عصمت امیرالمؤمنین علیہالسلام کی خصوصیات میں سے ایک ہے، جس کی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اور احادیث و روایاتِ متواتر نے تاکید کی ہے اور اس کی تصدیق فرمائی ہے۔
عصمت سے مراد ہر قسم کی خطا، گناہ اور گفتار، کردار و رفتار میں لغزش سے محفوظ رہنا ہے، اور یہ شیعہ اسلام میں امامت اور رهبری کے اہم ترین ارکان میں سے ایک شمار ہوتی ہے۔
عصمت آئمہ علیہم السلام اور ان میں سرِفہرست امیرالمؤمنین علیہالسلام، اس خاندانِ مطہر کی نمایاں اور ممتاز خصوصیات میں سے ہے، جس کے لیے متعدد نقلی، عقلی اور قرآنی دلائل بیان کیے گئے ہیں، جن میں سے اہم ترین دلائل آپ آگے ملاحظہ فرمائیں گے۔
آیہ تطہیر
عصمت کے سب سے روشن دلائل میں سے ایک آیہ تطہیر ہے، جہاں خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے:
إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا[1]
بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہلبیت علیھ السّلام کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔
پس ناپاکی کو دور کرنا اور پاکیزہ بنانا، عصمت کے واضح ترین معانی میں سے ہے۔
آیۂ اولی الامر یا آیۂ ولایت
عصمت کے دیگر دلائل میں سے ایک آیہ اولی الامر یا آیہ ولایت ہے، جہاں خداوند تعالی فرماتا ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ[2]
ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو رسول اور صاحبانِ امر کی اطاعت کرو۔
اولی الامر کی عصمت اور ان کی مطلق اطاعت، خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مطلق اطاعت کے ساتھ ذکر ہوئی ہے، اس مطلق اطاعت کا لازمہ، عصمت کا ثبوت ہے اس لیے کہ اگر عصمت نہ ہو تو گناہ کے واقع ہونے کا احتمال ہوگا، اور ایسے احتمال کے ساتھ اطاعت جائز نہیں۔
اسی طرح اس آیہ شریفہ میں صاحبانِ امر کی مطلق اطاعت اور ان میں خطا کے نہ ہونے کا ذکر اس بات کی دلیل ہے کہ جہاں عصمت ہو وہاں خطا کا امکان نہیں ہوسکتا،اس کا مطلب یہ ہے کہ جو صاحبِ عصمت ہے وہ مطلق طور پر باطل سے پاک ہے اور اس طرح اولی الامر کی عصمت ثابت ہو جاتی ہے۔
اس باب میں دیگر آیات بھی موجود ہیں جنہیں یہاں ذکر کرنے کی گنجائش نہیں، لیکن کلام اور عقائد کی کتابوں میں ان کا ذکر موجود ہے۔
حضرت امیرالمؤمنین علیہالسلام کی عصمت پر تاکید کرنے والی اہم ترین احادیث
سنتِ شریف میں بھی اس بارے میں دلائل پیش کیے گئے ہیں اور بہت سی متواتر احادیث موجود ہیں، جن میں سے اہم ترین کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔
حدیث ثقلین
حدیث ثقلین ان احادیث میں سے ہے جو تمام اسلامی فرقوں کے نزدیک متواتر ہے۔
رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں:
إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمُ اَلثَّقَلَيْنِ مَا إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدِي كِتَابَ اَللَّهِ وَ عِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي وَ إِنَّهُمَا لَنْ يَفْتَرِقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ اَلْحَوْضَ[3]
میں تمہارے درمیان دو گران قدر اور نفیس امانتیں چھوڑے جا رہا ہوں؛ ایک کتابِ خدا قرآن، اور دوسری میری عترت یعنی میرے اہلِ بیت۔ آگاہ رہو! یہ دونوں میرے بعد میرے جانشین ہیں اور ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوضِ کوثر پر میرے پاس آئیں گے۔
رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ فرمان کہ قرآن اور عترت ان کے بعد دو جانشین ہیں اور قیامت تک ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے، اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اہلِ بیت علیہمالسلام معصوم ہیں اور قرآن ان کی عصمت کی تصدیق کرتا ہے، کیونکہ قرآن کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ اس کے آگے اور پیچھے سے کوئی باطل نہیں آ سکتا پس یہ جدائی نہ ہونا اسی معنی میں ہے،جو عترت خطا یا غلطی کرے وہ قرآن سے جدا ہے اور قرآن کے ساتھ ہمنشین اور ہمدم نہیں ہو سکتی۔
حدیث غدیر
حدیث غدیر بھی ان احادیث میں سے ہے جو تمام اسلامی فرقوں کے نزدیک متواتر ہے،رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس حدیث میں فرماتے ہیں:
مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَهَذَا عَلِيٌّ مَوْلَاهُ اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالاهُ وَ عَادِ مَنْ عَادَاهُ وَ انْصُرْ مَنْ نَصَرَهُ وَ اخْذُلْ مَنْ خَذَلَهُ[4]
جس کا میں مولا اور سرپرست ہوں، پس علی بھی اس کے مولا ہیں، بارالہا! اس کو دوست رکھ جو علی کو دوست رکھے اور اس کو دشمن رکھ جو علی سے دشمنی کرے۔
یہ بات واضح ہے کہ ولی اور سرپرست کی اطاعت واجب ہے، جبکہ مطلق اطاعت صرف اور صرف معصوم کی صحیح ہے۔
فرمانِ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
جو چیز ائمہ علیہمالسلام اور امیرالمؤمنین علیہالسلام کی عصمت پر دلالت کرتی ہے، وہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ فرمان ہے کہ
عَلِیٌّ مَعَ الْقُرْآنِ وَ الْقُرْآنُ مَعَ عَلِی لَا یَفْتَرِقَا حَتَّى یَرِدَا عَلَیَّ الْحَوْض[5]
علی قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن علی کے ساتھ ہے، اور یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوضِ کوثر پر وارد ہوں۔
فرمانِ امام صادق علیہالسلام
اسی طرح امام صادق علیہالسلام نے فرمایا:
نَحنُ قَومٌ مَعصومونَ، أَمَرَ اللهُ (تَبارَكَ وَتَعالى) بِطاعَتِنا، وَنَهى عَن مَعصِيَتِنا[6]
ہم معصوم ہیں؛ خداوند تبارک و تعالیٰ نے ہماری اطاعت کا حکم دیا ہے اور ہماری نافرمانی سے منع فرمایا ہے۔
کلامِ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ فرمان بھی عصمت کے معنی پر دلالت کرتا ہے، آپ نے فرمایا:
مَنْ سَرَّهُ أنْ یحْیا حَیاتِی وَ یمُوتَ مَمَاتِی وَ یسْکنَ جَنَّةَ عَدْنٍ التَّتِی غَرَسَهَا رَبِّی فَلْیوالِ عَلِیا مِنْ بَعْدِی؛ وَلْیوالِ وَلِیهُ؛ وَلیقْتَدِ بِالائِمَّةِ مِنْ بَعْدِی؛ فَإنَّهُمْ عِتْرَتِی، خُلِقُوا مِنْ طِینَتِی، وَ رُزِقُوا فَهْمًا وَ عِلْمًا. فَوَیلٌ لِلْمُکذِّبِینَ مِنْ اُمَّتِی! الْقَاطِعِینَ فِیهِمْ صِلَتی؛ لَا أَنَالَهُمُ اللَه شَفَاعَتِی![7]
جو شخص یہ چاہتا ہے کہ وہ میری طرح زندگی گزارے اور میری طرح وفات پائے اور اس جنتِ عدن میں سکونت اختیار کرے جسے میرے پروردگار نے تیار کیا ہے، تو اسے چاہیے کہ میرے بعد علی علیہالسلام کی ولایت کو قبول کرے، ان کے دوستوں سے محبت رکھے اور ان کے بعد آنے والے اماموں کی پیروی کرےکیونکہ وہ میرے اہلِ بیت ہیں، ان کا خاندان میری ہی مٹی سے بنایا گیا ہے اور خدا نے انہیں میرا فہم اور میرا علم عطا کیا ہے،افسوس ہے میری امت کے ان افراد پر جو انہیں جھٹلائیں گے؛ ایسی صورت میں میری رحمت ان سے دور ہو جائے گی اور خدا ان کے لیے میری شفاعت ان تک نہیں پہنچائے گا۔
امیرالمؤمنین علیہالسلام کی عصمت پر عقلی دلائل
امیرالمؤمنین علیہالسلام کی عصمت کے عقلی دلائل، وہی ہیں جو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عصمت کے ہیں کیونکہ امام، پیغمبر کا تسلسل ہے اور خود آنحضرتؐ نے تصریح فرمائی ہے کہ وہ اپنی خواہشِ نفس سے کلام نہیں کرتے، بلکہ جو کہتے ہیں وہ وحی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔
جو عقل یہ حکم لگاتی ہے کہ خداوند متعال کسی غیر معصوم کو نبی بنا کر نہیں بھیج سکتا، وہی عقل یہ بھی کہتی ہے کہ خداوند متعال کسی غیر معصوم کو امام بھی مقرر نہیں کر سکتا۔
اسی طرح عقل انبیاء اور ائمہ علیہمالسلام کی عصمت کو لازم قرار دیتی ہے، اس لیے کہ ہر معاملے میں ان کی اطاعت واجب ہے اور خداوند متعال کے لیے یہ قبیح ہے کہ وہ ایسے لوگوں کی اطاعت کو لازم قرار دے جو خود ایمان پر قائم نہ ہوں، یہ مقصدِ الٰہی کی نفی ہوگی، کیونکہ خداوند متعال نے انبیاء اور ائمہ علیہمالسلام کی اطاعت کو ہر اس چیز میں واجب قرار دیا ہے جو وہ کہتے ہیں تاکہ لوگوں کو ہدایت دیں، ان کی رہنمائی کریں اور انہیں دنیا و آخرت میں کمال تک پہنچائیں۔
یقیناً، رہنما اور مرشد کو خطا، غفلت، فراموشی، جھوٹ اور معصیت سے معصوم ہونا چاہیے تاکہ اس پر اعتماد کیا جا سکے اور اس کی ہدایت اور احکام کو قبول کیا جا سکے۔
[1] ۔ الأحزاب:۳۳.
[2] ۔ نساء:۵۹.
[3] ۔ أمالي الشيخ الصدوق: ص۵۰۰.
[4] ۔ دلائل الإمامة: ص۱۸. سنن الترمذي: ج۵، ص۶۳۳، ح۳۷۱۳.
[5] ۔ بحار: ج۳۸، ص۳۵. المستدرك: ج۳، ص۱۲۴.
[6] ۔ الكافي: ج۱، ص۳۶۹.
[7] ۔ مقتضب الأثر: ص۱۶. حلية الأولياء: ج۱، ص۶۸.