امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کی سادہ زندگی اور زہد و تقویٰ تاریخ اسلام میں ایک روشن مثال ہے، لباس میں سادگی، خوراک میں پرہیزگاری اور خلافت کے دور میں عدالت سب ان کے بے مثال کردار کی گواہی دیتے ہیں۔
امیرالمؤمنین حضرت علی علیہالسلام نہ صرف زہد، سادگی اور تقویٰ کے سمندر تھے بلکہ عملی میدان میں ان کا طرزِ زندگی سادہ ترین اور پرہیزگارانہ تھا، مؤرخین و راویوں نے آپ کی زاہدانہ زندگی کے ایسے حیرت انگیز اور سبق آموز گوشے محفوظ کیے ہیں جن سے رہتی دنیا تک مسلمان سبق حاصل کرتے رہیں گے۔
لباس میں سادگی اور فقرا سے ہمدردی
حضرت علیؑ ہمیشہ صاف ستھرا لباس پہنتے، مگر اس کے قیمتی یا نرم ہونے کی پرواہ نہ کرتے، سخت اور کھردرا لباس زیب تن کرتے اور اکثر صرف ایک جوڑا ہی رکھتے، ان کا یہ طریقہ دنیا سے بے رغبتی، فقرا سے ہمدردی اور زہد و تقویٰ کا مظہر تھا۔
جب لوگ آپ کے پیوند لگے لباس پر طنز یا تعجب کرتے تو آپ فرماتے:یہ لباس دل کو خشوع کی طرف مائل کرتا ہے، اور مؤمن اسے دیکھ کر میری پیروی کرتا ہے۔
ابو اسحاق سبیعی روایت کرتے ہیں:میں اپنے والد کے کندھوں پر سوار تھا اور امیرالمؤمنین علی بن ابیطالب علیہالسلام خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، آپؑ اپنی آستین سے ہوا دے رہے تھے،میں نے اپنے والد سے پوچھا: کیا امیرالمؤمنین علیہالسلام کو گرمی لگ رہی ہے؟
میرے والد نے جواب دیا: نہیں، نہ اُنہیں سردی لگ رہی ہے اور نہ ہی گرمی؛ بلکہ انہوں نے اپنا لباس دھویا ہے اور وہ ابھی نم ہے، کیونکہ اُن کے پاس دوسرا لباس نہیں ہے۔ اس لیے اُسے ہوا دے رہے ہیں تاکہ خشک ہو جائے۔
علی بن اقمر روایت کرتے ہیں:میں نے امیرالمؤمنین علیہالسلام کو بازار میں دیکھا کہ اپنی تلوار فروخت کر رہے تھے اور فرما رہے تھے:
کون ہے جو یہ تلوار مجھ سے خریدے؟ قسم اُس ذات کی جس نے دانے کو زمین سے اگایا! میں نے اسی تلوار سے بارہا رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مصیبتوں سے بچایا ہے، اگر میرے پاس دوسرا لباس ہوتا، تو میں اسے ہرگز نہ بیچتا۔
حضرت امیرالمؤمنینؑ کی زاہدانہ غذا
ہم اُس ہستی کے دسترخوان کی بات کر رہے ہیں جس نے دنیا کو طلاق دے دی تھی۔ حضرت امیرالمؤمنین علیہالسلام رنگ برنگے اور لذیذ کھانوں سے پرہیز فرماتے تھے اور نمک کے ساتھ خشک روٹی جیسی سادہ غذا کھاتے تھے۔ کبھی کبھار اس میں دودھ یا سرکہ کا اضافہ کرتے تھے۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں فاقہ و بھوک کے عالم میں آپؑ اپنے پیٹ پر پتھر باندھ لیا کرتے تھے۔
آپ گوشت بہت کم کھاتے تھے، اور فرماتے تھے:اپنے پیٹوں کو جانوروں کا قبرستان نہ بناؤ۔
اور ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:جو شخص اپنے پیٹ میں آگ رکھے (یعنی حد سے زیادہ کھائے)، وہ خدا کی رحمت سے دور ہو جاتا ہے۔
سُوَید بن غَفَله، امیرالمؤمنینؑ کے زہد و پرہیزگاری کا ایک منظر یوں بیان کرتے ہیں:میں علی بن ابی طالب، امیرالمؤمنین علیہالسلام کے پاس حاضر ہوا،آپؑ کو بیٹھے ہوئے پایا، آپؑ کے ایک ہاتھ میں کھٹی لسی کا پیالہ تھا، جس کی کھٹاس اتنی شدید تھی کہ میری ناک تک پہنچ رہی تھی اور دوسرے ہاتھ میں جَو کی سخت روٹی کا ٹکڑا تھا، جس پر جَو کے چھلکے صاف نمایاں تھے۔
آپؑ خود ہی اس روٹی کو ہاتھ سے ٹکڑے ٹکڑے کر رہے تھے،
اور جب ہاتھ تھک جاتا تو گھٹنے سے روٹی توڑتے اور پھر وہ ٹکڑے لسی میں ڈال دیتے تھے۔
آپ نے مجھ سے فرمایا:قریب آؤ اور ہمارے ساتھ کھانا کھاؤ۔
میں نے عرض کیا: میں روزے سے ہوں۔
آپ نے فرمایا:میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سنا ہے کہ جو شخص کسی پسندیدہ کھانے سے محض روزے کی وجہ سے باز رہے، تو اللہ پر حق ہے کہ اُسے جنت کا کھانا کھلائے اور جنتی مشروب سے سیراب کرے۔
میں نے قریب کھڑی حضرتؑ کی خادمہ فِضہ کی طرف دیکھ کر کہا:تمہیں کیا ہو گیا ہے فضہ! کیا تمہیں خدا کا خوف نہیں؟ تم نے مولا کا کھانا الگ نہیں بنایا؟
فضہ نے جواب دیا:خود مولا نے ہمیں منع فرمایا ہے کہ اُن کا کھانا الگ سے نہ بنائیں۔
اس پر امیرالمؤمنینؑ نے فرمایا:آپ نے اس سے کیا کہا؟
میں نے ساری بات عرض کی، پھر کہا:میرے ماں باپ قربان ہوں اس ہستی پر!
جس کا کھانا کبھی الگ نہ کیا گیا اور جس نے زندگی میں تین دن بھی لگاتار گندم کی روٹی نہیں کھائی
یہاں تک کہ خدا نے ان کی روح قبض فرما لی!
یہ بات مسلم ہے کہ امیرالمؤمنین علیہالسلام نے اپنی پوری زندگی، حتیٰ شہادت کے لمحہ تک کبھی لذیذ کھانوں کو نہیں چکھا۔
ان کی آخری افطاری بھی صرف نان اور نمک سے ہوئی۔
جب جناب ام کلثوم، آپؑ کی بیٹی، ایک کاسہ دودھ لے کر آئیں تو آپؑ نے فرمایا کہ اسے واپس لے جاؤ۔
اسی وقت آپؑ نے یتیموں کو بلایا اور انہیں شہد کھلایا، یہاں تک کہ بعض اصحاب نے حسرت سے کہا: کاش ہم بھی یتیم ہوتے!
امیرالمؤمنین علیہالسلام وہ ہستی تھے جنہوں نے دنیا کو طلاق دے دی تھی۔
اگرچہ ان کے دور میں بلادِ شام کے علاوہ تمام اسلامی سرزمینوں سے جزیہ و مال ان کے پاس آتا تھا، مگر وہ ان سب اموال کو فقراء و محتاجوں میں تقسیم کر دیا کرتے تھے اور اپنے لیے کچھ نہ رکھتے تھے۔
ماخذ
بحار الانوار، علامہ مجلسی، ج 43
نہج البلاغہ، شرح ابن ابیالحدید
مکارم الاخلاق، طبرسی
شرح ابن اثیر و ابن سعد