سب سے زیادہ تلاش کیا گیا:

حرم علوی میں موجود مسجد الرأس کا تعارف

حرم علوی میں موجود مسجد الرأس کا تعارف

حرم مطہر امیرالمؤمنین علیہ السلام کے اہم تاریخی آثار میں سے ایک «مسجد الرأس» اپنے منفرد مقام کی وجہ سے شہرت رکھتی ہے۔ یہ مسجد حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام کے سر مبارک کے نزدیک تعمیر کی گئی ہے، اسی وجہ سے اسے «مسجد الرأس» (سر والی مسجد) کہا جاتا ہے۔
حرم امیرالمؤمنین علیہ السلام کے اہم تاریخی و قدیمی آثار کے تعارف کے سلسلے میں،اس رپورٹ میں «مسجد الرأس» پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس مقالہ میں مسجد الرأس کی وجہ تسمیہ ، اس کی تعمیر کا زمانہ، اور وقت کے ساتھ ساتھ اس میں رونما ہونے والی تبدیلیاں وغیره ؛ ان تمام سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کی گئی ہے ۔
مسجد الرأس
مسجد الرأس حرم امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کے مغربی صحن میں جانب واقع ہے۔ اس کا نام «مسجد الرأس» (سر) اس لیے رکھا گیا ہے کیونکہ یہ حضرت علی علیہ السلام کے مقدس سر کے قریب تعمیر کی گئی ہے۔
اس مسجد کی تعمیر کا تعلق ایلخانی دور سے ہے۔« شیخ محمد حرزالدین» نے ذکر کیا ہے کہ اس مسجد کو "غازان ابن ہلاکو خان” نے بنوایا تھا۔ اس کی تعمیر میں غازان خان کو پورا ایک سال لگا، اور اس دوران وہ "ثویہ” علاقے میں نجف اور "مسجد حنانہ” کے درمیان اپنے خیمے نصب کیے ہوئے تھا۔
تاہم، "براقی” نے اس کی تعمیر "شاہ عباس اول صفوی” سے منسوب کی ہے۔ اس وقت موجودہ مسجد کی عمارت کی متعدد بار تعمیر نو کی جا چکی ہے۔ یہ عمارت شاہ عباس اول کے دور میں اور پھر نادر شاہ کے زمانے میں دوبارہ تعمیر کی گئی، جبکہ نادر شاہ کے دور میں اس کی آخری مرمت ہوئی۔
تاہم براقی کے مطابق یہ مسجد شاہ عباس اول نے تعمیر کروائی تھی، جیسا کہ نجف اشرف کے باشندوں میں بھی یہ بات معروف و مشہور ہے۔ اس مسجد کے ایک محراب میں ایک پتھر نصب ہے جس پر بڑے اور واضح حروف کندہ ہیں۔ بعض لوگ انھیںں طلسم سمجھتے ہیں۔ یہ مسجد سن 1156 ہجری میں دوبارہ تعمیر کی گئی۔ جیسا کہ مورخ فارس نے اپنی کتاب "تاریخ نادری” کے صفحہ 237 میں ذکر کیا ہے، اس مسجد کی تعمیر نو کے دوران اس کے گنبد اور دونوں میناروں کی طلاکاری کی گئی تھی۔
” شاہ سلطان حسین کی بیٹی اور نادر شاہ کی زوجہ، راضیه سلطان نے مسجد جامع کی تعمیر کے لیے 20 ہزار نادری (سکے) خرچ کیے، جو سر مبارک امیرالمؤمنین علیہ السلام کے پاس واقع ہے۔”
اسی طرح یہ بھی کہا جاتا ہے کہ: «علامہ سید بحرالعلوم کے دور میں اور ان کے حکم سے دوسری بار اس مسجد کی تعمیر نو کی گئی۔ البتہ وہ اپنے بعض قریبی لوگوں سے کہا کرتے تھے کہ ‘یہ مسجد امام حسین علیہ السلام کے مقدس سر کی وجہ سے بنائی گئی ہے اور یہ مقام درحقیقت انھیں کے سر مبارک کی وجہ سے مخصوص ہے۔»
سلطان عبدالحمید عثمانی کے دور میں مسجد الرأس کی دیواروں کو مختلف رنگوں سے رنگا گیا اور اس میں چمکدار سفید سنگ مرمر کا ایک منبر نصب کیا گیا۔ یہ مسجد کچھ عرصے تک اہل سنت کے لیے مخصوص رہی جہاں جمعہ، عید الفطر اور عید الاضحی کے دنوں میں ہی نماز جماعت ادا کی جاتی تھی۔
عثمانی حکومت کے خاتمے کے بعد یہ مسجد بند ہو گئی اور اس کا دروازہ کچھ عرصے تک بند رہا۔ بعد ازاں اسے دوبارہ کھولا گیا اور عظیم المرتبت عالم علامہ نائینی نے یہاں نماز ادا کی۔ آج کل اس مسجد کے بعض ستون گر چکے ہیں، جس کی وجہ سے عراقی حکومت نے اس کی تعمیر نو اور بنیادی مرمت کا فیصلہ کیا ہے۔
مسجد الرأس کے دروازے پر دو اشعار کندہ ہیں جو سلطان عبدالحمید کے دور میں اس کی تعمیر نو کی تاریخ بتاتے ہیں، جو 18 ذی الحجہ 1306 ہجری (1889ء) کی ہے۔
مسجد الرأس کی تاریخ
عبدالہادی ابراہیمی، جو حرم امیرالومنین علیہ السلام کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے رکن ہیں اور ایک مورخ ہونے کے ساتھ ساتھ تاریخی امور کے ماہربھی ہیں، وه مسجد الرأس کی وجہ تسمیہ بتاتے هوئے کہتے ہیں:

"یہ مسجد حرم مطہر امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کے مغربی جانب واقع ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ حضرت علی علیہ السلام کے سر مبارک کی سمت میں ہے۔ اسی وجہ سے اس کا نام مسجد الرأس (سر والی مسجد) رکھا گیا ہے، البتہ یہ ایک نقطہ نظر ہے۔”
لیکن اہل بیت علیہم السلام کی روایات کے مطابق ایک دوسرا نقطہ نظر بھی موجود ہے جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ مسجد درحقیقت امام حسین علیہ السلام کے سر مبارک کی جگہ پر تعمیر ہوئی ہے۔ امام باقر اور امام جعفر صادق علیہما السلام سے منقول احادیث، خاص طور پر قدیم کتب جیسے علامہ کلینی کی”اصول کافی” اور ابن قولویہ قمی کی کتاب "کامل الزیارات” میں بھی یہی بات مذکور ہے۔
علی بن اسباط امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت نقل کرتے ہیں:”جب تم غری (نجف) آؤ اور ایک بڑی قبر اور ایک چھوٹی قبر دیکھو، تو جان لو کہ بڑی قبر امیرالمؤمنین علیہ السلام کی ہے، اور چھوٹی قبر حسین بن علی علیہ السلام کے سر مبارک کی ہے۔”
ایک اور روایت کے مطابق اس مقام پر سر مبارک کے موجود ہونے اور دفن ہونے کی وجہ بیان ہوئی ہے۔ یه روایت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے: "جب امام حسین علیہ السلام کا سرمبارک شام لے جایا گیا، تو ہمارے ایک غلام نے اسے چرا کر امیرالمؤمنین علیہ السلام کی قبر مبارک کے پاس دفن کر دیا۔”
ظاہراً یہ دفن عارضی تھا اور مستقل نہیں تھا، کیونکہ زیارت عاشورا کی تلاوت اور اس کے بعد دعائے علقمہ کا آغاز اسی مقام سے ہوا، جیسا کہ امام باقر علیہ السلام سے منقول ہے۔
صفوان جمال کی ایک روایت بھی موجود ہے کہ جب وہ اپنے دوستوں کے ساتھ امیرالمؤمنین علیہ السلام کی زیارت کو پہنچے، تو انہوں نے اس جگہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: "امام صادق علیہ السلام کی تاکید ہے کہ سید الشہداء کے لیے زیارت عاشورا اور دعا اسی مقام پر پڑھی جائے۔”
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا دو روایات کے درمیان کوئی تضاد پایا جاتا ہے؟ جیسا کہ روایات میں وارد ہوا ہے، امام زین العابدین علیہ السلام نے شہداء کے سروں کو شام سے کربلا لاکر ان کے اجساد کے ساتھ دفن کردیا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ سرہائے شهدا کو اس وقت دفن کیا گیا جب اسیروں کا قافلہ کربلا سے واپس آرہا تھا اور وہ رات میں مسجد حنانہ میں رکے تھے۔ اس کے بعد شہدا کے سر ہائے مبارک کو کوفہ لے جاکر دار الاماره میں عبیداللہ بن زیاد کے سامنے پیش کیا گیا۔ پھر تمام سروں کو اسیروں کے قافلے کے ساتھ شام لے جایا گیا، جن میں امام حسین علیہ السلام کا سر مبارک سب سے آگے تھا۔
اسی طرح مشهور اور متواتر روایات سے نقل کیا گیا ہے که جب امام حسین علیہ السلام کا سر مبارک یزید کے دربار میں پیش کیا گیا تو آنحضرت کی دختر نیک اختر جناب رقیہ (ع) نے اپنے والد ماجد کا سر مبارک اپنی آغوش میں لےلیا اور اسی حالت میں آپ کی روح پرواز کر گئی۔ اس سے یه اندازا هوتا ه که سرمبارک شام بھی لے جایا گیاتھا۔
«سید محمد مہدی بحرالعلوم» جو شیعوں کے بڑے مرجع اور رہنما تھے اور 1212 ہجری میں وفات پا گئے، اس بات پر خاص زور دیتے تھے کہ: "یہ مسجد امام حسین علیہ السلام کے سر مبارک کی جگہ پر بنائی گئی ہے اور خاص طور پر انہی کے سر کی یاد میں تعمیر کی گئی ہے۔” اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ مسجد نہ صرف امام حسین علیہ السلام کے سر مبارک کی موجودگی والی جگہ پر قائم ہے، بلکہ خاص طور پر ان کے سر کی یادگار کے طور پر بنائی گئی تھی۔
صاحب جواهر ، علامہ محمد حسن جواہری اپنا نقطہ نظر بیان کرتے ہوئے فرماتے هیں: ” ممکن ہے که ان روایات میں کوئی تضاد نہ ہو، اس لئے که امام حسین علیہ السلام کا سر مبارک کچھ وقت کے لیے یہاں دفن کیا گیا ہو اور پھر کربلا منتقل کر دیا گیا ہو۔ ایسی جگہ پر نماز پڑھنے اور زیارت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔”
«شیخ محمد حرزالدین» اپنی کتاب "معارف الرجال” میں «میرزا ہادی خراسانی» سے اور وه «سید داؤد رفیعی» سے اور وه اپنے آباؤ اجداد سے نقل کرتے ہیں: "پہلے والی دیوار، یعنی یہی دیوار جو محراب اور سابات کے درمیان جنوبی جانب ایک فولاد کی قیمتی ضریح میں ایک گڑھا ہوا کرتا تھا جس پر سبز رنگ کا کپڑا پڑا ہوتا تھاجو مقام امام حسین علیہ السلام کے سر مبارک کی جگہ کے طور پر جانا جاتا تھا، لیکن بعد میں اسے ختم کر دیا گیا۔”
مسجد الرأس کے سلسلے میں مختلف نظریات کا جائزہ
مسجد الرأس حرم امیرالمومنین علیہ السلام کے اہم تاریخی مقامات میں سے ایک ہے۔ تاریخی کتابوں میں وارد ہوا ہے کہ غازان خان مغول (ہلاکو خان کا پوتا، وفات 703 ہجری) نے یہاں ایک عمارت بنوائی تھی جو پورے ایلخانی دور تک قائم رہی۔ – ایلخانی عمارت کے ڈھ جانے کے بعد موجوده مسجد ، صفوی دور میں شاہ عباس اول نے تعمیر کروائی۔اس کا مطلب یه ہوا کہ اس تعمیر میں ایک خاص رہگذر (ساباط) بنایا گیا جو که مسجد اور حرم مطہر کو ایک دوسرے ے الگ کرتا ہے۔

1157 ہجری میں جب حرم امیرالمومنین علیہ السلام کی طلاکاری مکمل ہوئی تو نادر شاه کی اہلیہ راضیہ سلطان بیگم نے مسجد کی مکمل مرمت ، اس کی تعمیر نو اور نیا فرش بچھوانے کے لئے پیش قدمی کی ۔
اسی طرح 1306 ہجری میں سلطان عبدالحمید عثمانی نے مسجد کی دوبارہ مرمت، دیواروں پر طلاکاری اور سنگ مرمر کا ایک نیا منبر لگوایا ۔ مرمر کے پتھر پر تعمیر کی تاریخ کے دو شعر کندہ کروائے ۔ در حقیقت مسجد کے دروازے کے اس طرف اور دائیں جانب باہر کی سمت درب فرج کے راستے سے داخلہ ممکن تھا ۔ دروازے کے اوپر سنگ مرمر نصب کیا گیا تھا جس پر دو اشعار کندہ تھےجو مسجد کی تعمیر نو کی تاریخ اور تعمیراتی کاموں کا سرکاری ریکارڈ بیان کرتی تھی۔
اس وقت یہ مسجد اہل سنت کے لیے مخصوص تھی اور یهاں صرف نجف اشرف کے عثمانی ہی نماز جمعہ، عید الفطر اور عید الاضحی کی نمازیں هی پڑھا کرتے تھے ۔
عثمانی حکومت کے خاتمے کے بعد یہ مسجد عارضی طور پر بند ہوگئی اور بے توجهی کا شکار ہو کر خستہ حالت میں چلی گئی ۔ یہاں تک که «علامہ نائینی رضوانه الله علیہ» نے دوباره اس میں نماز جماعت کا سلسلہ شروع کیا۔ دیگر ممتاز علماء جنہوں نے اس مسجد میں نماز جماعت قائم کی:« آیت اللہ سید جمال الدین ہاشمی» ان کے صاحبزادےاور ان کے پوتےتھے۔
«آیت اللہ سید محسن طباطبائی حکیم، شہید سید محمد صادق صدر » ان نامور علماء میں سے هیں جنھو ں نے موجوده دور میں اس مسجد میں علمی سرگرمیاں انجام دیں ۔

مزید مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے