"مدرسہ غرویہ” حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام کے صحن مقدس کے پاس واقع ہے اور نجف اشرف کے اہم تاریخی مقامات میں شمار ہوتا ہے۔ اگرچہ اس مدرسے میں بہت سی ممتاز علمی شخصیات نے تعلیم حاصل کی، لیکن تاریخ کے مختلف ادوار میں اسے بہت زیاده نظر انداز کیا گیا۔
مدرسہ غرویہ، حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام کے صحن مقدس کے ایک اور تاریخی آثار میں سے ہے، جس پر اس رپورٹ میں درج ذیل سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کی گئی ہے :
آیا یہ مدرسہ نجف اشرف کے قدیم ترین دینی مدارس میں سے ہے یا نہیں؟
اس مدرسہ کی بنیاد کب رکھی گئی؟
اس مدرسہ میں ہونے والی اہم تعمیرات نو اور تجدیدات کب انجام پائیں؟
مدرسه غرویہ
مدرسہ غرویہ نجف اشرف کے قدیم اور مشہور دینی مدارس میں سے ایک ہے۔ شاہ عباس صفوی نے اس مدرسہ کو حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام کے روضہ مبارکہ کے نئے صحن کی تعمیر کے ساتھ ہی سن 1023 ہجری (1614 عیسوی) میں بنوایا تھا۔
حرم مقدس امیرالمؤمنین علیہ السلام کا صحن اور اس کے اطراف کی قدیم مساجد دینی علوم کی تدریس کے لیےبے نظیر مقام تھیں۔ اسی لئے مدرسہ غرویہ میں استقامت اور علمی تحرک قائم تھا۔ یہ مدرسہ طلاب علوم دینی اور زائرین سے بھرا رہتا تھا، جہاں سے لاتعداد علماء و مشائخ نے فراغت حاصل کی۔
شیخ جعفر محبوبہ اپنی کتاب "ماضی النجف و حاضرها” میں لکھتے ہیں: "مجھے کتاب اصول کافی کا ایک قلمی نسخہ ملا جس کے آخر میں درج تھا: "کتاب اصول کافی بدست فقیر الی اللہ "یوسف بن عبدالحسین النجفی” المعروف بہ "صلنباوی” کے ہاتھوں مدرسہ غرویہ میں پہنچی۔ اللہ کا درود و سلام ہو اس کتاب کے مطالعہ کرنے والوں پر – بروز منگل 29 رجب 1069 ہجری۔”
اسی زمانے میں ہی "شیخ ابراہیم عبداللہ بن موسیٰ مغربی” نے بھی مدرسہ غرویہ میں کتاب "مشیخة الاستبصار” تصنیف کی۔ محبوبہ کہتے ہیں: "میں نے استبصار کا ایک نسخہ دیکھا جس کے آخر میں لکھا تھا: فرج اللہ بن فیاض جزائری نجفی نے 1043 ہجری میں مدرسہ رومی (جو گنبد غرویہ کے پاس واقع ہے اور بظاہر یہی مدرسہ ہے) میں اسے مکمل کیا۔”
شیخ محمد حرز الدین اپنی کتاب "معارف الرجال”میں "شیخ زین العابدین تبریزی نجفی”کے حالاتِ زندگی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "وہ مدرسہ غرویہ کے صحن مقدس میں مقیم تھے، یه کئی سال تک وہاں پر میرے بھائی”شیخ حسن حرز الدین” (متوفی 1304 ہجری) کے ساتھ رہائش پذیر رہے۔”
"سید محمد حسن نجفی قوچانی”سن 1318 ہجری میں دینی علوم کے حصول کے لیے ایران سے نجف اشرف تشریف لائے اور مدرسہ غرویہ کے ایک حجرے میں سکونت اختیار کی۔ "
قوچانی اپنی کتاب "سیاحت فی الشرق” میں تحریر فرماتے ہیں: "ہم حرم مطہر کے شمالی جانب ایک دروازے کے قریب پہنچے جو بیت الخلاء کی طرف جاتا تھا۔ وہاں سے ہم ایک ایسی جگہ داخل ہوئے جو ہمیں ایک پرانے اور خستہ حال مدرسے کی طرف لےجاتی تھی، جس کا دروازہ حرم کے صحن کے درمیان میں کھلتا تھا۔ اس کی دیواریں اور دروازہ سیاہ اور قدیم تھے۔ اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ یہ مدرسہ یا تو صحن کی تعمیر کے ساتھ ہی بنا ہوگا، یا پھر یہ زائرین کے قیام کی جگہ تھی جو بعد میں صفوی دور میں مدرسہ میں تبدیل کر دی گئی ہوگی۔”
شیخ محمد حسین حرز الدین اپنی کتاب "تاریخ النجف الاشرف”میں لکھتے ہیں: "ترکوں کے دورِ حکومت میں، سن 1286 ہجری میں فوجی خدمت کے قانون نافذ ہونے کے بعد، یہ مدرسہ بہت اہمیت اختیار کر گیا۔ عثمانی حکومت نے اس مدرسے کے لیے ایک خاص استاد مقرر کیا، اور بہت سے دینی طلباء اس مدرسے کا رخ کرنے لگے۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ حکومت نے ایک خاص قانون پاس کیا تھا جس کے تحت اس مدرسے میں پڑھنے والے اور امتحانات میں شریک ہونے والے طلباء فوجی خدمت سے مستثنیٰ رہیں گے۔ عثمانی حکومت نے اس کے بعدبھی کئی علاقوں اور صوبوں میں مدارس قائم کیے۔ مدرسہ غرویہ بھی چوتھی صدی ہجری کے اوائل تک نجف کے سرکاری مدارس میں سے ایک شمار ہوتا تھا، لیکن بعد میں اس کے حجروں اور دروازوں کو منہدم کر دیا گیا اور مدرسہ بند ہو گیا۔”
مدرسہ غرویہ کی تاریخی حیثیت
"عبدالہادی ابراہیمی”، جو حرم مقدس امیرالمومنین کی انتظامیہ کے رکن، مورخ اور حرم امیرالمومنین علیہ السلام کے ماہر تعمیرات ہیں، نے اس مدرسہ کے قیام کی تاریخ کے بارے میں تفصیلی وضاحت کی ہے اور اس بات کی بھی وضاحت کی ہے کہ آیا "مدرسہ غرویہ” نجف اشرف کے قدیم ترین دینی مدارس میں شمار ہوتا بھی ہے یا نہیں، تفصیلی وضاحت کچھ اس طرح ہے:
مورخین کا ماننا ہے کہ مدرسہ غرویہ "شاہ عباس اول” کے حکم سے تعمیر کیا گیا تھا۔ جس طرح سے موجودہ حرم امیرالمومنین علیہ السلام کی تعمیر بھی شاہ عباس اول کے حکم پر 1023 ہجری (1614 عیسوی) میں ہوئی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس مدرسہ کی تعمیر بھی اسی دور میں حرم امیرالمومنین علیہ السلام کی تعمیر کے ہم عصر تھی۔
جیسا کہ آپ جانتے ہیں، نجف ایک قدیم اسلامی شہر ہے اور دنیائے اسلام کے تمام حوزہ ہائے علمیہ کی ماں سمجھا جاتا ہے۔ مختلف صدیوں میں اس شہر میں بے شمار دینی مدارس قائم ہوئے۔ ان میں سے کچھ مدارس تو وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہو گئے، جبکہ کچھ آج بھی آباد ہیں اور اندرون و بیرون ملک سے آئے ہوئے طلباء ان میں سکونت پذیر ہیں اور اپنی حوزوی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ہم صحن علوی کے ارد گرد تمام متصل عمارتوں میں موجود حجروں کو صحن علوی کے اولین مدارس شمار کرتے ہیں۔ یہ مدرسہ چونکہ حرم امیرالمومنین علیہ السلام کے صحن مبارک کے بالکل ساتھ واقع ہے، اسی وجہ سے "مدرسہ غرویہ” کے نام سے مشہور ہوا ہے۔
شہر مقدس نجف میں اور بھی دیگر قدیم مدارس موجود ہیں۔ ان میں سب سے زیاده قدیم، ممتاز عالم "مقداد سیوری” کا مدرسہ ہے جو بعد میں "سلیمانیہ مدرسہ” کے نام سے مشہور ہوا۔ یہ مدرسہ "مشراق” کے علاقے میں، امام زین العابدین علیہ السلام روڈ اور نجف اشرف کے مرکزی بازار کے درمیان واقع تھا۔ سلیمیہ مدرسہ کئی سال پہلے مسمار کر دیا گیا اور افسوس کہ اس کی بحالی نہیں ہو سکی، کیونکہ ذمہ داران اور متعلقہ افراد اس تاریخی مدرسہ کی مرمت کی اہمیت کے قائل نهیں تھے۔ اس وقت چار صدیوں سے بھی زائد عرصے کی تاریخ کے ساتھ، مدرسہ غرویہ ،نجف اشرف کا قدیمی ترین فعال دینی مدرسہ سمجھا جاتا ہے۔
مدرسه غرویہ کے برجسته ترین علماء
مدرسہ غرویہ میں تعلیم حاصل کرنے والے نمایاں علماء کا تذکره کرتے ہوئے عبدالہادی ابراہیمی لکھتے ہیں:
"سینکڑوں بلکہ شاید ہزاروں طلباء، فقہاء اور نامور علماء نے اس مدرسے میں قیام کیا اور یہاں تعلیم حاصل کی۔ ان ممتاز شخصیات میں شیخ زین العابدین مرندی، شیخ محمد حرزالدین اور ان کے بھائی شیخ حسن حرزالدین کے علاوہ علامہ شیخ محمد حسن قوچانی (کتاب السیاحہ فی الشرق کے مصنف) جیسی ہستیاں شامل ہیں۔”
"علامہ شیخ محمد حسن قوچانی نہ صرف اس مدرسے میں مقیم رہے، بلکہ انہوں نے اس کی تعمیراتی خصوصیات کو بھی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: یہ مدرسہ دو منزلہ ہے جس کے ایوان مرکزی حصے کی طرف کھلتے ہیں، جبکہ اس کا داخلی دروازہ شمالی جانب یعنی صحنِ مبارک امیرالمومنین علیہ السلام کی طرف واقع ہے۔ درحقیقت، نجف کے تمام دینی مدارس کی تعمیراتی ساخت بھی اسی طرز پر ہے۔”
جیسا کہ پہلے ذکر ہوا، شیخ جعفر محبوبہ نے کتاب "ماضی النجف و حاضرها'”میں لکھا ہے: "میں نے اس مدرسے میں رہنے والے علماء کی تالیف کردہ کتابوں کے متعدد نسخوں کا مطالعہ کیا ہے۔”
شیخ محبوبہ اس سلسلے میں شیخ طوسی کی کتاب "استبصار” کا حوالہ دیتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے وه کتاب دیکھی هے جس کو”شیخ فرج اللہ جزایری” نے 1043 ہجری میں نقل کیا تھا۔
علامہ کلینی کی تصنیف شده ایک اور کتاب "اصول کافی” ہے جس کو "شیخ یوسف السلام باوی” نے 1069 ہجری میں نقل کیا تھا۔ واضح سی بات ہے کہ یہ تاریخیں مدرسہ غرویہ کی تعمیر (1023 ہجری) کے قریبی زمانے سے تعلق رکھتی ہیں۔
مورخین نے اس مدرسہ سے متعلق ایک اہم واقعہ بیان کیا ہے جو سلطان عبدالعزیز عثمانی کے دور (1286 ہجری/1869 عیسوی) سے تعلق رکھتا ہے۔ روایت ہے کہ عثمانی حکومت نے لازمی فوجی خدمت کا قانون نافذ کیا جس میں نجف اشرف کے نوجوان بھی شامل تھے۔ لیکن ساتھ ہی ایک اور قانون جاری کیا گیا جس کے تحت اس مدرسہ میں زیر تعلیم اور امتحانات میں شریک طلباء فوجی خدمت سے مستثنیٰ ہو گئے۔
اس قانون کے نتیجے میں نجف اشرف کے بہت سے نوجوانوں نے مدرسہ میں داخلہ لے کر فوجی خدمت سے چھٹکارا حاصل کرلیا۔ درحقیقت، بڑی تعداد میں طلباء نے یہاں دینی علوم حاصل کیے اور مدرسہ کے امتحانات میں شرکت کی۔ یہ ایک انتہائی اہم اور مشہور واقعہ ہے۔ لیکن افسوس کہ بعد میں مدرسہ غرویہ کی طرف سے لاپروائی برتی گئی اور یہ بند ہو گیا۔
مدرسہ غرویہ کی تعمیر نو
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا گزشتہ چار دہائیوں کے دوران مدرسہ غرویہ کی ابھی تک مرمت اور تجدید کی گئی ہے یا نہیں؟
عبدالہادی ابراہیمی اس بارے میں کہتے ہیں: "افسوس کہ ذمہ داران نے اس مدرسے کی تاریخی اہمیت اور حرم امیرالمومنین علیہ السلام سے قریب ہونے کے باوجود اس کی طرف سے غفلت برتی اور دیکھ بھال نہ ہونے کے باعث مدرسے کی دیواریں منہدم ہو گئیں۔ یہاں تک کہ نجف کے ایک تاجر محسن سید ہاشم زینی نے 1359 ہجری (1931ء) میں مدرسے کی تعمیر نو کا بیڑا اٹھایا۔
شیخ الخطباء محمد علی یعقوبی نے اس مدرسے کی تعمیر نو کی تاریخ بیان کی ہے۔ مدرسہ غرویہ کی مرمت اور تجدید کے بعد اسے دوبارہ کھول دیا گیا، درحقیقت یہ ایک حسینیہ یا زائرین کے لیے آرام گاہ اور مذہبی رسومات کی ادائیگی کی جگہ بن گیا۔
افسوس کہ تقریبا ایک صدی گزرنے کے بعد یہ مدرسہ پھر سے نظرانداز کردیا گیا، نتیجتاً بند ہو کر تباہ ہوگیا اور بعثی حکومت کے خاتمے تک یہ کوڑے اور تعمیراتی سامان کے گودام میں تبدیل ہوگیا تھا۔
بعثی حکومت کے زوال کے بعد حرم امیرالمومنین علیہ السلام کی بحالی کے بڑے منصوبے کے تحت جس میں آستانہ مقدسہ علویہ کے بعض حصے بھی شامل تھے، پہلے مدرسے کے باقی ماندہ کمرے 1426 ہجری (2005 عیسوی) میں گرائے گئے اور پھر دو منزل اور ایک تہہ خانہ دوبارہ تعمیر کیے گئے۔
مدرسے کے ایوانوں کا طرز تعمیر صفوی طرز کے ایوانوں جیسا ہے جو اس کے اصل ڈیزائن سے مختلف ہے۔ لیکن اس کی وجہ سے حوزہ علمیہ کی تعلیم دوبارہ "شیخ محمد باقر ایروانی” اور "شیخ ہادی آل راضی” کے ذریعے اس مدرسےسے شروع ہوئی۔
1350 ہجری (1931 عیسوی) میں نجف اشرف کے ایک معزز شخص "سید ہاشم زینی” نے اس مدرسے کی مرمت کروائی اور اسے زائرین کے لیے آرام گاہ میں تبدیل کردیا۔ "شیخ محمد علی یعقوبی” نے مدرسے کی نئی تعمیراتی تاریخ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
حَازَ يَا هَاشِمُ زَيْنِي رُتْبَةً ** لَمْ يَحُزْهَا أَبَدًا مَنْ قَدْ سَلَفْ
دَارُكَ الْخُلْدُ غَدًا إِذْ أَرَّخُوا ** شَيَّدَتْ لِلزُّوَّارِ دَارًا بِالْنَّجَفْ
"اے ہاشم زینی! تم نے وہ مقام حاصل ک کرلیا جو تم سے پہلے کسی نے نہ پایا۔ تمہارا جنت میں گھر ہے، جب لوگ تاریخ رقم کریں گے تو کہیں گے: اس نے زائرین کے لیے نجف میں ایک گھر بنایا۔”
"مدرسہ غرویہ کو حال ہی میں حرم مقدس امیرالمومنین کی انتظامیہ کی جانب سے مکمل طور پر ازسرنو تعمیر کیا گیا ہے، جسے 2005ء میں جدید معماری کے ساتھ دوبارہ تعمیر کیا گیا۔ یہ مدرسہ دو منزلہ ہے جس کے ایوان صفوی طرزِ تعمیر کے مطابق بنائے گئے ہیں۔ مدرسے کے دو داخلی دروازے ہیں پہلا دروازہ صحن مبارک کے بیرونی حصے کی طرف کھلتا ہے۔ دوسرا دروازہ صحن کے اندر، مشرقی جانب کے تیسرے ایوان (دائیں طرف) سے منسلک ہے۔ اس مدرسے کو 2009ء میں باقاعدہ طور پر طلاب علوم دینی کے لیے بحال کیا گیا اور اس وقت یہ دینی تعلیم کا فعال مرکز ہے۔”