سب سے زیادہ تلاش کیا گیا:

حضرت امیرالمؤمنین علیہ‌السلام عدل و انصاف کے مظہر

امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی عدالت کے بارے میں یہی کافی ہے کہ عدل کو امیرالمؤمنین علیہ‌السلام سے پہچانا جاتا ہے اور امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کو عدل سے! اگر ہم امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کو ایک لفظ میں خلاصہ کرنا چاہیں، تو وہ لفظ عدالت ہے۔

آپ اپنی زندگی کے تمام امور میں، خواہ وہ بیت المال کی تقسیم ہو، کارکنوں کے ساتھ برتاؤ ہو یا سماجی مسائل، ہر چیز میں عدالت کو اپنے عمل کا بنیادی اصول قرار دیتے تھے۔

آگے چل کر آپ ایسی روایات پڑھیں گے جو حضرت امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی قضاوت میں حیرت انگیز مہارت اور اصلح قاضی کے بارے میں آپ کے باریک بین اور دقیق بیانات کو بیان کرتی ہیں۔
اہلِ یمن کے درمیان مولائے متقیان کی قضاوت کا واقعہ

رسولِ خدا صلی‌الله‌علیه‌وآله نے امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی توصیف میں فرمایا:میرے بعد تم میں سب سے بہترین قاضی (داور) علی ہیں[1]۔
حضرت وہ واحد شخصیت تھے جنہیں رسولِ اکرم صلی‌الله‌علیه‌وآله نے یمن میں قضاوت کے منصب پر فائز فرمایا، حالانکہ آپ اُس وقت ایک جوان تھے، پھر بھی آنحضرت صلی‌الله‌علیه‌وآله نے آپ کو آزمایا نہیں۔

یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت امیرالمؤمنین علیہ‌السلام ربانی الہام اور قضائی خصوصیات کے حامل تھے اور اس لائق تھے کہ رسولِ اکرم صلی‌الله‌علیه‌وآله انہیں امت کا سب سے عادل اور حَکَم قرار دیں۔
شیخ مفید کہتے ہیں: حضرت امیرالمؤمنین علیہ‌السلام اور رسولِ خدا صلی‌الله‌علیه‌وآله کی قضاوت کے بارے میں نقل ہونے والی روایات میں سے ایک یہ ہے کہ جب رسولِ خدا صلی‌الله‌علیه‌وآله نے اہلِ یمن کے درمیان قضاوت کا منصب ان کے سپرد فرمایا تاکہ وہ انہیں احکام سکھائیں، حلال و حرام کو ان کے لیے واضح کریں اور قرآن کے احکام کے مطابق ان کے درمیان فیصلہ کریں۔
شیخ مفید مزید بیان کرتے ہیں:امیرالمؤمنین علیہ‌السلام نے رسولِ خدا صلی‌الله‌علیه‌وآله سے عرض کیا:آپ نے مجھے قضاوت پر مقرر کیا ہے، حالانکہ میں ایک جوان ہوں اور تمام فیصلوں سے واقف نہیں ہوں۔

رسولِ خدا صلی‌الله‌علیه‌وآله نے فرمایا:قریب آئیے۔

امیرالمؤمنین علیہ‌السلام قریب ہوئے۔

رسولِ خدا صلی‌الله‌علیه‌وآله نے اپنا دستِ مبارک ان کے سینے پر رکھا اور فرمایا:بارالہا! ان کے دل کو ہدایت دے اور ان کی زبان کو استوار فرما۔

امیرالمؤمنین علیہ‌السلام فرماتے ہیں:اس واقعے کے بعد میں کبھی بھی دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ کرتے ہوئے شک اور تردید میں مبتلا نہیں ہوا[2]۔

امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کے دادرسی کے احکام سے منتخب اقتباس

حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ‌السلام نے مصر میں اپنے گورنر مالک اشتر کے نام اپنے خط میں ایک لائق اور باکفایت قاضی کی خصوصیات اس طرح بیان فرمائی ہیں:

لوگوں کے درمیان فیصلے کرنے کے لیے ایسے شخص کو منتخب کرو جو تمہاری نظر میں سب سے پڑھا لکھا اور بہترین ہو؛ ایسا کہ کاموں کی کثرت اُسے تنگی میں مبتلا نہ کرے اور اربابِ رجوع اُس کے تندمزاج ہونے کا سبب نہ بنیں[3]، اگر وہ کسی غلطی میں مبتلا ہو جائے تو فوراً متوجہ ہو جائے اور جب حق کو پہچان لے تو بلا درنگ اس کی طرف رجوع کرے،ایسا شخص ہو جس کا نفس حریص نہ ہو [4]اور حق تک پہنچنے میں معمولی جانکاری پر اکتفا نہ کرے،اربابِ رجوع کی کسرت سے رفت و آمد سے کم تھکنے والا ہو اور حقائق کو آشکار کرنے کے لیے صبر و حوصلہ رکھنے والا ہو[5]، جب معاملہ واضح ہو جائے تو قضاوت میں قاطع اور مضبوطی سے عمل کرے۔

ایسا شخص ہو جسے تعریف و ستائش کی زیادتی غرور میں مبتلا نہ کرے اور خوشامد اس کو ابھارے نہ ، ایسے افراد بہت کم ہوتے ہیں، پھر ایسے شخص کی قضاوت کو مسلسل زیرِ نظر رکھو اور اس کے بارے میں بھرپور خبرگیری کرتے رہو،اس کے لیے اتنے وسائل فراہم کرو کہ وہ خدا کی مخلوق کا محتاج نہ رہے اور اس کا عذر باقی نہ رہے،اس کے مرتبے کو اپنے نزدیک اتنا بلند کرو کہ تمہارے قریبی افراد بھی اُس کے بارے میں طمع نہ کر سکیں اور وہ تمہارے قریبی لوگوں کی دست درازی سے محفوظ رہے۔

اس امر پر خوب توجہ کرو، کیوں کہ یہ دین ان لوگوں کے ہاتھ میں جا چکا تھا جو اس کے ساتھ اپنی خواہشات کے مطابق برتاؤ کرتے تھے اور اس کے ذریعے دنیا طلب کرتے تھے[6]۔

حضرت امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کے کلام میں نالائق قاضی

امیرالمؤمنین علیہ‌السلام اُن افراد کے بارے میں جو امت کے درمیان قضاوت کرتے ہیں جب کہ وہ قضاوت کے اہل نہیں ہوتے، یوں فرماتے ہیں:

خداوند کے نزدیک سب سے زیادہ منفور مخلوقات دو قسم کے لوگ ہیں:

ایک وہ جسے خدا نے اس کے حال پر چھوڑ دیا ہے پس وہ راہِ راست سے منحرف ہو گیا ہے اور بدعتی باتوں کا دلدادہ ہو گیا ہے[7] اور لوگوں کو گمراہی کی طرف بلاتا ہے،وہ اس کے فریب خوردہ لوگوں کے لیے سراپا فریب ہے،وہ ہدایت یافتہ پیشینیوں کی ہدایت سے روگردانی کرتا ہے اور اُن کے لیے جو اس کی زندگی یا موت کے بعد اس کی پیروی کریں، گمراہی ہے۔ وہ دوسروں کے گناہوں کا بوجھ اپنے دوش پر اٹھا تا ہے اور اپنے خطاؤں کا بار بھی اٹھاتا ہے۔

دوسرا ایسا شخص ہے جس نے جہالتوں کو اپنے اندر جمع کیا ہے[8] اور نادانوں کو گمراہ کرتا ہے، وہ فتنہ و فساد کی تاریکی میں بے خبر ہے، اصلاح کے وقت اندھا ہے، لوگ اسے دانا کہتے ہیں حالانکہ وہ جاہل ہے،جلدی اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور ان چیزوں کو زیادہ جمع کرتا ہے جن کی کمی ان کی زیادتی سے بہتر ہے، یہاں تک کہ اپنی بے وقوفی پر راضی ہو جائے اور بے فائدہ ذخیرہ اندوزی کرے۔
اگر اس کے سامنے کوئی مشکل مسئلہ پیش کیا جائے تو وہ اپنی ہی رائے سے بےمعنی اور بےہودہ باتیں گھڑ کر اس پر حکم دیتا ہے،وہ ایسا شخص ہے جس کے دل میں مکڑی کے جالے کی مانند شک اور تزلزل ہوتا ہے، نہیں جانتا ہے کہ جو کہہ رہا ہے وہ درست ہے یا غلط، اگر درست بات کر بھی لے تو ڈرتا ہے کہ شاید غلطی کی ہو، اور اگر غلطی کرے تو امید رکھتا ہے کہ شاید درست کہا ہو۔

یہ جاہل اپنی ہی خطاؤں میں سرگردان ہے، جیسے تیز آندھی ادھر اُدھر بھٹکتی ہے،جس چیز کا علم نہیں رکھتا اسے کوئی اہمیت نہیں دیتا اور نہ دیکھتا ہے،احادیث کو ایسے نقل کرتا ہے جیسے ہوا کی طرح بے بنیاد اور سرگردان ہوں۔

خدا کی قسم! جب احکام صادر کرتا ہے تو جس چیز کا اسے علم نہیں حقیر شمار کرتا ہے، اسے اس بات کی پروا نہیں ہوتی کہ ممکن ہے کوئی شخص عقیدے میں اس سے ہم‌عقیدہ ہو لیکن رائے میں اس سے مختلف ہو،اگر اس پر ظلم ہو تو اپنی جہالت کے باعث اسے چھپا لیتا ہے۔

اس کے ظالمانہ فیصلوں سے خون جوش میں آنے لگتے ہیں اور لوگ خدا کے حضور اس کی شکایت کریں گے:پروردگارا! ہمیں ایسے گروہ سے نجات دلا جو جاہلیت میں زندگی گزارتے ہیں اور گمراہی میں مرتے ہیں۔

خدایا! ہمیں ایسے گروہ میں شامل فرما جن کے درمیان خدا کی کتاب سے بڑھ کر کوئی قیمتی متاع نہیں،وہ کتاب کہ اگر اس کی درست تلاوت کی جائے تو اس سے زیادہ قیمتی کوئی سرمایہ نہیں[9]۔

امیرالمؤمنین علیہ‌السلام عدل کی اعلیٰ ترین مثال

امام باقر علیہ‌السلام سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا:رسولِ خدا صلی‌الله‌علیه‌وآله نے علی علیہ‌السلام کو یمن بھیجا، وہاں ایک شخص کا گھوڑا بھاگ نکلا اور اس نے ایک آدمی کو لات مار کر قتل کر دیا، مقتول کے اولیاء نے گھوڑے کے مالک کو پکڑا اور علی علیہ‌السلام کے پاس لے آئے، گھوڑے کے مالک نے گواہ پیش کیا کہ گھوڑا اُس کے گھر سے بھاگ گیا تھا اور اس نے جا کر اس آدمی کو لات ماری۔

علی علیہ‌السلام نے مقتول کے خون کو باطل قرار دیا۔

مقتول کے اولیاء یمن سے رسولِ خدا صلی‌الله‌علیه‌وآله کے پاس گئے اور علی علیہ‌السلام کے فیصلے کی شکایت کرتے ہوئے کہا:علی نے ہم پر ظلم کیا اور ہمارے مقتول کے خون کو ضائع کر دیا۔
رسولِ خدا صلی‌الله‌علیه‌وآله نے فرمایا:علی علیہ‌السلام ستمگر نہیں ہیں اور نہ ہی اس کام کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ میرے بعد ولایت علی کے ساتھ ہے،حکم، حکمِ علی ہے اور کلام، کلامِ علی ہے، جو علی کے حکم، کلام اور ولایت کو رد کرے، وہ کافر ہے، اور جو شخص ان کے حکم، کلام اور ولایت پر راضی ہو، وہی مومن ہے۔

جب یمن کے لوگوں نے علی علیہ‌السلام کے بارے میں رسولِ خدا صلی‌الله‌علیه‌وآله کا یہ فرمان سنا تو کہنے لگے:یا رسول اللہ! ہم علی کے کلام اور فیصلے پر راضی ہیں۔

رسولِ خدا صلی‌الله‌علیه‌وآله نے فرمایا:تمہارا یہ کہنا ہی اس بات کی توبہ کے برابر ہے جو تم پہلے کہہ چکے تھے[10]۔

چھے ماہ کے نومولود کے بارے میں امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کا فیصلہ

یونس نے حسن سے روایت کی ہے:خلیفہ دوم ایک عورت کو لائے جس نے چھے ماہ کے بعد بچہ جنم دیا تھا، اور انہوں نے اس کے رجم (سنگسار) کا حکم دے دیا تھا۔

امیرالمؤمنین علیہ‌السلام نے خلیفہ دوم سے فرمایا:میں تمہارے ساتھ کتابِ خدا کے ذریعے احتجاج کرتا ہوں، کیونکہ خداوند بلند مرتبہ فرماتا ہے: حمل اور دودھ چھڑانے کی مدت تیس ماہ ہے[11] ، [12]اور خدا کا یہ بھی فرمان ہے: مائیں اپنے بچوں کو پورے دو برس دودھ پلائیں، اس کے لیے جو دودھ پلانا مکمل کرنا چاہے[13]۔

پس اگر کوئی عورت دودھ پلانے کو دو برس میں مکمل کرے اور اس کے حمل و شیرخوارگی کی کل مدت تیس ماہ ہو، تو اس کا حمل چھے ماہ کا شمار ہوگا۔

چنانچہ‌ اس بنا پر خلفیفہ نے اُس عورت کو آزاد کر دیا اور یہی حکم نافذ ہوگیانیز صحابہ، تابعین اور  آج تک سبھی اس حکم پر عمل کرتے ہیں[14]۔
امیرالمؤمنین علیہ‌السلام اسی طرح دیگر واقعات میں بھی کتابِ خدا کے مطابق حکم صادر فرماتے اور لوگوں کے اذہان کو حیران کر دیتے تھے، یہ حکم کتابِ خدا میں ثابت ہے، لیکن انسانوں کی عقل اسے سمجھنے سے قاصر رہتی ہے، سوائے اُن کامل ترین افراد کے جنہیں خداوند نے اپنی طرف ہدایت بخشی اور انہیں دینی علوم سکھائے۔

یقیناً اس میں کوئی شک نہیں کہ امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی شخصیت نہ صرف ایک نمایاں اور ممتاز شخصیت ہے بلکہ اپنی گہرائی اور غنا کے باعث، جو انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں اور تمدنی جدتوں میں صدیوں سے جلوہ گر ہے، اسلام کے معجزات میں سے ایک شمار ہوتی ہے۔

 مأخذ:

ـ الإرشاد الشيخ المفيد، دار المفيد للطباعة والنشر والتوزيع، بيروت، لبنان، الطبعة الثانية ۱۴۱۴ هجرية – ۱۹۹۳ ميلادية.

ـ عجائب احكام أمير المؤمنين علي بن ابی‌طالب عليه‌السلام، تأليف: العلامة السيد محسن الامين العاملي(قده).

ـ منهج الإمام علي عليه‌السلام في القضاء، فاضل عباس الملا.

ـ قضاء أميرالمؤمنين علی بن أبی‌طالب عليه‌السلام، الشيخ محمد تقي التستري.

[1]۔  الإحتجاج، الشيخ الطبرسي: ج۲، ص۱۰۳.

[2] ۔الإرشاد، الشيخ المفيد: ج۱، ص۱۹۵.

[3] ۔ نهج البلاغة، خطب الإمام علي عليه‌السلام، ج۳، ص۹۵.

[4] ۔ نهج البلاغة، خطب الإمام علي عليه‌السلام، ج۳، ص۹۵.

[5] ۔ نهج البلاغة، خطب الإمام علي عليه‌السلام، ج۳، ص۹۵.

[6] ۔ نهج البلاغة، خطب الإمام علي عليه‌السلام، ج۳، ص۹۵.

[7] ۔ نهج البلاغة، خطب الإمام علي عليه‌السلام، ج۳، ص۹۵.

[8] ۔ نهج البلاغة، خطب الإمام علي عليه‌السلام، ج۳، ص۹۵.

[9] ۔ نهج البلاغة، خطب الإمام علي عليه‌السلام، ج۱، ص۵۳.

[10] ۔ الأمالی، الشيخ الصدوق، ص۴۲۹.

[11] ۔ سوره احقاف آیه ۱۵

[12] ۔ سورة الأعراف: آية ۱۵.

[13] ۔ سوره بقره آیه ۲۳۳.

[14] ۔ الإرشاد، الشيخ المفيد، ج۱، ص۲۰۶