔ شواهد التنزيل: ج۱ ص۳۶۵، تذكرة الخواصّ: ص۱۶.

[8] ۔ سوره هود آیه ۱۷

[9] ۔ سوره اعراف آیه ۱۴۵.

[10] ۔ سوره زخرف آیه ۶۳.

[11] ۔ سوره رعد آیه ۴۳.

[12] ۔ سوره انعام آیه ۵۹.

[13] ۔ سوره یس آیه ۱۲.

[14] ۔  الاحتجاج: ج۲، ص۳۰۲، بصائر الدرجات: ص۲۲۹.